کوئی کرشمہ ہے یا کوئی چمتکار‘ ہاتھ کی صفائی ہے یا آنکھ کا دھوکا‘ ملکی ادارے بھی برباد ہیں اور خزانے بھی خالی۔ کس قدر صفائی سے صفایا پھیرنے والوں کے ہاتھ اور دامن بھی صاف ہیں۔ اس سے بڑا جادو اور کیا ہو سکتا ہے کہ ملک و قوم کے وسائل کو بے دردی سے بے دریغ بھنبھوڑنے والے اپنی دیانتداری کے دعوے اور بیانیے کس ڈھٹائی سے داغے چلے جا رہے ہیں۔ سیاسی سرکس میں نئے آئٹم کے ساتھ مسلم لیگ (ن) جس کمال مہارت سے پروپیگنڈا کر رہی ہے‘ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ کوے کو سفید ثابت کرنا ہو یا سچ کو جھوٹ‘ حقائق کو مسخ کرنا ہو یا توڑنا مروڑنا ہو‘ سرکاری وسائل پر کنبہ پروری اور بندہ پروری کو قومی خدمت قرار دینا ہو یا صادق اور امین بننے کا ڈھونگ رچانا ہو‘ سبھی شعبدہ بازیوں میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔
اس قدر ڈھٹائی اور شدت سے زمینی حقائق کو الٹاتے پلٹاتے ہیں کہ اکثر زمین بھی ششدر اور حیران دکھائی دیتی ہے کہ میرے سینے پر بیٹھ کر کس مہارت سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کے لیے کیسی کیسی توجیہات‘ کیسے کیسے عذر اور کیسے کیسے جواز تراشے جا رہے ہیں۔ ان کی اس تراش خراش پر تو بڑے بڑے ماہر دانتوں میں انگلی داب لیتے ہیں کہ ان کے ہاتھ کی صفائی کے آگے تو ہماری مہارت بھی کچھ نہیں۔ ہم تو اپنے فن پر بڑے اتراتے تھے یہ تو معیشت کا پیندہ ہی چاٹ گئے ہیں‘ اور چیلنج کرتے ہیں کہ ایک دھیلے کی کرپشن بھی کوئی ثابت کرکے دکھائے۔ برطانوی ایجنسی کی تحقیقات کو بریت ثابت کرنے پر بضد خادم اعلیٰ فرماتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی کرپشن ثابت ہوجائے تو میری لاش کو قبر سے نکال کر کھمبے پر لٹکا دیا جائے۔ ان کی اس پیشکش کی قانونی حیثیت کے بارے میں تو قانون دان ہی روشنی ڈال سکیں گے تاہم ایسی صورتحال میں کھمبے کی رائے ضرور معلوم کر لینی چاہیے کہ وہ تختۂ مشق بننے پر آمادہ بھی ہے یا نہیں‘ کیونکہ جن سائنٹیفک وارداتوں کو قانون اور ضابطے مقامِ عبرت تک نہیں پہنچا سکے وہاں یہ کھمبا اتنی بڑی آزمائش کا متحمل کیسے ہو سکتا ہے؟
برطانوی کرائم ایجنسی کی رپورٹ پر سیاسی سرکس سے لے کر ہر سطح پر دانشوری اور بیانیے مسلسل جاری ہیں جس پر مزید قلم آرائی کرکے الفاظ کی جگالی سے احتیاط اور پرہیز ہی بہتر ہے‘ تاہم ڈی جی نیب لاہور پر برطانیہ میں نیشنل کرائم ایجنسی کے حکام سے ملاقات کرنے کا الزام ناقابلِ فہم ہے۔ ان کے بارے میں الزام تراشی کرنے والوں کے سیاسی مریدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ سازش نہیں تفتیش کررہے ہیں اور تفتیش اور تحقیقات کے عمل میں معلومات کا تبادلہ اور خط و کتابت عین منطقی ہے۔ ڈی جی نیب نے برطانوی ایجنسی سے ملاقات کی تھی یا نہیں یہ بحث لاحاصل ہے اور محض وقت کاضیاع۔ یہ کون سی بریت کی بات کرتے ہیں‘ ہوشربا اور بھاری رقوم کی ترسیلات کے بینی فشری شریف خاندان اور استعمال ہونے والے ان کے حواری اور ملازمین کے بارے میں سارے راز تو افشا ہو چکے ہیں جبکہ نیب عدالت میں زیر سماعت کیس نہ صرف ٹھوس شواہد پر مبنی ہے بلکہ نیشنل کرائم ایجنسی کے کیس سے یکسر مختلف ہے‘ تاہم گمراہ کن زاویے ہوں یا مسخ شدہ حقائق پر مبنی پروپیگنڈا کسی صورت نیب کی تحقیقات اور عدالتی فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔
اگر فرض کرلیا جائے کہ برطانوی ایجنسی نے شریف فیملی کو بے گناہ قرار دے دیا ہے تو پھر خادم اعلیٰ اور ان کے سیاسی طرف دار واویلا کس بات کاکر رہے ہیں؟ بریت کا جشن منائیں اور برطانیہ میں بیٹھے اپنے قائد محترم محمد نواز شریف اور ان کے پسران کو وطن واپس بلائیں اور ان کا شاندار استقبال کرکے قوم کو بتائیں کہ ان پر لگے سارے الزامات غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ وہ بھی اپنی بے گناہی کے ساتھ وطن واپس آکر خود کو عوام کی عدالت میں پیش کردیں۔ قائدِ عوام کے نعرے لگوانے کے بجائے قائد عوام بننے کا حوصلہ پیدا کریں تبھی ان کے دعووں اور بیانیوں میں جان پڑ سکتی ہے ورنہ یہ سبھی آنیاں جانیاں اور شعلہ بیانیاں سیاسی سرکس کا آئٹم تو ہوسکتی ہیں لیکن حقائق کے برعکس اور یکسر مختلف۔
شریف برادران نجانے کس بھول میں ہیں اور کس غفلت کا شکار۔ قانون اور ضابطوں کو الجھایا جا سکتا ہے‘ زمینی عدالتوں میں تاخیری حربے اختیار کیے جا سکتے ہیں‘ بہانے گھڑے جا سکتے ہیں‘ عذر تراشے جا سکتے ہیں‘ جھوٹی سچی بیماریاں طاری کی جا سکتی ہیں لیکن یاد رہے آسمانی فیصلوں کے آگے زمینی عدالتیں اور وکالتیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ مکافاتِ عمل کی چکی اپنی رفتار سے بلاتعطل چلے جارہی ہے۔ کوئی اس کی پکڑ میں آئے اور دو پاٹوں میں نہ پسے یہ ممکن ہی نہیں۔ قانونِ فطرت جب حرکت میں آتا ہے تو ساری تدبیریں اور حربے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ یہ نشانیاں ہیں سمجھنے والوں کے لیے۔ یہ کیسے ناداں ہیں انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی کہ یہ دربدر کی ٹھوکریں‘ آئے روز کی پیشیاں‘ پریشانیاں اور جگ ہنسائیاں‘ ریمانڈ اور گرفتاریاں‘ بار بار جیل یاترا‘ یہ سب کیا ہے؟ پکڑ اور کیا ہوتی ہے؟ یہ سبھی مصائب کوئی آزمائش ہرگز نہیں‘ یہ مکافات کی پکڑ ہے۔
خلقِ خدا کی ضروریات اور حاجات سے وابستہ ہونا یقینا باعثِ اعزاز ہے۔ ربِ کائنات یہ اعزاز اپنے منتخب بندوں کو ہی عطا کرتا ہے۔ حکمرانی جہاں قدرت کا بہت بڑا انعام ہے اس سے کہیں بڑھ کر امتحان بھی ہے۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ گورننس کے مواقع قدرت نے سبھی کو عطا کیے ہیں۔ اس عطا میں خطا کی گنجائش ہرگز نہیں۔ خطا کے باوجود عطا جاری رہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ قدرت مزید مہلت دے رہی ہے۔ اس مہلت کو نعمت اور غنیمت جان کر طرزِ حکمرانی اور دیگر معاملات پر نظرثانی ضرور کرلینی چاہئے۔ کہیں کوئی بھول چوک اور خطا تو سرزد نہیں ہوگئی۔ بدقسمتی سے مملکت خداداد میں روزِ اول سے لمحہ موجود تک جسے بھی حکمرانی کی نعمت عطا ہوئی وہ اس عطا کو اپنی استادی‘ مہارت اور اہلیت سے منسوب کرکے اسے اپنی ہی ادا کا کرشمہ سمجھ بیٹھا۔ گویا یہ قدرت کی عطا نہیں بلکہ اس کی کسی ادا کا چمتکار ہے۔
خطا در خطا کے باوجود ہمارے حکمرانوں کو قدرت مہلت بھی خوب دیتی رہی‘ یہی وجہ ہے کہ شریف برادران اس ملک پر تین دہائیوں سے زائد عرصہ تک شوقِ اقتدار پورا کرتے رہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی پہلے ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں پھر بے نظیر اور بعد میں آصف علی زرداری کی شکل میں برسر اقتدار رہی۔ کئی خاندان نسل در نسل ان جماعتوں کے پیروکار ہیں۔ خطائوں کے باوجود مہلت کا میسر رہنا کسی کرشمے سے کم نہیں۔ ماضی کے بیشتر حکمران طویل عرصہ تک اس کرشمے کے بینی فشری رہے ہیں۔ جوں جوں انہیں یہ کرشمے میسر آتے رہے توں توں یہ سبھی بوئے سلطانی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ کیا ان حکمرانوں سے یہ پوچھا جانا عین منطقی نہیں کہ جن اہداف کے حصول کے لیے یہ حکمرانی آپ کو عطا کی گئی جب وہی پورے نہ ہو سکے تو یہ ساری مراعات اور عزت افزائی‘ شکم سامانیاں کس کھاتے میں؟ آج بھی یہ سوال اہم ہے کہ کہاں گئے وہ ماہرین جو برسر اقتدار آنے سے پہلے گورننس کی تیاری کر رہے تھے؟ وہ نتائج برآمد کیوں نہ ہو سکے؟ عوام کو گمراہ کیوں کیا گیا؟ یاد رہے! خطائوں کے باوجود مہلت قدرت کی عطا ہے جیسے ان سے پہلے حکمرانوں کو یہ عطا ہوتی رہی ہے۔