جہاں کوالیفکیشن ڈسکوالیفکیشن اور ڈسکوالیفکیشن کوالیفکیشن بنتے دیر نہ لگتی ہو‘ تبدیلی سرکار محض تبادلوں کی سرکار دکھائی دے‘ ریفارمز کے بجائے ڈیفارمز کے ڈھیر جا بجا نظر آئیں‘ وہاں کون سی گورننس اور کہاں کا میرٹ؟ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ افراد اور اقوام اپنی غلطیوں سے نہیں بلکہ غلطیوں پر اصرار اور ضد سے تباہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح غیر سنجیدہ‘ بے حس اور دردِ دل سے عاری معاشرہ ہو یا حکمران‘ سبھی عذاب کا باعث بنتے ہیں۔ عذاب کی کیسی کیسی شکلیں شب و روز ہمیں آئینہ دکھاتی ہیں۔ یہ آئینہ صرف انہیں ہی دکھائی دیتا ہے جو اسے دیکھنا چاہتے ہیں اور اللہ انہیں توفیق دیتا ہے۔ بے موسمی بارشوں سے لے کر فصلوں کی تباہی اور ماضی کے سبھی حکمرانوں سے لے کر دور حاضر کے حکمرانوں تک بد حالی‘ مہنگائی‘ گرانی‘ نفسانفسی‘ اخلاقی گراوٹ‘ سماجی نا انصافی‘ قانون کی بے حرمتی سمیت نجانے کیسے کیسے مناظر عذاب کے سوا اور کیا ہو سکتے ہیں؟ یہ سبھی کچھ رب کی ناراضی اور خفگی کے نمونے ہیں۔
جب کوئی قوم احکامِ خداوندی کی ممنوعہ حدوں کو روند کر آگے نکل جاتی ہے تو اس پہ بے موسمی بارشوں اور نااہل حکمرانوں کی صورت میں عذاب مسلط کئے جاتے ہیں۔ ذرا اپنے ارد گرد ایک نظر تو دوڑائیے۔ اخلاقی قدریں لیر و لیر ہیں تو قانون و ضابطے سرنگوں دکھائی دیتے ہیں۔ سماجی انصاف کہیں ڈھونڈے سے نہ ملتا ہو‘ مخلوق کی اکثریت بنیادی ضروریات سے محروم ہو اور اقلیت کے پاس ضرورت سے ہزارہا گنا زیادہ ہونے کے باوجود مزید کی ہوس ہو‘ صدمات جس قوم کا مقدر بن چکے ہوں‘ سانحات اور حادثات نے جس کا گھر دیکھ لیا ہو‘ خوف کی ارزانی اور نااہلوں کی فراوانی ہو‘ بیانیوں سے لے کر اقدامات تک‘ نیت سے لے کر ارادوں تک سب جھوٹ کا پلندہ اور الفاظ کا گورکھ دھندہ ہو‘ قتلِ طفلاں سے لے کر ناحق مارے جانے والوں تک‘ سانحات اور حادثات کے رونما ہونے سے لے کر ذمہ داران کو محفوظ راستہ دینے تک‘ طرزِ حکمرانی کے یہ سبھی نمونے کہیں عوام کے اعمال کی سزا تو کہیں مستقبل کا آئینہ دکھائی دیتے ہیں۔
حکمران نوٹس لینے کو ہی گورننس تصور کرتے ہیں جبکہ عوام ان کے نوٹسز کا نوٹس لینا بھی گوارا نہیں کرتے۔ حکمرانوں کی طرزِ حکمرانی اگر خراب ہے تو عوام کے اعمال بھی دعوتِ عذاب دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ حکمرانوں اور عوام کے مابین اکثر مقابلے کا سماں دکھائی دیتا ہے کہ کون کتنا اور کس حد تک جا سکتا ہے۔ گراوٹ کا مقابلہ نجانے کب سے جاری ہے۔ کہیں حکمرانوں کا پلہ بھاری دکھائی دیتا ہے تو کہیں عوام میدان مارتے دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں ٹھنڈی(مردہ) مرغی کی کھلے عام فروخت کو تجارت کا نام دیا جاتا ہو‘ وہاں گراوٹ کا کریڈٹ عوام اور حکمران دونوں کو یکساں جاتا ہے۔ حکمران آنکھیں بند کیے اور بے حسی کی چادر تانے سو رہے ہوں تو مردہ ضمیر‘ عوام کو مردہ مرغی کیوں نہ کھلائیں؟
یوں لگتا ہے کہ ریڑھی بان سے لے کر دکان دار تک‘ آڑھتی سے لے کر کارخانہ دار تک سبھی کے درمیان ہوسِ زر کی دوڑ کا سماں ہے۔ سبھی اپنی اپنی پہنچ کے مطابق معاشرے کو نوچ رہے ہیں۔ جس کے جتنے بڑے دانت ہیں وہ اتنی ہی بڑی بوٹی اڑا رہا ہے۔ شیر خوار بچوں کو بھی معاف نہیں کیا جاتا۔ ان کی اولین اور بنیادی خوراک‘ دودھ بھی انہیں پلانے کے قابل نہیں۔ جان بچانے والی ادویات بھی جہاں اپنے رسک پر کھانا پڑیں وہاں ٹھنڈی مرغی جیسی بے حسی کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ بیرونی ممالک سے بین الاقوامی برانڈز کے زائدالمیعاد خشک دودھ کے ڈبے سکریپ کے نام پر منگوائے جاتے ہیں‘ جن کی تاریخِ میعاد دوبارہ پرنٹ کر کے انہیں تازہ اور قابلِ استعمال ظاہر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ٹن پیک مشروبات‘ چاکلیٹ‘ بسکٹ سمیت دیگر اشیائے خورونوش کے حوالے سے بھی سوچ اور اپروچ یہی ہے کہ بس دھندا چلنا چاہیے۔ کوئی جیے یا مرے ان کی بلا سے‘ جبکہ زیادہ کمانے کی دھن میں کاسمیٹکس سے لے کر ملکی و غیر ملکی برانڈز کے جعلی سگریٹس تک ملک بھر میں سپلائی کیے جاتے ہیں جو بڑے بڑے سٹورز سے لے کر گلی محلے کی دکانوں تک میں فروخت ہو رہے ہیں۔ اسی طرح چائے کی پتی سے لے کر اسپغول کے چھلکے تک‘ مرچ مسالوں سے لے کر بیسن تک‘ دالوں اور خوردنی تیل سے لے کر گھی سمیت نجانے کس کس چیز تک میں کیا کیا زہر کس دیدہ دلیری اور سفاکی سے ملایا اور عوام کو کھلایا جا رہا ہے۔ کاروبار اور روزگار کے نام پر ان غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث عناصر عوام کو موذی بیماریوں اور موت سے دوچار کر کے اپنی اپنی دنیا سنوارنے میں مگن ہیں۔
ابھی کالم یہیں تک پہنچا تھا کہ وٹس ایپ پر موصول ہونے والے ایک میسج نے کالم کے اصل موضوع سے بھٹکا کر دھارا ہی بدل ڈالا۔ وہ میسج معمولی تبدیلی کے ساتھ آپ سے بھی شیئر کرتا چلوں۔ میسج میں کہا گیا تھا کہ آپ کے حالیہ دو کالموں میں گورننس کی صورتحال کے علاوہ تبادلوں اور تقرریوں کے نام پر ہونے والے ٹینڈرز اور دیگر انکشافات کے اگلے ہی روز پنجاب کے اہم ترین افسروں کو وفاق میں ٹرانسفر کر دیا گیا جو بیوروکریسی میں ایک بڑی خبر تھی۔ افسر لوگوں نے پہلے ہی ان سے دانستہ طور پر رابطہ کم اور فاصلہ بڑھا لیا تھا۔ عمومی تاثر یہ تھا کہ یہ لوگ احتساب والوں کے ریڈار پر آ چکے ہیں اور ان کا اختیار اور کردار پہلے جیسا نہیں رہے گا۔ لیکن اب یہ خبر ہے کہ انہی میں سے کوئی جلد ہی ایک اعلیٰ عہدے دار بن کر پنجاب میں واپس آ رہا ہے‘ اگر یہ خبر درست ہے تو بہت سے لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس وٹس ایپ میسج کے پس منظر اور صورتحال کی وضاحت کے لیے عرض کرتا چلوں کہ ماضی کے ادوار سے دور حاضر کا موازنہ کیا جائے تو ایک بات طے ہے کہ کسی سر چڑھے اور چہیتے افسر پر پوسٹنگ ٹرانسفر کے حوالے سے مال بنانے کا الزام اس طرح نہیں لگا جیسے موجودہ حالات میں زبان زد عام ہے۔ سندھ میں پارٹی کی مخصوص ترجیحات اور ان کے روایتی کلچر میں مطلوبہ اہداف کے حصول سے لے کر مال بنانے تک حکمرانوں اور سرکاری بابوئوں کے گٹھ جوڑ کی داستانیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں‘ لیکن ملک کے سب سے بڑے صوبے میں تقرریوں اور تعیناتیوں کا عمل ٹینڈر کا سماں پیش کرتا ہے۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ تمام پُر کشش اور پیداواری عہدوں پر تعیناتی کا روٹ اور طریقہ کار کیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ان تقرریوں اور تعیناتیوں کا نرخ نامہ بھی میڈیا کی زینت بن چکا ہے۔ معاملہ تقرریوں اور تبادلوں سے آگے بڑھ کراب تو احتساب کی فائلوں میں بھی گھر کر چکا ہے۔
دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں کہ حکومت کیلئے بلدیاتی انتخابات کی صورت ایک مشکل ہدف روز بروز اہمیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے اور انتخابی معرکہ مارنے کیلئے ایسی انتظامی مشینری درکارہے جو مطلوبہ نتائج کی فراہمی میں توقعات پر پورا اتر سکتی ہو۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ سیالکوٹ کے ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد ایک لابی اس تھیوری پر کام کر رہی ہے کہ وفاق میں جانے والے افسران کو متوقع پروموشن بورڈ کے بعد پنجاب میں کوئی اعلیٰ عہدہ دے کر بلدیاتی انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ان پر لگنے والے الزامات ہوں یا احتساب کی زیر التو فائل میں بڑھتے ہوئے کاغذات‘ یہ سبھی کچھ حکومت پر سماجی انصاف اور کڑے احتساب جیسے بیانیوں کی نفی کے علاوہ اخلاقی بوجھ میں بھی اضافے کا باعث ہے۔ اب دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے۔