ایک بار پھر انتظامی مشینری کو گورننس کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرا کروسیع پیمانے پرتبادلوں کے بعد کہیں بھونچال کا سا سماں ہے تو کہیں سرکاری بابو تبادلوں کے سیلابی ریلے کی نذر دکھائی دیتے ہیں۔تحریک انصاف کی حکومت کے تین سالہ عرصہ اقتدار میں یہ صورتحال کئی بار دہرائی جاچکی ہے۔ جہاں ریفارمز کے ڈھول بجائے گئے تھے وہاں ڈیفارمز کے جابجا ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔وزیراعظم سمیت حکومت کے سبھی سرکردہ لوگ روزِ اول سے ہی بیوروکریسی کو نشانے پر رکھے ہوئے ہیں۔واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ برسر اقتدار آتے ہی تحریک انصاف 100روزہ کارکردگی کے بڑے بول میں پھنس جانے کے بعد ناکامی کی ذمہ داری بھی انتظامی مشینری پر ہی ڈالتی رہی جبکہ حکومت میں موجود اکثریتی چیمپئنز ایک خاص مائنڈ سیٹ کے تحت ان سبھی افسران سے نالاں اور شاکی رہے جو شریف برادران کے دورِ حکومت پر اہم عہدوں پر تعینات تھے اور اسی سوچ کے تحت انتظامی افسران کی ناتجربہ کاراور بی ٹیم پر انحصار کرکے بلند بانگ دعوے تو کربیٹھے لیکن یہ سبھی دعوے حکومت کے سیاسی و انتظامی کھلاڑیوں کی صلاحیت سے بڑے ثابت ہوئے۔ 100دن کی کارکردگی کے بیانیے کا انجام بالآخر سبکی اور جگ ہنسائی پرہی ہوا۔
تحریک انصاف تین سالہ دورِاقتدار میں ایف بی آر کے چھٹے چیئرمین‘چوتھے وفاقی وزیرخزانہ‘چوتھے وفاقی وزیراطلاعات و نشریات کے ساتھ جبکہ پنجاب میں چھٹے آئی جی ‘چوتھے سی سی پی او لاہور‘چوتھے چیف سیکرٹری ‘پانچویں صوبائی وزیر اطلاعات کے ساتھ گورننس پر نازاں ہے۔دیگر محکموں اور وزارتوں میں یکے بعد دیگرے تبدیلیوں کے حالات زیادہ بہتر اور مختلف نہیں ہیں۔حکمران ماضی کے ہوں یا دور ِحاضر کے مائنڈ سیٹ کم و بیش ایک ہی نظر آتا ہے۔سابقہ ادوار میں شہباز شریف انتظامی افسرا ن کی انڈر 19ٹیم کو اہم عہدوں پر لگاکر میرٹ کوتار تار کرتے رہے ہیں۔اسی روایت کو تحریک انصاف بھی بدستور دوام بخشے چلے جارہی ہے۔صوبائی دارالحکومت میں شہباز شریف کی روش کو قائم رکھتے ہوئے گریڈ 18کا ڈپٹی کمشنر تعینات کیا گیا ہے جبکہ چھوٹے اور دیگر اضلاع میں گریڈ 19کے ڈپٹی کمشنر لگا کر میرٹ کی نئی تاریخ رقم کی جارہی ہے۔اسی طرح دیگر محکموں میں بھی افسران کی تقرری اور انتخاب کے لیے لابی کے ساتھ ساتھ بریفنگ اور ڈی بریفنگ کا عمل دخل بھی خوب دکھائی دیتا ہے۔
خلقِ خدا کی ضروریات اور حاجات سے وابستہ ہونا یقینا باعثِ اعزاز ہے۔ ربِ کائنات یہ اعزاز اپنے منتخب بندوں کو ہی عطا کرتا ہے۔ گورننس جہاں قدرت کا بہت بڑا انعام ہے اس سے کہیں بڑھ کر امتحان بھی ہے۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ گورننس کے مواقع قدرت نے سبھی کو عطا کیے ہیں۔ اس عطا میں خطا کی گنجائش ہرگز نہیں۔ خطا کے باوجود عطا جاری رہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ قدرت مزید مہلت دے رہی ہے۔ اس مہلت کو نعمت اور غنیمت جان کر طرزِ حکمرانی اور دیگر معاملات پر نظرثانی ضرور کرلینی چاہئے۔ کہیں کوئی بھول چوک اور خطا تو سرزد نہیں ہوگئی۔ بدقسمتی سے مملکت خداداد میں روزِ اول سے لمحہ ٔموجود تک جسے بھی گورننس کی نعمت عطا ہوئی وہ اس عطا کو اپنی مہارت اور اہلیت سے منسوب کرکے اپنی ہی ادا کا کرشمہ سمجھ بیٹھا۔ گویا یہ قدرت کی عطا نہیں بلکہ اس کی کسی ادا کا چمتکار ہے۔
پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ وژن کا فقدان ہو اور خیالات کی یافت نہ ہو تو الفاظ کی فضول خرچی سے گریز کرنا چاہیے‘ خصوصاً حکمرانوں کی زبان و بیان عملی تصویر نہ بنے تو سب کچھ الفاظ کا گورکھ دھندا ہی لگتا ہے۔ موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس کی شعلہ بیانیاں ہوں یا بلند بانگ دعوے‘ انقلابی اقدامات کے اعلانات ہوں یا مفادِ عامہ کے فیصلوں کی خوشخبریاں‘ سبھی کو دیکھ کریوں لگتا ہے جیسے کسی نے کوئی پرانا ریکارڈ لگا دیا ہو جبکہ گورننس اور کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ یہ دونوں ہی گا‘ گے‘ گی تک محدود ہیں۔ وہی بیانات‘ وہی اعلانات‘ وہی دعوے اور سنہری مستقبل کی وہی خوشخبریاں‘ آج بھی پہلے ہی کی طرح عوام کو دیے چلے جا رہے ہیں۔
جس پاکستان کو نیا ثابت کرنے کی سرکاری کوششیں تین سال سے جاری ہیں اس میں بسنے والے گورننس کی تاب نہ لاتے ہوئے پرانے پاکستان کو ترس گئے ہیں۔ کرپشن صرف مالی ہی نہیں بلکہ انتظامی بھی ہوتی ہے۔ انتظامی کرپشن کی قیمت قوموں اور نسلوں کو چکانا پڑتی ہے۔ یہاں تو کیا وزیر‘ کیا مشیر‘ سبھی کے درمیان مقابلے کا سماں دکھائی دیتا ہے کہ پارٹی کے بیانیوں اور دعووں کی کون کتنی نفی کرتا ہے۔ ماضی کی مالی بدعنوانیاں ہوں یا انتظامی‘سبھی کے ریکارڈ‘ریکارڈ مدت میں ٹوٹتے دکھائی دیتے ہیں۔فیصلہ سازوں کے ارادوں اور نیتوں سے لے کر عملوں تک سبھی کچھ تو عیاں ہوچکا ہے۔ ریاست کے وسائل سے کھلواڑ کرنے والے پانچ سال بعد خدا جانے کہاں ہوں گے؟ اکثر فیصلہ ساز تواپنا ٹارگٹ پورا ہوتے ہی اڑن چھو ہوجائیں گے اور عوام اس بار بھی ہمیشہ کی طرح لکیر پیٹتے رہ جائیں گے۔
جہاں حادثات ،سانحات اور بڑے مالی و انتظامی سکینڈلز کے ذمہ داران کوبچانے اور رد بلا کیلئے چھوٹے افسران کی قربانی دینے کا رواج عام ہو وہاں حکمرانی عوامی نمائندوں کی نہیں مافیاز کی ہوتی ہے اور عوام اسی مغالطے میں رہتے ہیں کہ ان کے نمائندے ایوانوں میں بیٹھ کر ان کے مسائل کا حل اور جذبات کی ترجمانی کر رہے ہیں۔جن شعبوں میں ریفارمز کے دعوے کیے گئے تھے‘ وہاں ڈیفارمز کے انبار لگ چکے ہیں۔ پولیس ہو یا افسر شاہی‘ سبھی پر اتنے تجربات کیے جا چکے ہیں کہ اب ان سے پرفارمنس کی توقع کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اقتصادی اصلاحات دعووں اور شعلہ بیانیوں تک ہی محدود ہے جبکہ عوام کے چولہے بدستور ٹھنڈے پڑے ہیں۔ کاش بیانیے کے شعلوں کی کوئی ایک آدھ چنگاری عوام کے چولہوں تک بھی پہنچ پاتی۔
(ن) لیگ کی طرزِ حکمرانی کے سیاسی و انتظامی کئی تجربات انصاف سرکار دہرانے کی ضد پر مسلسل قائم ہے کہ نمونے کے طور پر ایک ضد پیش خدمت ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو انتظامی اور سیاسی فیصلوں کے اختیار سے محروم کر کے تابع ہی رکھا جائے۔ یہ تجربہ نواز شریف نے 1990ء میں وزیر اعظم بننے کے بعد غلام حیدر وائیں کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا کرکیا تھا۔ وزارت اعلیٰ کا قلمدان غلام حیدر وائیں کے پاس تھا لیکن قلم کی طاقت وزیر اعظم نواز شریف کے پاس تھی جبکہ اکثر انتظامی معاملات اور اہم فیصلوں پر شہباز شریف اثر انداز نظر آتے تھے۔ وزیر اعظم ویک اینڈ پر صوبائی دارالحکومت میں لینڈ کیا کرتے تھے اور باغِ جناح میں چوکے چھکے لگایا کرتے تھے۔ کرکٹ کے بعد اکثر گرائونڈ میں ہی اہم انتظامی اور سیاسی فیصلے کیا کرتے تھے۔ وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں منظوری کی طلب گار اہم فائلوں پر وزیر اعظم کی منشا اور اشارے کے بغیر دستخط نہیں کیا کرتے تھے‘ مگر بے اختیار وزیر اعلیٰ بتدریج حکمران جماعت کیلئے آزمائش بنتے چلے گئے۔ حریف تو حریف حلیف بھی نالاں اور تحفظات کا شکار دکھائی دیتے تھے۔
آج بھی سب سے بڑے صوبے کا سیاسی و انتظامی منظر نامہ نواز شریف کے طرز حکمرانی کا ایکشن ری پلے دکھائی دیتا ہے۔مافیاز کیخلاف بھاشن دینے والے ہوں یا انہیں للکارنے والے‘برسراقتدار آنے کے بعد سبھی گھل مل جاتے ہیں۔کوئی سہولت کار بن جاتا ہے تو کوئی مافیا کا حصہ بن جاتا ہے۔ انرجی مافیا ہو یاشوگر مافیا ‘آٹا مافیا ہو یالینڈ مافیا یا ٹرانسپورٹ مافیا‘اس ملک میں نجانے کیسے کیسے مافیاز گورننس اور میرٹ کو شرمسار اور تارتار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔شوگر مافیا کے خلاف برسرپیکار حکومت کو مفت مشورے کے ساتھ ایک ٹیسٹ کیس پیش خدمت ہے کہ برآمدی مافیا کی سبسڈی /ریفنڈ کا بھی فرانزک آڈٹ ضرور کروا لینا چاہیے کہ انرجی اور ٹیکسز کی مد میں ریفنڈ کے نام پر معیشت کوکیسے چونا لگایا جارہا ہے اور کون کون سے ٹیکے کس کس کی سہولت کاری کے نتیجے میں لگائے جارہے ہیں۔