طبقاتی تقسیم سماجی انصاف اور احترام آدمیت کی نفی کے ساتھ ساتھ اخلاقی و معاشرتی بگاڑ کا باعث بھی بنتی ہے۔ تقسیم در تقسیم معاشرے میں آئین کے احترام کا رواج باقی رہتا ہے نہ ہی قانون اور ضابطوں پر عملداری۔ طبقاتی نظام اس مٹی کے خمیر میں ایسا رچ بس گیا ہے کہ اس کے تباہ کن اثرات تمام شعبہ ہائے زندگی میں محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ استحصال کرنے والے حکمران ہوں یا بااختیار حکام‘ اشرافیہ ہو یا معاشرے کے بااثر اور طاقتور طبقات‘ ظلم و جبر سے لے کر دھونس اور دھاندلی تک کیسے کیسے مناظرروز اول سے جوں کے توں جاری ہیں۔ قبل از تقسیم کا دور ہو یا بعد از تقسیم کا زمانہ‘ ہندوانہ معاشرہ اس طبقاتی تقسیم کا موجد اور ذمہ داررہا ہے۔ بھارت میں آج بھی ذات پات کا فرق طبقاتی تقسیم کی بڑی وجہ ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں چھوٹی ذات والے کسی صورت اونچی ذات سے تعلق رکھنے والوں کی برابری کرنا تو درکنار ایسا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
برہمن چانکیہ نے اپنی کتاب ارتھ شاسترمیں سماج میں طبقاتی تقسیم کی کیا خوب عکاسی کی ہے۔ اس چشم کشا کتاب کے ایک باب میں دھرنوں کے حوالے سے چانکیہ نے لکھا ہے کہ اگر راجہ یا کوئی طاقتور اور بااثر آدمی تم سے ناراض ہوکر تمہاری بیوی‘ بیٹے‘ بیٹی اور گائے پر قبضہ کرلے تو اس کے در پر جاؤ‘ اس سے معافی مانگو‘ اس کے پیروں میں پڑکر اس کی منت سماجت کرو اور کہو کہ میری بیوی واپس کر دو کیونکہ اسی نے میری گھر گرہستی سنبھالنی ہے۔ میرا بیٹا بھی اس لیے واپس کردو کہ اسی نے میرے بڑھاپے کا سہارا بننا ہے۔ گائے بھی مجھے اس لیے واپس چاہیے کہ اس سے میں دودھ حاصل کرکے اپنی روٹی روزی چلاؤں گا اور خود بھی دودھ پیوں گا؛ البتہ بیٹی تم رکھ سکتے ہو کیونکہ بیٹی تو ہوتی ہی پرایا دھن ہے۔ اگر وہ راجہ یا بااثر شخص پھر بھی نہ مانے تو علاقے کے معززین کے پاس جاؤ اور ان سے کہوکہ وہ تمہاری سفارش کریں اور تمہارا کنبہ اور مویشی واپس دلوائیں۔ سماجی اوراخلاقی دباؤ کے باوجود اگر کامیابی نہ ہوتو ظالم کے گھرکے سامنے راستے میں آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاؤ‘ جسے دھرنا مارنا کہتے ہیں تاکہ آنے جانے والے لوگ دیکھیں کہ فلاں بااثر شخص یا راجہ نے ضرور اس کے ساتھ کوئی ظلم اور زیادتی کی ہوگی۔ اسی لیے یہ اس کے گھر کے آگے دھرنا مارے بیٹھا ہے۔ دھرنا مارنے کے باوجود کامیابی نہ ہوتو مصیبت زدہ اور مظلوم شخص مرن بھرت رکھتا ہے (جسے ہمارے ہاں تا مرگ بھوک ہڑتال کہا جاتا ہے)۔ مرن بھرت کسی بھی بااثر اور طاقتور شخص کو ظلم سے باز رہنے کا آخری حربہ ہوا کرتا تھا۔ مرن بھرت رکھنے والا ظالم کے گھر کے سامنے دھرنا مارکر بیٹھ جاتا اور کھانا پینا چھوڑ دیتا۔ اکثر یہ حربہ اس لیے کامیاب رہتاکہ ظالم کو یہ خطرہ لاحق ہو جاتاکہ اگر یہ میرے گھر کے سامنے بھوک اور پیاس سے مر گیا تو اسے میرے گھر کے آگے سے کون اُٹھائے گا‘ پھر اس کی ''چتا‘‘ (آخری رسومات) جلانے کے اخراجات بھی مجھے ہی برداشت کرنا پڑیں گے اور اس کی موت سے گھر کا راستہ بھی گندا ہو جائے گا جسے دوبارہ ''پوتّر‘‘ کرنے کے لیے پنڈت بلانے پڑیں گے اور پنڈت بھی یہ کام بلامعاوضہ نہیں کریں گے۔ ارتھی کو کندھا بیٹا ہی دیتا ہے اور بیٹا پہلے ہی میرے قبضے میں ہے ایسے میں ارتھی کو کندھا بھی خود دینا پڑے گا۔ دھرنے اور مرن بھرت کے خوف سے ظالم اپنے ظلم سے باز آ جاتا اور مظلوم کے اہل خانہ اور مویشی واپس کردیتا۔ اس زمانے میں اکثر کشمیری اپنے راجہ کے دربار کے باہر دھرنا دیا کرتے کہ راجہ کی فوج اُن سے لکڑی کٹوا کر بیگار تو لیتی ہی ہے لیکن وہ لکڑیوں کا بوجھ بھی انہی سے اٹھواتی ہے۔ کشمیری لکڑیاں کاٹنے کی حد تک تو بیگار برداشت کر لیتے تھے لیکن باربرداری پر احتجاجاً دھرنا مارا کرتے تھے۔
تقسیم ہند کے بعد ہم ذات پات کی تفریق سے تو بچ گئے لیکن معاشرہ آج بھی طبقاتی تقسیم کا بری طرح شکار ہے۔ نظام تعلیم سے لے کر علاج معالجہ جیسی بنیادی سہولیات تک‘ سماجی انصاف سے لے کر دادرسی اور شنوائی تک‘ ہر طرف طبقاتی تقسیم کے مناظر جا بجا دیکھے جا سکتے ہیں۔ اشرافیہ کا استحقاق عام آدمی کے بنیادی حقوق پر بدستور بھاری ہے۔ پسے ہوئے اور استحصال زدہ طبقات آج بھی اپنے حقوق کے حصول کے لیے دربدر اور اکثر سراپا احتجاج دکھائی دیتے ہیں۔ کسانوں سے لے کر کلرکوں‘ نرسوں اور ڈاکٹروں تک ایسا کون سا شعبہ ہے جو حقوق کے حصول کیلئے سراپا احتجاج نہ ہو۔ ہمارے ہاں تو نابینا اور دیگر معذور اپنے سپیشل کوٹے کا حق حاصل کرنے کے لیے بھی سڑکوں پر احتجاج کرتے اور ڈنڈے کھاتے رہے ہیں۔ سرکار کی طرف سے مفت ادویات کی فراہمی بند ہونے پر کینسر کے مریض دہائیاں دیتے رہے ہیں۔ ہرطرف احتجاج ہی احتجاج ہے۔ ہر موسم احتجاج کا موسم ہی لگتا ہے۔ جھلسا دینے والی گرمی ہو یا خون جما دینے والی سردی‘ موسم کی کوئی بھی سختی احتجاج کو نہ روک سکی۔ حیرت اور تعجب کا مقام ہے کہ چھوٹے تھانیدار سے لے کر ایس پی کے عہدے کی فیلڈ فورس تک بھی سراپا احتجاج ہے۔
شہاب نامہ میں پولیس سروس اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے درمیان اختیارات کی جنگ اور ایک دوسرے پر برتری کی دوڑ کے ساتھ ساتھ شخصی تضاد (Personality Clash) کی کیسی کیسی کہانیاں مصنف نے بیان کی ہیں۔ کم و بیش ایسی ہی صورت حال کافی عرصہ انتظامی و پولیس افسران کے درمیان جاری رہی۔ پولیس آرڈر کے نفاذ کے بعد پولیس سروس کو خود مختاری تو مل گئی لیکن اپنی ہی فورس میں طبقاتی تقسیم کی روایت کو جو دوام پولیس سروس آف پاکستان کے افسران بخش رہے ہیں‘ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی جبکہ اکیڈمی سے تربیت حاصل کرنے کے بعد میدان عمل میں آنے والے افسران اسی فیلڈ فورس اور رینکرز کے تجربے اور مہارت سے استفادہ کر کے ہی ترقیوں کے زینے طے کر کے کارکردگی کے پہاڑ بناتے ہیں۔
ماضی میں یہ روایت بھی رہی ہے کہ پولیس سروس آف پاکستان کے افسران تھانے دار سے لے کر ڈی ایس پی اور ایس پی حضرات تک کو محض رینکر ہونے کی وجہ سے کم تر سمجھنے کے بجائے ان کی مہارت اور قابلیت سے نہ صرف سیکھا کرتے تھے بلکہ ان کے تجربات سے خوب استفادہ بھی کرتے تھے۔ امن و امان سے لے کر تفتیش کے سبھی مراحل سیکھنے اور طے کرنے تک‘ نئے آنے والے افسران اکثر انہی رینکر افسران کے مرہون منت ہوا کرتے تھے اور سیکھنے کے اس عمل میں انہیں کبھی عار یا کوئی جھجک مانع نہیں رہی۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے دارالحکومت میں پولیس سروسز آف پاکستان کے افسران کا کردار سپروائزری جبکہ دیگر عہدوں پر رینکر ڈی ایس پیز اور ایس پیز کی تعداد زیادہ ہوا کرتی تھی۔ ان کی کارکردگی اور مہارت کے ریکار ڈ آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ حقوق کے لیے در بدر اور غیر یقینی کا شکار تھانیداروں سے لے کر ایس پی حضرات تک سبھی پنجاب پولیس کا اثاثہ اور ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ ڈانٹ کھانے سے لے کر معطلیوں اور برخاستگیوں تک جیسی سزائوں کا بوجھ اٹھائے امن و امان کی ڈیوٹیوں سے لے کر نہ ہونے کے برابر سہولیات اور وسائل تک میں تفتیش جیسی اہم ڈیوٹی بھی یہی سرانجام دیتے ہیں‘ اس لیے انہیں اچھوت اورکم تر سمجھنے کے بجائے اگر ان کے مسائل کو سنجیدگی سے صرف سن ہی لیا جائے تو کسی کی ہار ہو گی نہ کسی کی جیت۔ یہ ماتحت افسران ہیں۔ انہوں نے پولیس سروس آف پاکستان کا ماتحت ہی رہنا ہے۔ ماتحتوں کے ساتھ بندہ پروری سے بڑے ظرف کا پتہ چلتا ہے۔ انہیں زیر عتاب لانا اور انتقام کا نشانہ بنانا ہی بڑے ظرف کی نفی ہے۔