کیسے کیسے حکمران اس ملک پر اپنے شوق حکمرانی کیلئے باریاں لگائے چلے جارہے ہیں۔یہ کیسی باریاں ہیں جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔یہ باریاں کب ختم ہوں گی؟ہر آنے والا حکمران ماضی کے سبھی حکمرانوں کے طرزِ حکمرانی کے ریکارڈ توڑنے کی دھن میں نجانے کیاکچھ توڑتے چلا جا رہا ہے۔ اس توڑ پھوڑ نے ٹریفک سگنل سے لے کر آئین اور قانون تک۔ اخلاقی قدروں سے لے کر سماجی انصاف تک۔ گورننس سے لے کر میرٹ تک۔نیت سے لے کر معیشت تک۔تجاوزات سے لے کر احتساب تک۔کسی کے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔ سبھی کچھ کہیں ریزہ ریزہ تو کہیں پارہ پارہ دکھائی دیتا ہے۔یہ کیسے حکمران ہیں‘ ان کے اقدامات کے نتائج ہمیشہ دعووں اور وعدوں کے برعکس ہی کیوں نکلتے ہیں؟نہ انہیں اپنے بھاشن یاد رہتے ہیں نہ ہی اپنی شعلہ بیانیاں۔دعوے اور وعدے تو بس عادتاً ہی کرڈالتے ہیں محض عوام کو بہلانے کے لیے۔
نواز شریف کی بیماری اور بیرون ملک روانگی کے نتیجے میں جگ ہنسائی میں کوئی کمی رہ گئی تھی کہ اب بیرون ملک بیٹھے نواز شریف کو کورونا ویکسین بھی لگاڈالی۔ حکومتی اقدامات اور فول پروف سسٹم کا بچا کھچا بھرم بھی نیچے آن گرا۔اتنے بڑے بلنڈر پرنہ کہیں پشیمانی ہے نہ کوئی ندامت۔کس ڈھٹائی سے کیا وزیرکیا مشیرکیسی کیسی توجیہات اور جواز گھڑے چلے جارہے ہیں۔ویکسی نیشن کی مہم بھی کورونا کے اقدامات کاایکشن ری پلے ہوتا چلا جارہا ہے۔اعلیٰ عدالتوں کے استفسار کے باوجود نہ ان کے پاس راشن کا حساب ہے نہ امدادی رقوم کا‘نہ فیلڈ ہسپتالوں کے اخراجات کاحساب ہے نہ ہی کورونا سے بچائو کے دیگراخراجات کا کوئی جواب ہے۔نواز شریف کو ویکسین لگا کرسرکار کے چیمپئنز کی قابلیت اور مہارت کانظارہ عوام کے تحفظات اور خدشات میں اضافے کا باعث ہے۔کونسی ڈیوائسز ہیں ؟ کونسی ٹیکنالوجی ہے ؟ کیسا سسٹم ہے کونسی مانیٹرنگ ہے؟ نواز شریف کو ویکسین لگتے ہی سرکار کی پھرتیاں اور بیانیے قابل دید تھے۔ایک وقوعہ کے دو مقدمات درج کر لیے گئے۔ ایک مقدمہ لاہور کے تھانہ گجر پورہ اور دوسرا ایف آئی اے سائبر ونگ میں درج ہوچکا ہے۔لاہور پولیس کی ایف آئی آر میں لگی دفعات کے تحت ملزم کو تین ماہ قید اور پچاس ہزار تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں جبکہ سائبر کرائم ایکٹ کی دفعہ4کے تحت 6ماہ تک قید اورایک لاکھ تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ایکٹ کی دفعہ13 کے تحت 6ماہ قید 50ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ دفعہ14کے تحت 3سال تک قید اور 50لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔
سزا اور جزا کا نظام تو قانون کی کتابوں میں درج ہے۔کون جانے کہ ملزمان کس کی سزا کاٹیں گے؟جگ ہنسائی کا باعث بننے والا یہ سسٹم کن کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے؟حکومت کا یہ فخریہ سسٹم اور ٹیکنالوجی اپنے اندر کیسے کیسے راز اور کیسے کیسے فراڈ چھپائے ہوئے ہے۔مفت ویکسین اگر نہ لگوانی ہو تو ویکسی نیشن کا سرٹیفکیٹ جیب گرم کرکے بہ آسانی مل جاتا ہے۔ یہ کیسی قوم ہے اور یہ کیسا انتظامی ڈھانچہ ہے کہ ویکسین لگوائے بغیر سرٹیفکیٹ تو مل جاتا ہے لیکن اس نام پر جاری ہونے والی ویکسین کہاں جاتی ہے یہ معمہ بھی حکومتی فول پروف سسٹم اور ٹیکنالوجی کے لیے منہ چڑاتا سوال ہے۔کارِبد کی اس ندی میں کیا عوام‘کیا حکام سبھی ڈبکیاں لگائے چلے جارہے ہیں۔ اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک کے عوام اور اشرافیہ کے درمیان بھی مقابلہ جاری ہے کہ اخلاقی گراوٹ سے لے کر قانون اور ضابطوں کی دھجیاں اڑانے میں کون آگے ہے؟کورونا کے دنوں میں یہ دھجیاں کہاں کہاں اور کس کس نے اڑائیں سبھی کچھ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ کورونا کے خوف سے رات گئے چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دینے والے صبح اٹھتے ہی اشیائے خور ونوش سے لے کر دیگر اشیائے ضروریہ اور جان بچانے والی ادویات میں از خود کورونا ٹیکس لگا کر خوب مال بناتے رہے ہیں۔وبا کے عروج کے دنوں میں چند ہزار کا ایک انجکشن تو منہ مانگی قیمت پر ملا کرتا تھا یہ قیمت اکثر پانچ لاکھ سے بھی تجاوز کرجایا کرتی تھی۔ہوسِ زر کے ماروں کے اس معاشرے میں کونسی قدریں اور کونسی اخلاقیات زندہ رہ سکتی ہیں؟
جہاں مردہ مرغی سے لے کر مردار جانور کی فروخت تجارت کے زمرے میں آتی ہو۔کیمیکل سے آلودہ دودھ معصوم بچوں کی نشوونما کے بجائے مہلک بیماریوں کا باعث ہو۔جانوروں کی ہڈیوں اور آلائشوںسے کوکنگ آئل بنایا جاتا ہو۔ مسالا جات سے لے کردالیں‘ چینی اور چاول میں ملاوٹ کرنے والوں کی مہارت اور کاریگری کو فنکاری کہا جاتا ہو۔تعمیراتی میٹر یل میں استعمال ہونے والی مصنوعات میں ملاوٹ کے نتیجے میں ہونے والے حادثات اور ہلاکتوں کو قدرتی سانحہ کہہ کر ذمہ داروں کو بری الذمہ کردیا جاتا ہو۔آٹو موبیل کے لیے لائف لائن کا درجہ رکھنے والا موبل آئل گاڑیوں کے انجن کو ناکارہ کردیتا ہو اور عوام کی مہنگی گاڑیاں کھٹارا بنتی چلی جارہی ہوں۔جہاں رشوت کو سپیڈ منی کا نام دے کر کالا دھن اکٹھا کیا جاتا ہو۔جہاں ماتحت عملہ فائل چلانے کے پیسے لیتا ہو اور افسران اپنے دستخط کی قیمت وصول کرتے ہوں۔ اصول‘ ضابطے اور اعتراضات اپنا اپنا بھائو لگواتے ہوں ایسے معاشرے میں ویکسی نیشن کے سرٹیفکیٹ کی قیمتیں مقرر ہونا او ر لندن بیٹھے نواز شریف کے شناختی کارڈ پر ویکسی نیشن ہوجاناکوئی ا چنبھے کی بات نہیں بلکہ ایسا نہ ہونا اچھنبے اور حیرت کی بات ہے۔
نواز شریف کی بیرونِ ملک روانگی پر وزیروں اور مشیروں کا مضحکہ خیر واویلا آج بھی جاری ہے۔ہسپتال سرکاری‘ ڈاکٹر سرکاری‘لیبارٹریاں سرکاری‘بیماری کی اَپڈیٹ سرکاری‘بیانیے سرکاری‘وزیر سرکاری‘مشیر سرکاری اور پھربھی کہتے پھرتے ہیں کہ نواز شریف جھوٹ بول کر اور دھوکا دے کر باہر گئے ہیں۔گر نواز شریف کی بیماری جھوٹی ہے تو سرکاری ہسپتالوں میں نوازشریف کی بیماری سے متعلق فائلیں‘ تشخیصی ٹیسٹ‘ ماہر ڈاکٹروں کے معائنے‘ میڈیکل بورڈز کی ماہرانہ رائے‘ وزیراعظم کے انتہائی قریبی اور مشیرصحت کا قلمدان سنبھالے ڈاکٹر فیصل سلطان کی ماہرانہ رائے اور دیگر حکومتی اقدامات سچ کیسے ہوسکتے ہیں؟سچ جھوٹ کا فیصلہ روز ہوتا ہے بلکہ نواز شریف کی بیرونِ ملک روانگی کے چند روز بعد ہی پورا سچ آشکار ہو گیا تھا۔
نواز شریف کو علاج کے لیے بیرونِ ملک بھجوانے کے بعد وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ انہیں نوازشریف پر رحم آگیا اور کابینہ میں اختلافِ رائے کے باوجود انہیں علاج کے لیے باہر جانے دیا۔ نواز شریف کی بیرونِ ملک روانگی پرحکومت کے چیمپئنز کا واویلا دیکھ کر لگتا ہے کہ اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں کے مصداق کچھ بھی اُن کی منشا اور توقعات کے مطابق نہیں ہوا۔ نواز شریف سے ریکوری کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ علاج معالجہ سے شروع ہونے والے ریلیف کا ڈراپ سین بالآخر نوازشریف کی روانگی پر ختم نہیں ہوا۔ بیرونِ ملک ان کی آزادانہ سرگرمیاں اور انتہائی سخت لب ولہجے میں کیسے کیسے بیانیے وزیروں اور مشیروں کے دلوں پر سانپ بن آج بھی لوٹ رہے ہیں۔ تین سال کا عرصہ گرز چکا ہے اگلا سال الیکشن کا سال ہوگا۔عام انتخابات میں نجانے کس بادشاہ کا راج ہوتا ہے سردست تو پنجاب میں متوقع انتخابی دنگل حکومتی پہلوانوں کی حالت پتلی کیے ہوئے ہے۔ کیا وزیر کیا ارکانِ اسمبلی اپنے انتخابی حلقوں میں جانے سے اس خوف سے گریزاں ہیں کہ عوام گلے نہ پڑ جائیں۔مہنگائی کا جن بازاروں اور گلی محلوں میں مسلسل ناچ رہا ہے۔اشیائے ضروریہ قوتِ خریدسے کب کی باہر نکل چکی ہیں۔ ڈالر کی آگ نے روپیہ خاکستر کردیا ہے۔مہنگائی کا جن اس کی راکھ ہر طرف اڑائے چلے جارہا ہے۔ قیمتوں کے تعین اور مانیٹرنگ پر مامور انتظامی ڈھانچہ طرزِ حکمرانی کے دیگر ڈھانچوں کی طرح ڈھانچہ بن کر بس تماشا دیکھ رہا ہے۔