کوئے سیاست میں میرٹ پر آنے والوں کا دربدر ہونا اور سازش اور سفارش کے زور پر آنے والوں کا آنکھ کا تارا بن جانا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ کل کے دشمن آج کے دوست اور آج کے دوست کل کے دشمن بنتے دیر نہیں لگتی۔ کیا حریف کیا حلیف‘ سبھی اقتدار اور مفادات کی میوزیکل چیئر کے گرد گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ نہ کہیں نظریات ہیں اور نہ ہی کہیں زبان و قول کی حرمت کا پاس نظر آتا ہے۔ قول و فعل کے تضادات نے تو فضا ہی مکدر کرڈالی ہے۔ لنگر خانوں کے انقلابی اقدام سے لے کر وزارتوں اور اعلیٰ انتظامی مشینری میں ریکارڈ تبدیلیوں کے باوجود گورننس شرمسار اور میرٹ تارتار ہے۔ جن کندھوں پر سوار ہوکر تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تھی ایک ایک کرکے سبھی ٹھکانے لگائے جارہے ہیں۔ ٹھکانے لگانے والے بھی بلا کے نشانے باز ہیں۔ ہدف پر آنے کی دیر ہے بس! نشانہ نہیں چوکتا۔ جہانگیر ترین کوصرف ترین بنانیوالوں نے حالات اور ماحول کو اس قدر اپنے تابع کررکھا ہے کہ وزیراعظم بھی بھولتے چلے جارہے ہیں کہ جہانگیر ترین کا عملی تعاون اور جاں نثاری میسر نہ آتی توکیا ہوتا؟ طویل سیاسی جدوجہد کے چراغوں میں جلنے والا تیل کہہ رہا ہے کہ دیا خود نہیں جلتا‘ دیے میں تیل جلتا ہے۔ انصاف سرکار کے دورِ اقتدار میں جہانگیر ترین کے حالات دیکھ کر غالب کا یہ مصرع بے اختیار یاد آرہا ہے:
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
اسی طرح عبدالعلیم خان بھی مسلسل بے وقعتی کا شکار رہنے کے بعد وزارت سے مستعفی ہونے کیلئے عرصے سے کوشاں ہیں۔ تحریک انصاف کی جدوجہد کے پودے کوپروان چڑھانے کیلئے بھر بھر مشکیں ڈالنے والے علیم خان کیلئے اسی پودے کو شجر ممنوعہ قرار دے دیا گیا جس کی آبیاری سے لے کر پھل پھول لگنے تک وہ سبھی مراحل میں تن من دھن وارتے رہے۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ وہ استعفیٰ کافی عرصہ پہلے ہی دے چکے تھے بس وزیراعظم کی طرف سے استعفیٰ کی قبولیت کا انتظار تھا۔ دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں کہ آنے والا وقت ثابت کرے گا کہ علیم خان انصاف سرکار پر بوجھ نہیں تھے؛ البتہ استعفیٰ دے کر انہوں نے اپنا بوجھ اتار دیا ہے جبکہ نشانے بازوں نے پنجاب کابینہ میں متوقع ردوبدل کے مرحلے میں ان کا نام بھی نشانے پر رکھ لیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پنجاب کابینہ میں تبدیلیاں کارکردگی کی بنیاد پر کی جارہی ہیں۔
کارکردگی کا پنڈورا بکس تو نجانے کب کا کھل چکا ہے۔ ساتویں آئی جی‘ پانچویں چیف سیکرٹری اور چھٹے وزیر اطلاعات کے ساتھ کارکردگی کے چوکے چھکوں نے عوام کے چھکے پہلے ہی چھڑا دیے ہیں۔ صوبائی سطح پر کارکردگی منہ چھپائے پھر رہی ہو تو ضلعوں‘ تحصیلوں اور دور دراز علاقوں میں گورننس کی حالت زار کیا ہوگی‘ یہ جاننے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ بس صوبائی دارالحکومت میں طرزِ حکمرانی کی ایک جھلک ہی کافی ہے۔ تھانہ‘ پٹوار اور ہسپتال سے لے کر بڑے سے بڑے سرکاری اداروں تک عوام کیلئے دھتکار اور پھٹکار کے سوا کچھ نہیں۔ کارکردگی کی بنیاد پر وزارتوں کا قلمدان دینے اور واپس لینے پر قادر اربابِ اقتدار کا اپنا طرزِ حکمرانی ماضی کے بدترین طرزِ حکمرانی کے ریکارڈ ریکارڈ مدت میں توڑ چکا ہے۔ جو بچا کھچا بھرم رہ گیا ہے کابینہ میں تبدیلی کے بعدوہ بھی جاتا رہے گا۔
عبدالعلیم خان کی کارکردگی پر سوال اٹھانے والے نشانے باز نشانہ پہلے ہی تاک چکے تھے۔ ان کے استعفیٰ کی خبر نے ساری منصوبہ بندی کا ستیاناس کردیا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ بلدیاتی انتخابات کا کڑا مرحلہ درپیش ہے اور اقتدار کی کشتی میں سوراخ کرنے کا مقابلہ بھی خوب زوروں پر ہے۔ سوراخ کرنے والے ایک دوسرے کے سوراخ کی نشاندہی کرکے یہ عذر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ فلاں کا سوراخ میرے سوراخ سے بڑا ہے۔ اس لیے اقتدار کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے۔
اقتدار کی مٹھی سے مہلت کی ریت بہت تیزی سے سرک رہی ہے اور وقت کا ہونا مہلت کی ضمانت ہرگز نہیں تاہم ہر آنے والا دن اقتدار کے اختتام کی طرف تیزی سے بڑھتا چلا جارہا ہے۔ تین سال سے زائد عرصہ گزرچکا ہے بقیہ مدت کا بھی پتہ نہیں چلے گا۔ فیصلہ ساز جس طرح ملک چلا رہے ہیں ایسے تو گھر نہیں چلا کرتے۔ ٹاپ لیول پر Divide & Rule کی پالیسی نے سب کچھ تہ وبالا کرکے رکھ دیا ہے۔ شریک اقتدار کوئی مشیر ہو یا وزیر‘ سرکاری بابو ہو یا کوئی اور خیر خواہ‘ اپنا مشاہدہ یا رائے دینے کے بعد پچھتاوے کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے کہ اس نے حکومت کی خیر خواہی کا سوچا ہی کیوں۔ جس شخصیت کے بارے میں کوئی رائے یا مشورہ دیا جاتا ہے‘ پوری ذمہ داری سے اسے مطلع کردیا جاتا ہے کہ تمہارا فلاں ماتحت تمہارے بارے میں یہ خیالات اور تحفظات رکھتا ہے‘ لہٰذا تم اس کا بندوبست کرسکتے ہو اور پھر بندوبست کرنے کے ساتھ ساتھ پورا سبق بھی دیا جاتا ہے۔ Divide & Rule کی پالیسی میں اتنا کچھ اتنی تیزی سے Divide ہورہا ہے کہ خدشہ ہے‘ وہ وقت نہ آ جائے کہ Divide کرنے کو کچھ باقی نہ رہے۔
جہاں ملک بریفنگ اور ڈی بریفنگ پر چلایا جارہا ہو وہاں ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بلدیاتی انتخابات نیندیں کیوں نہ اڑائیں۔ جمہوریت کے علمبردار حکمران روزِ اول سے ہی بنیادی جمہوریت سے بیر اور عناد رکھے ہوئے ہیں۔ باتیں جمہوریت کی کرتے ہیں‘ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر انہی کے نمائندوں کے ذریعے حل کرنے کے دعوے اور بھاشن سالہا سال دیتے رہے ہیں‘ لیکن برسر اقتدار آتے ہی بلدیاتی اداروں پر ایسے چڑھ دوڑے کہ اگر انہیں بلڈوز نہ کیا گیا تو یہ ہمارے اقتدار کیلئے خطرہ بن جائیں گے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود بلدیاتی اداروں کے سربراہان کے دفاتر اور بنیادی جمہوریت کے ایوانوں پر محض اس خوف سے تالے اور پہرے لگا رکھے ہیں کہ کہیں کوئی عوامی نمائندہ اندر داخل نہ ہو جائے۔ حکومت عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی عدالتی فیصلے کا۔ برسراقتدار آنے کے بعد حکومت نے اس وقت کے صوبائی وزیر بلدیات عبدالعلیم خان کو یہ ٹاسک سونپا تھاکہ بلدیاتی نظام میں اصلاحات اور موجودہ اداروں سے چھٹکارا کیونکر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بلدیاتی اداروں سے حکومت کے اس تعصب اور عناد کے پیش نظر پنجاب بھر کے میئرز اور چیئرمین ضلع کونسلز اکٹھے ہوئے اور مشترکہ اعلامیہ جاری کیا کہ ہم سب وسیع تر ملکی اور قومی مفاد کے پیش نظر پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ مل کر ملکی تعمیر و ترقی کا حصہ بننا چاہتے ہیں‘ کیونکہ میئر کسی پارٹی یا خاص گروہ کا نہیں ہوتا بلکہ پورے شہر کا ہوتا ہے جسے فادر آف سٹی بھی کہا جاتا ہے‘ وہ اپنے شہر کے عوام میں کس طرح امتیاز اور تفریق کرسکتا ہے؟ حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ تعصب کی عینک اتار دے اور بنیادی نمائندگان پر اعتماد کرے تو وہ حکومت کے شانہ بشانہ اس کی پالیسیوں اور ترجیحات کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں‘ لیکن پی ٹی آئی کی حکومت ان کو کسی طور ساتھ لے کر چلنے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ اگر کسی میئر یا ضلعی چیئرمین نے زیر التوا ترقیاتی کاموں کو مکمل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو اسے انتقامی کارروائی‘ اینٹی کرپشن اور مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس پر ستم یہ کہ کمشنرز‘ ڈپٹی کمشنر اور آر پی اوز کو بھی اشارہ کر دیا گیاکہ منتخب بلدیاتی نمائندوں کیلئے ہر قسم کا تعاون اور ریلیف ممنوع ہے۔ بیوروکریسی کو اور کیا چاہیے؟ اس طرح رہی سہی کسر اس نے پوری کرڈالی۔ فنڈز کی دستیابی کے باوجود ترقیاتی کاموں پر پابندی ہی لگی رہی۔ ان حالات میں وزیر بلدیات نے تجویز دی تھی کہ میئرز اور چیئرمینوں کی اکثریت تعاون پر آمادہ ہے‘ کیوں نہ انہی کو موقع دیا جائے‘ اس طرح وہ نہ صرف انڈر پریشر رہیں گے بلکہ اپنا اعتماد بحال کرنے کیلئے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کریں گے لیکن میں نہ مانوں کی حکومتی پالیسی کے آگے وزیر بلدیات کی نہ چل سکی۔ علیم خان کی قابلِ عمل تجویز نہ ماننے کا نتیجہ آج حکومت کا منہ چڑا رہا ہے۔