حالیہ عام انتخابات سے قبل چند بیانیے عوام میں انتہائی مقبول اور ٹاپ ٹرینڈ بنے رہے۔ یہ وہی بیانیے ہیں جن پر عوام کہیں سر دھنتے تھے تو کہیں واری واری جاتے تھے۔ انہی بیانیوں کے سحر میں مبتلا ہوکر عوام نے 2018ء کے عام انتخابات میں اپنے ووٹ کا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دیا تھا جس کے نتیجے میں آج تحریک انصاف نہ صرف برسر اقتدار ہے بلکہ اپنے طرزِ حکمرانی کے ایسے ایسے جوہر دکھارہی ہے کہ عوام مذکورہ بیانیوں کے ریکارڈ سن سن کر کبھی اپنا سر پیٹتے دکھائی دیتے ہیں تو کہیں اپنے بال نوچتے دکھائی دیتے ہیں۔
ان بیانیوں کی فہرست تو کافی طویل ہے لیکن وہ چند مقبول عام بیانیے پیش خدمت ہیں جن سے متاثر ہوکر عوام نے نئے پاکستان کی آس لگائی تھی۔ ''جب ڈالر ایک روپیہ مہنگا ہوتا ہے توپاکستانیوں پر ایک سو ارب روپے کا قرضہ بڑھ جاتا ہے۔ جب پٹرول اور بجلی کی قیمتوں اضافہ ہوتا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ آپ کے حکمران چور ہیں۔ جب روپیہ گرتا ہے تو چیزیں مہنگی ہوجاتی ہیں، چیزیں مہنگی ہونے سے عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہوجاتی ہے۔ جب ڈالر بڑھتا ہے تو روپیہ اس طرح گرتا ہے کہ بینکوں میں آپ کا پیسہ خودبخود کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ خودکشی کرلوں گا آئی ایم ایف سے قرضہ لینے نہیں جائوں گا‘‘۔
نمونے کے یہ چند بیانیے قول و فعل کے تضاد سے لے کر بد سے بدترین ہوتے حالات کی ستم ظریفی تک‘ سبھی کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ ڈالر کو لگی آگ روپے کو خاکستر کیے چلے جارہی ہے اور آنے والے وقت میں خاکستر ہونے والے روپے کی راکھ بھی یوں اڑتی دکھائی دے گی جیسے حکمران اپنے وعدوں اور دعووں کی دھول اڑا رہے ہیں۔ حکمران کہیں الیکشن کمیشن کو نشانے پر لیے ہوئے ہیں تو کہیں عوام کو ۔ روزمرہ کی اشیائے ضروریہ سے لے کر یوٹیلٹی بلز تک‘علاج معالجہ سے لے کر بچوں کی تعلیم و تربیت تک‘ ہر چیز عوام کی دسترس سے باہر ہوتی چلی جارہی ہے۔ یوں لگتا ہے حکمرانوں کی نیت سے لے کر ملکی معیشت تک‘ سبھی پر کوئی آسیب پھر گیا ہے جو بدترین حالات کے اونٹ کو کسی کروٹ بیٹھنے نہیں دے رہا۔ یہ کریڈٹ بھی سرکار ہی کو جاتا ہے کہ اہم ترین فیصلوں پر عمل درآمد کرانے والے اداروں تک کو نہیں معلوم کہ جن فیصلوں پر وہ پوری طاقت اور زور و شور سے عملدرآمد کروا رہے ہیں وہ فیصلے کہاں ہوئے اور کس نے کیے؟معاشی انقلاب‘سماجی انصاف اور کڑے احتساب کی دعویداروں نے اقتدار میں آتے ہی اپنے تمام دعووں اور وعدوں کی نفی اس طرح کی کہ ان کے اقتدار کے ابتدائی چند ماہ میں عوام مایوسی اور غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہونا شروع ہوگئے لیکن جھوٹی تسلیوں سے بہلاتے بہلاتے تین سال گزار ہی ڈالے۔
سب سے زیادہ نقصان حکمرانوں اور ان کے سر چڑھے اور 'عالی دماغ‘ افسران اور ان مشیروں نے پہنچایا ہے جو سیاسی دبائو‘ اثر و رسوخ‘ دھاندلی اور سہولت کاری کے نتیجے میں انتہائی اہم محکموں میں نااہل‘ خوشامدی‘ احساس ِذمہ داری سے عاری اور 'بوئے سلطانی‘ کے نشے میں دھت ہونے کے باوجود کلیدی عہدوں پر فائز ہوتے چلے آرہے ہیں۔ کسی ادارے کے ایک نااہل خوشامدی اور ذاتی ایجنڈے پر عمل پیرا سربراہ سے توقع ہی عبث کہ وہ مفادِ عامہ میں پالیسی بنائے‘ قانون اور ضابطے پروموٹ کرے۔ ایسے سربراہ بھلا کسی ادارے کو چلانے کا بار کیسے اٹھا سکتے ہیں؟ اہلیت اور میرٹ کے برعکس کیے جانے والے حکمرانوں کے فیصلوں کا خمیازہ ہمیشہ عوام نے بھگتا ہے۔
احتساب صرف مالی بد عنوانی کا ہی نہیں بلکہ بے ضابطگی اور نا اہلی کا بھی ہونا چاہیے۔ بدمعاملگیاں کرنے والوں سے یہ پوچھا جانا کیا عین منطقی نہیں کہ غیر معمولی پیکیج‘ مراعات‘ سیون سٹارسہولتیں‘ ضیافتیں‘ سیر سپاٹے اورطویل دورانیے کی میٹنگز جس کام کی تکمیل سے مشروط تھیں‘جب وہ ہی نہیں ہو سکا تو یہ سب کچھ کس کھاتے میں؟ ان سے یہ پوچھا جانا بھی عین منطقی ہے کہ کلیدی عہدوں پر غول کے غول حملہ آور ہوئے اور ملیامیٹ کرکے اگلا پڑائو‘نئی گھات...یہ کون سی قومی خدمت ہے؟
''لٹنا اور مٹنا‘‘ کیا صرف عوام ہی کا نصیب ہے؟ ان کاریگر اور سہولت کار حکام کا صرف ایک ہی مشن ہے ''عوام کی مت مار دو اور خواص کا ضمیر‘‘۔ اس کے بعد دروغ گوئی اور فرضی اعدادوشمار کے ساتھ کارکردگی اور گورننس کا ایسا ''ڈھول پیٹو‘‘ کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ سابقہ ادوار کا موجودہ دورِ حکومت سے موازنہ کریں تو بعض معاملات پر تو ایک ہی قدر ِمشترک نظر آتی ہے غیر سنجیدہ رویہ اور اس پر مسلسل ہٹ دھرمی ۔ سابقہ حکمرانوں کے کردار‘ طرزِ حکمرانی اور ترجیحات کے نقوش اتنے اَنمٹ اور گہرے ہیں کہ موجودہ حکومت بس انہی کے نقشِ پا کو نصب العین بنائے ہوئے ہے۔
بات ہو رہی تھی ان مقبول عام بیانیوں اور معاشی انقلاب کے دعووں کی جوکنٹینر پر کھڑے ہوکر کیے گئے تھے۔ دعوے کرنے والوں کے سب سے بڑے اور پہلے اقتصادی چیمپئن اسد عمر کے سارے دعوے نہ صرف دھرے کے دھرے رہ گئے بلکہ درپیش چیلنجز ان کے اپنے قد سے بھی بڑے ثابت ہوئے اور ناکامیاں سمیٹ کر انہیں کابینہ سے رخصت ہونا پڑا۔ ان کی جس قابلیت اور مہارت کا ڈھول انتخابات سے قبل پیٹا گیا تھا‘ جس علمی قابلیت اور انتظامی مہارت کا ڈنکا بجایا گیا تھا‘ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ نکلا۔ وہ سب بلندبانگ دعوے جھانسے ثابت ہوئے۔ سب گفتگو جعلی اور سارے اعلانات ملاوٹ اور بناوٹ کا مجموعہ نکلے‘ جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جب فیصلوں اور اعلانات ہی میں ملاوٹ اور بناوٹ ہوگی تو خالص نتائج کیسے برآمد ہوں گے؟اور اب بھی پے در پے تبدیلیوں کے باوجود کوئی ایسا وزیر خزانہ دریافت نہیں ہوسکا جس کے اقدامات کے اثرات عوام کے چولہوں میں جلتے نظر آئیں۔
معاشی انقلاب اور عوام کی خوشحالی کا منظر دیکھنا ہو تو سٹاک سے بھری لیکن گاہک کی راہ تکتی دکانوں کو دیکھیں‘صورتحال یہ ہے گویا گاہک روٹھ گئے ہوں۔ ان بازاروں کی ویرانیاں دیکھیں جہاں تِل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی تھی۔ لگتا ہے بازاروں میں کوئی جن پھر گیا ہو‘ قوتِ خرید سے باہر اشیائے ضروریہ عوام کو بے بس اور لاچار کیے ہوئے ہیں۔ ثبوت اور تجربے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں‘ کسی بھی بازار یا سڑک پر چند منٹ کھڑے ہوکر دکاندار یا گاہک سے احوال دریافت کریں‘ وہ پھٹ نہ پڑے تو کہنا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کی خوش خبریاں سنانے والے حکمران بھی بخوبی جانتے ہیں کہ یہاں صنعت لگانا تو درکنار‘ کوئی گنے کا بیلنا بھی لگانے کو تیار نہیں۔
کئی بڑے صنعتی یونٹس میں چائنیز کی سکیورٹی کے تناظر میں تناسب کے برعکس ایس پی یو (سپیشل پروٹیکشن یونٹ)فورس کی تعیناتی اس قدر مہنگی ہے کہ صنعتوں کے منافع کا توازن ہی بگڑ کر رہ گیا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ مزاحمت کرنے والے یونٹس کو ایسا مجبور کیا گیا ہے کہ وہ سبھی اس شاہکار فورس کو برداشت کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ جس ملک کے معاشی حالات کا منظر نامہ ایسا ہو وہاں معاشرے کے دیگر شعبوں میں بہتری اور استحکام کیونکر ممکن ہے ؟اس طرزِ حکومت کی ستائش کرنے والوں کو خبر ہو کہ وطن عزیز کے عوام بھی اپنے محبوب وزیراعظم کی فرماں برداری کرنے پر یقینا تیار ہوسکتے ہیں بشرطیکہ عوام کو ایک ایسا موقع مل جائے جس میں وہ کسی کو بتا سکیں کہ
مرشد! ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہو گیا