"AAC" (space) message & send to 7575

فٹ پرنٹ

مینارِ پاکستان گراؤنڈ میں پیش آنے والا ناخوشگوار واقعہ کئی ڈرامائی موڑ مڑنے کے بعد تضادات کی پگڈنڈیوں پر آچکا ہے جبکہ لاہور پولیس کے چند افسران سمیت پی ایچ اے کے ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر بھی اس واقعہ کی نذر ہو چکے ہیں۔ یہ معطلیاں اور تبادلے حکمرانوں کی پرانی روایت ہے۔ کوئی حادثہ ہو یا سانحہ‘ انہونی ہو یا واقعہ‘ بَلی کا بکرا سرکاری مشینری کو ہی بنایا جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر ہنرمند اپنا کام خوب دکھاتے ہیں اور بَلی کے اس عمل کے دوران گیہوں کے ساتھ گھن پیسنے والے ہوں یا موقع شناس‘ سبھی اپنا اپنا حصہ ڈال کر نجانے کون کون سے حساب چکا ڈالتے ہیں۔ درجنوں افراد کی گرفتاری‘ شناخت اور پوچھ گچھ‘ کا عمل جاری ہے‘ سوشل میڈیا پر سیلابی کیفیت برقرار ہے‘ پس منظر سے لے کر پیش رفت تک سبھی مراحل پر دانش وری اور اپ ڈیٹ کی لہریں اعصاب اور نفسیات کو بہائے لیے چلی جا رہی ہیں۔ فرائض سے کوتاہی ہو یا عجلت کے فیصلے‘ سوشل میڈیا کا پریشر ہو یا حکمرانوں کا مائنڈ سیٹ‘ ہر طرف بھیڑ چال کا منظر نظر آتا ہے۔ اس افراتفری اور عجلت میں اس واقعہ کے فٹ پرنٹ کہیں مدھم اور کہیں مسخ بھی ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں اصل حقائق اور پورا سچ گم ہونے کا خدشہ بتدریج بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
یہ اعزاز بھی مملکت خداداد کے حکمرانوں کو ہی جاتا ہے کہ ٹرین حادثہ ہو یا فضائی سانحہ‘ طرزِ حکمرانی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ناخوشگوار صورت حال ہو یا واقعات یہ سبھی بری الذمہ اور دودھ کے دھلے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ٹرین حادثے کے بعد وزیر ریلوے روایتی بھاشن کے بعد کبھی کانٹا بدلنے والے کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو کبھی پھاٹک کھولنے والے کو‘ اس کے بعد چند سرکاری بابوؤں کی معطلی کی خوش خبری سنا کر قوم کو اگلے حادثے تک بہلا جاتے ہیں۔ اسی طرح دیگر حادثات اور سانحات میں بھی حکمران افسران کی قربانی دے کر اپنے سر سے بلا ٹال جاتے ہیں۔ تعجب ہے کہ جب یہ کسی حادثے اور سانحے کے ذمہ دار ہی نہیں تو فیصلہ سازی کا اختیار ان کے ہاتھوں میں کیوں؟ جب فیصلے یہ کریں گے‘ ترجیحات ان کی ہوں گی‘ تقرریاں اور تبادلے ان کی من مرضی کے مطابق ہوں گے‘ پالیسیوں اور ضابطوں پر بھی یہی اثر انداز ہوں گے تو پھر بَلی کا بکرا صرف سرکاری افسران کیوں؟
حادثات اور سانحات کے نتیجے میں سرکاری بابوؤں کی قربانی تو روزِ اول سے دی جا رہی ہے لیکن بلا ہے کہ ٹلنے کا نام ہی نہیں لیتی‘ مسلسل قربانی دینے کے باوجود بھی آفات کا نہ ٹلنا کہیں اس بات کا اشارہ تو نہیں کہ ہمارے مصائب اور بلاؤں کو ٹالنے کے لیے سرکاری بابوؤں اور چھوٹے ملازمین کی قربانی نہ صرف ناکافی ہے بلکہ رد کر دی جاتی ہے۔ تاہم ردِ بلا کے لیے متعلقہ وزیروں اور مشیروں کی قربانی دینا شروع کر دی جائے تو عین ممکن ہے کہ آفات اور مصائب نہ صرف ٹلنا شروع ہو جائیں بلکہ مستقبل میں قربانی دینے کی ضرورت بھی کم ہی پیش آیا کرے کیونکہ اصل فیصلہ ساز سیاسی اشرافیہ کو اپنی طرزِ حکمرانی کی قیمت چکانے کے لیے جب قربانی کے بکرے سرکاری ملازمین کی صورت میں ہمہ وقت دستیاب ہوں تو وہ ذمہ داری سے کیوں فرار اختیار نہ کریں؟ مفت مشورہ پیش خدمت ہے کہ آئندہ کسی نا خوش گوار واقعہ یا حادثہ کی صورت میں سرکاری ملازمین کی قربانی کے ساتھ متعلقہ وزیر یا مشیر کو بھی ہٹا دینے کا تجربہ ضرور کر لینا چاہیے یقینا سو فیصد نتائج حاصل ہوں گے۔
مینارِ پاکستان کا واقعہ یقینا پورے ملک کے لیے افسوسناک اور باعثِ تشویش ہے۔ ا س کا پس منظر اور اہداف کچھ بھی ہوں لیکن منظر نامہ یقینا شرمناک اور باعثِ ندامت ہے۔ اسے دھکے سے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ تو بنا ہی دیا گیا ہے لیکن یہ مقامِ فکر ہے کہ نفسانی خواہشات اخلاقی اقدار اور سماجی روایات کر نگل رہی ہیں۔ تعلیمات اور اخلاقیات کا جنازہ آئے روز بڑی دھوم دھام سے نکلتا ہے اور یہ جنازہ جتنا بڑا ہوتا چلا جا رہا ہے مایوسی اور اندیشے اسی قدر بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ بارہا عرض کر چکا ہوں کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اخلاقیات کا ہے‘ جس دن یہ مسئلہ حل ہو گیا‘ اقتصادیات سے لے کر سماجیات تک ہمارے سبھی مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جائیں گے۔
اخلاقی گراوٹ اور ہوس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ شیر خوار بچوں کو بھی معاف نہیں کیا جاتا۔ ان کی اولین اور بنیادی خوراک دودھ بھی انہیں پلانے کے قابل نہیں۔ بیرون ممالک سے بین الاقوامی برانڈز کے دودھ کے ڈبے سکریپ کے نام پر منگوائے جاتے ہیں جن کی تاریخ میعاد دوبارہ پرنٹ کر کے انہیں تازہ اور قابلِ استعمال ظاہر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ٹن پیک مشروبات‘ چاکلیٹ‘ بسکٹ سمیت دیگر اشیائے خورونوش سے مال بنانے کے لیے سوچ اور اپروچ یہی ہے کہ بس دھندا چلنا چاہیے‘ کوئی جیے یا مرے‘ ان کی بلا سے۔ جبکہ زیادہ کمانے کی دھن میں کاسمیٹکس سے لے کر ملکی اور غیر ملکی برانڈ کے جعلی سگریٹوں تک کافی کچھ ملک بھر میں سرِ عام فروخت ہو رہا ہے۔ یہ چیزیں بڑے سٹورز سے لے کر گلی محلے کی عام چھوٹی دکانوں تک سر عام فروخت کی جاتی ہیں۔ اسی طرح چائے کی پتی سے لے کر اسپغول کے چھلکے تک‘ مرچ مصالحوں سے لے کر بیسن تک‘ دالوں اور خوردنی تیل سے لے کر گھی سمیت نجانے کس کس چیز میں کیا کیا زہر کس دیدہ دلیری اور سفاکی سے ملایا اور عوام کو کھلایا جا رہا ہے۔ کاروبار اور روزگار کے نام پر ان غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث لوگ عوام کو موذی بیماریوں اور ہلاکتوں سے دوچار کر کے اپنی اپنی دنیا سنوارے چلے جا رہے ہیں۔ ان چشم کشا حقائق کی تصدیق کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ یہ سبھی وارداتیں دور دراز علاقوں میں نہیں بلکہ بڑے شہروں کی مارکیٹیں ان اشیا کے سٹاکس سے بھری پڑی ہیں۔ بڑے شہروں کے یہ حالات ہیں تو چھوٹے شہروں اور مضافاتی علاقوں میں کیا طوفان برپا ہوتا ہو گا‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
جس معاشرے میں سزا اور جزا کا تصور خواب و خیال بن کر رہ جائے اور طاقت ور پر سزا حرام اور کمزور پر واجب قرار دے دی جائے وہاں اخلاقی قدروں‘ سماجی روایات اور تعلیمات کے جنازے بھی اسی طرح نکلتے نظر آئیں گے۔ دل آزاری سے لے کر حق تلفیوں تک‘ زیادتیوں سے لے کر جبر و ظلم تک‘ نیت سے لے کر ارادوں تک‘ گورننس سے لے کر میرٹ تک‘ چور بازاری سے لے کر لوٹ مار تک‘ سرکاری وسائل پر موج مستی سے لے کر کنبہ پروری اور بندہ نوازی تک‘ مکاری و عیاری سے لے کر سہولت کاری تک‘ گلی محلے کی صفائی سے لے کر ہاتھ کی صفائی تک‘ جب ہر کسی کو کھلی چھٹی ہو اور ہر جگہ دُہرا معیار رائج ہو تو ایسے معاشرے میں سانحات اور حادثات کون روک سکتا ہے؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اخلاقی گراوٹ کے ایسے دور میں حادثات اور سانحات انڈے بچے دینا شروع کر دیتے ہیں۔ حادثات اور سانحات کی افزائش اور پرورش بھی وہی سسٹم کرتا ہے جس کے نتیجے میں یہ حادثات اور سانحات رونما ہوتے ہیں۔ مزید تفصیلات میں جانے کے بجائے اختصار اور احتیاط ہی بہتر ہے۔ تاہم حالات کی عکاسی کے لیے محترم عطاالحق قاسمی کا یہ شعر بطور استعارہ پیش کر رہا ہوں: ؎
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہیے
پوری دنیا پر غالب اقوام اور ممالک نے حضرت علیؓ سے منسوب اس قول کو عملاً ثابت کر دیا ہے کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے مگر ظلم کا نظام ہرگز نہیں چل سکتا۔ سماجی انصاف اور مساوات کے بغیر نہ یہ نظام چل سکتا ہے اور نہ ہی یہ معاشرہ مزید چلنے کی سکت رکھتا ہے۔ اس معاشرے کی ڈوبتی نبض اور ٹوٹتی سانسوں کو بحال کرنے کے لیے اپنی تعلیمات اور اخلاقیات کے جنازے روکنا ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں