کام نہ کرنے والے افسران کی معطلیوں اور تبادلوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ کام کرنے والے افسران کی کارکردگی تاحال معمہ اور پوشیدہ ہے۔ یہ کہنا بے جا نہیں کہ جو افسران کارکردگی کی بنیاد پر اہم عہدوں پر براجمان‘ موجیں مار رہے ہیں ان میں سے اکثر کارکردگی کے بجائے 'کام‘دکھائے چلے جارہے ہیں۔ دورے بھی ہورہے ہیں‘اعلیٰ سطحی اجلاس بھی جاری ہیں‘کابینہ کی میٹنگزبھی بروقت اور باقاعدگی سے ہو رہی ہیں‘آئے روز انتظامی سربراہ تبدیل کرکے نئے آنے والے افسر کی قابلیت اور مہارت کے اظہار میں کبھی زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں تو کبھی اس کی اہمیت او ر افادیت کے بیانیے جاری کیے جاتے ہیں لیکن پھر چند ماہ گزرنے کے بعد شاید سرکار کو احساس ہوتا ہے کہ انتظامی خزانے میں مزید کئی نگینے اور جواہرات موجود ہیں جو موجودہ افسر سے بہتر کارکردگی کے جوہر دکھا سکتے ہیں اور یہی افتادِ طبع ان دھڑادھڑ تبادلوں کا باعث بنتی چلی جارہی ہے۔
خدا جانے کوئی سحر ہے یا آسیب کا سایہ‘ حالات بہتری کے بجائے ابتری کی طرف بھاگے چلے جارہے ہیں۔ اس پر بھی دعویٰ ہے کہ اگلے دو سال اہم ہیں‘ پنجاب میں الیکشن کارکردگی کی بنیاد پر جیتیں گے۔ آئندہ عام انتخابات میں ابھی تقریباً دو سال باقی ہیں‘ سردست بلدیاتی انتخابات کا کٹھن مرحلہ آزمائش بن کر سامنے کھڑا ہے۔ تین سال سے سرکار بلدیاتی اداروں سے جان چھڑانے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہے اورواضح احکامات کے باوجود کسی صورت بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے پر تیار نظر نہیں آتی۔ یہ ضد نہ صرف توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے بلکہ اس خوف کی بھی نشاندہی کرتی ہے جس کے تحت بلدیاتی اداروں کو روزِ اوّل سے غیر فعال اور مفلوج رکھا گیا تھا۔ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی صورت میں حکومت کو کن نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا‘ یہ جاننے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہرگز نہیں۔ چند روز قبل ملک بھر میں ہونے والے کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کے نتائج نے دن میں تارے دکھا ڈالے ہیں۔ اس پر بھی خوش گمانی کا عالم یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن جیتنے کی باتیں ہورہی ہیں جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات نے کھلا پیغام دے ڈالا ہے کہ سرکار کاتین سالہ طرزِ حکمرانی عوام نے مسترد کر دیا ہے اور اس کا ایکشن ری پلے آئندہ بلدیاتی اور عام انتخابات میں بھی نظر آنے کے خدشات تشویشناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابی نتائج حکومت کے لیے مایوس کن ہیں مگر اس فکر مندی کے باوجود ان نتائج پر دانشوری بھگارنے والے ہوں یا اس کی توجیہات اور جواز پیش کرنے والے‘ سبھی کو خبر ہونی چاہئے کہ تحریک انصاف کے دھرنوں اور اس کے رہنمائوں کی شعلہ بیانیوں سے متاثر ہوکر مائل ہونے والے ووٹرز اس طرزِ حکمرانی کی تاب نہ لاتے ہوئے نئے پاکستان سے مایوس ہو کر پرانے پاکستان کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ نون لیگ کی شاندار کامیابی اور کارکردگی پر شادیانے بجانے والوں کو بھی خبر ہو کہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابی معرکے میں نون لیگ کا کوئی خاص کمال نہیں بلکہ ان کے حصے کا آدھے سے زیادہ کام تو تحریک انصاف کا طرزِ حکمرانی اور انتظامی ڈھانچہ ہی کرگیا۔ گویاحکومتی پالیسیاں اور کارکردگی‘ دونوں نون لیگ کیلئے غنیمت ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ جس مینڈیٹ نے 2018ء کے انتخابات میں ووٹ کا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈالا تھا وہ وزن مینڈیٹ دینے والے عوام پر ایسا بھاری پڑا ہے کہ سبھی اوندھے منہ پڑے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ نون لیگ کا ووٹ بینک تحریک انصاف کے پلڑے سے جس تیزی سے سرک رہا ہے‘ اس کے واضح اشارے کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابی نتائج میں حکومتی بیانیوں اور دعووں کا منہ چڑا رہے ہیں۔
آئندہ انتخابات میں پنجاب سے انتخابی دنگل جیتنے کی امید کا بیان یقینا اس بریفنگ اور ڈی بریفنگ کا اثرہوگا جو سربراہِ حکومت کے گرد پائے جانے والے چیمپئنز انہیں ''سب اچھا‘‘ثابت کرنے کے لیے دیتے رہتے ہیں۔ عوام کے بنیادی مسائل تاحال حل طلب ہیں۔ ضروریات کی چادر سے کبھی پائوں تو کبھی سر ننگا دکھائی دیتا ہے۔ ہسپتالوں میں شفا نہیں‘ تھانوں میں دادرسی نہیں‘ شہریوں کو امان نہیں‘ دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل سے مشکل ہوتا چلا جارہا ہے۔ سرکار نیوزی لینڈ کی ٹیم کے واپس جانے کا یوں گلہ کررہی ہے کہ دنیا بھرمیں خود اس ایشو کو اچھال رہی ہے۔ کیسی کیسی توجیہات اور کیسے کیسے جواز گھڑ کرٹیم کی واپسی کو بین الاقوامی سازش قرار دیا جارہا ہے۔ گویا اگر نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم واپس جانے کے بجائے یہاں پر ایک سیریز کھیل لیتی تو دنیا بھر میں ہمارے امیج کو چار چاند لگ جاتے۔ ایسی تھیوری کا چورن بیچنے والوں کو خبر ہو کہ کورونا کے باوجود اندرونِ ملک کرائے گئے ٹورنامنٹس پر ہمیں بین الاقوامی طور پر کون سے ایوارڈ عطا کیے گئے جو اب نہیں ملیں گے؟ کبھی کہا جاتا ہے کہ ہم امریکا کو انکار کی قیمت چکا رہے ہیں تو کبھی اسے برطانوی ، امریکی اور بھارتی سازش قرار دیا جاتا ہے۔
Absolutely Notکی قیمت چکانے والوں کو خبر ہو کہ اس ملک میں کون قیمت نہیں چکا رہا؟ عوام ہر الیکشن کے بعد حقِ رائے دہی استعمال کرنے کی قیمت چکاتے ہیں تو کبھی اپنے سماج سیوک رہنمائوں کے دلفریب وعدوں اور جھانسوں میں آنے کی‘ یہ سبھی قیمتی ںچکانے والے عوام کبھی دن کا چین اور رات کی نیند گنوا کر قیمت ادا کرتے ہیں توکبھی اشیائے ضروریہ کے لیے ترس ترس کر یہ قیمت ادا کی جاتی ہے۔ ہر دور میں قیمت چکانے والے عوام انصاف سرکار کے اس عہد میں بھی قیمتیں ہی چکائے چلے جارہے ہیں۔ جس ملک میں سیلاب ہو‘ زلزلہ ہو‘ کوئی قدرتی آفت ہو یا کوئی سانحہ‘ جب یہ سبھی آفات اہلِ حَکم اور انتظامیہ کے لیے ''سیزن‘‘ بن جائیں اور کورونا کی عالمی وبا کے جان لیوا حالات میں بھی مال بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے‘ وہاں عوام کا مقدر قیمتیں چکانا ہی رہ جاتا ہے۔
اخبارات کے پلندے پہ چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس پر مبنی منہ چڑاتی ایک سپر لیڈپیش خدمت ہے: ''شیم آن سندھ حکومت، خدمت نہیں کرسکتے تو جائو کسی اور کو آنے دو، ٹوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر، کراچی شہر نہیں‘ کچرا ہے، سندھ حکومت کو ہر سال اربوں ملتے ہیں پھر بھی روتے ہیں، شرم نہیں آتی، یہ مغلوں کا زمانہ نہیں، وزیراعلیٰ بھی کچھ کریں‘‘۔ عدالت عظمیٰ کے یہ ریمارکس نئی بات نہیں۔ہمارے حکمران ایسے ریمارکس سننے کے عادی ہیں۔ اسی شہر کراچی میں شہری اُن آوارہ کتوں کے رحم و کرم پر ہیں جو آئے روز راہ چلتے انہیں بھنبھوڑ ڈالتے ہیں۔ نہ کہیں کتے کے کاٹے کی ویکسین دستیاب ہے اور نہ ہی ان آوارہ کتوں کا کوئی بندوبست۔ جبکہ اندرونِ سندھ میں تو کتا کاٹنے کے کیسز بے حد بڑھ چکے ہیں۔نہ کوئی انتظامیہ نظر آتی ہے اور نہ ہی کوئی گورننس۔
گزشتہ برس کورونائی حالات میں علاج معالجہ، مالی امداد اور راشن کے نام پر کیسا کیسا اندھیر نہیں مچایا گیا۔ عدالت کے طلب کرنے پر بھی اخراجات کا حساب آج تک ایک معمہ ہے۔ سستے بازاروں سے لے کر رمضان بازاروں تک‘ ڈینگی وارڈز سے لے کر کورونا سے بچائو کے فیلڈ ہسپتالوں کے قیام تک‘ مستحق افراد کی مالی معاونت سے لے کر راشن کی تقسیم تک‘ سیاسی اشرافیہ سے لے کر سرکاری بابوئوں تک‘ سبھی کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم کے واپس جانے کا ماتم ضرور کریں‘ Absolutely Notکی قیمت چکانے کا عذر بھی پیش کریں لیکن کچھ توجہ اس عوام کی طرف بھی جو روزِ اول سے لمحۂ موجود تک نجانے کیسی کیسی قیمتیں چکائے چلے جارہے ہیں۔ کبھی مینڈیٹ دینے کی‘ کبھی دعووں اور وعدوں پر اعتبار کرنے کی‘ کبھی جھانسوں میں آنے کی تو کبھی آس لگانے کی‘ یہ سبھی قیمتیں کب تک چکانا ہوں گی؟ اب تو چکانے کے لئے بھی کچھ باقی نہیں رہا۔ تہی دست عوام یہ قیمتیں چکاتے چکاتے ''اَکّ‘‘ چکے ہیں۔