عثمان بزدارکو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنائے ہوئے تین سال سے زائد عرصہ گزر چکا۔ ان کی تبدیلی کے خواہشمند اور دعویدار روزِ اول سے اپنی خواہشات کی تکمیل میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں تاہم اب یہ کوششیں نہ صرف دم توڑتی نظر آتی ہیں بلکہ وزارتِ اعلیٰ کی دوڑ میں سرپٹ بھاگتے بھاگتے اکثر چیمپئن مایوس ہوکر اپنے وزیراعلیٰ نہ بننے کی توجیہات اور عجیب و غریب منطق پیش کرنے کے علاوہ حکومت پر تنقید کے بہانے بھی ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ تین برسوں کا جائزہ لیں تو عثمان بزدار کی تبدیلی کا موضوع ٹاپ ٹرینڈ رہا ہے۔ وزارتِ اعلیٰ کے اُمیدواروں کی زبان سے یہ الفاظ خواہش بن کر نکلتے رہے ہیں کہ عثمان بزدار جا رہے ہیں‘ آج جا رہے ہیں‘ کل جا رہے ہیں‘ اب گئے تو تب گئے‘ اس بار تو بس گئے۔ ان کا متبادل بن کر وزارتِ اعلیٰ کے خواب دیکھنے والے کئی اُمیدوار ناکام ہونے کے باوجود اپنے دل میں وزیراعلیٰ بننے کی خواہش لیے وزیراعظم کے ہر دورئہ لاہور پر اُن کے آگے پیچھے گھوم پھر کر خو دکو ان کی نظرانتخاب کا مرکز بنانے کے چکر میں نجانے کون کون سے چکر چلاتے رہے ہیں۔ لاہور میں اگر وزیراعظم کی نظروں میں آنے سے رہ جائیں تو اپنی کارکردگی کا ریکارڈ اُٹھائے وفاقی دارالحکومت جا پہنچتے ہیں۔ کئی ایک تو چکر کاٹتے کاٹتے تھک ہار چکے ہیں لیکن وزیراعظم ہر بار عثمان بزدار پر ہی اظہارِ اعتماد کر کے اُن کی امیدوں پر پانی پھیرنے کے ساتھ ساتھ کھلی آنکھ سے دیکھے خوابوں کو بھی چکنا چور کر ڈالتے ہیں۔ اس دوران نجانے کتنے سکینڈلز کے تانے بانے بزدار کے ساتھ جوڑنے کی کوشش بدستور جاری ہے۔ ان کے بھائیوں سے لے کر عزیز و اقارب اور نجانے کس کس کو ان کا فرنٹ مین ثابت کرنے کے لیے کیسی کیسی کہانیاں اور داستانیں گھڑی اور پھیلائی جا رہی ہیں۔ وزیراعظم ہر دورئہ لاہور پر ان سے منسوب تمام تر افواہوں اور سکینڈلز کی پروا کیے بغیر اپنا سارا وزن ان کے پلڑے میں ڈال کر وزیراعلیٰ کی دوڑ میں ہلکان ہونے والوں کو مزید ہلکا کر جاتے ہیں۔
بغلیں بجانے والوں کو خبر ہو کہ گلشن کا کاروبار بس یونہی چلتا رہے گا اور عثمان بزدار دن بدن مزید متحرک ہوتے دکھائی دیں گے۔ کئی بیریئر وہ پہلے ہی توڑ چکے ہیں اب لیگ ورک کے ساتھ ساتھ انتظامی فیصلوں کا ہنر بھی خوب سیکھ چکے ہیں۔ قدرت کی طرف سے ملنے والے مواقع بیشک عطا اور انعام ہوتے ہیں۔ اس عطا کو رب کا کرم اور آزمائش سمجھنے والے ہی ہر امتحان میں پورا اترتے ہیں۔ ماضی میں یہ عطا اور انعام کئی دہائیوں تک شریف خاندان پر کثرت سے جاری رہے۔ بدقسمتی سے وہ اس عطا کو اپنی ہی کوئی ادا سمجھ بیٹھے‘ اس آزمائش پر پورا اُترنے کے بجائے اکثر ملک و قوم کو نجانے کتنی آزمائشوں سے دوچار کرتے رہے ہیں۔ حکمرانی جیسی عطا کو بوئے سلطانی سے آلودہ کر کے گورننس اور میرٹ کے نام پر کیسا کیسا اُدھم اور کیسا کیسا اندھیر نہیں مچایا گیا۔نواز شریف دو مرتبہ وزیراعلیٰ اور تین مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے جبکہ شہباز شریف تین مرتبہ تخت پنجاب کے مزے لے چکے ہیں اور ان کی اولادیں بھی غیر اعلانیہ طور پر ان کے اختیارات اور اقتدار میں برابر کی شریک رہی ہیں لیکن اس شراکت داری نے گورننس کو ہمیشہ شرمسار اور میرٹ کو تار تار ہی رکھا۔ قدرت کی طرف سے بار بار عطا کو وہ مہلت کے بجائے اپنی ادا اور کاریگری سمجھنے والے ہر بار مقدر کے سکندر تو بنتے چلے گئے لیکن اپنے ہی ہاتھوں اور کثرتِ زبانی سے اپنا مقدر بگاڑ بیٹھے۔
عثمان بزدار کی کارکردگی اور ان سے جڑے سکینڈلز اور فواہوں سے مجھے نواز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے ابتدائی ایام یاد آرہے ہیں اگر ان کا دورِ حاضر سے موازنہ کیا جائے تو بہت سی گتھیاں سلجھ سکتی ہیں۔ جنرل ضیاالحق نے 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کروائے تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے بڑے بڑے نامی گرامی‘ حسب نسب والے اور انتہائی قد آور سیاستدان امیدوار تھے۔ ہر امیدوار ایک سے بڑھ کر ایک ‘غیر معمولی سماجی حیثیت اور سیاسی اثر ورسوخ کا مالک تھا لیکن جب قرعہ نواز شریف کے نام نکلا تو ارکان اسمبلی حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ ان کیلئے انتہائی مشکل اور کٹھن مرحلہ تھا کہ ان کے سیاسی اور سماجی قد کاٹھ کو نظرانداز کرکے ایک ''بابو ٹائپ‘‘ ایم پی اے کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا جا رہا ہے جس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ صورتحال پوری پنجاب اسمبلی کے لیے سوالیہ نشان بن کر رہ گئی‘ اونچے شملے والی سیاسی قد آور شخصیات اکٹھی ہوگئیں کہ وزارت اعلیٰ کے لیے ہم نہ سہی‘ لیکن کوئی ہم سا تو ہو‘ اور نواز شریف تو ہرگز نہیں۔
واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ وزارت اعلیٰ کی تقریب حلف برداری کے دوران گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی نے چائے کی ٹرے اٹھائے لے جاتے ہوئے ویٹر (بیرا)کو آواز دے کر بلایا اور اس کے سر سے کلاہ اتار کر نواز شریف کے سر پر رکھ دیا۔ حاضرین محفل کے لیے یہ ایک کھلا پیغام تھا کہ جادو کی چھڑی بہرحال ان کے ہاتھ میں ہے‘ کسی کو خاک بنا دیںکسی کو زر کر دیں۔ یہ واقعہ دہرانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ صبح شام وزیراعلیٰ کی تبدیلی کا راگ الاپنے والے نہ صرف زمینی حقائق سے نظریں چرا رہے ہیں بلکہ وہ کوئے سیاست کے اسرارو رموز سے بھی ناواقف دکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی بلوغت سے محروم ان چیمپئنز کو یہ بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ نواز شریف کو وزیراعلیٰ بنتے ہی اپنی عزتِ نفس پر سمجھوتہ کرنا پڑا واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی پہلی تقریب حلف برداری میں جنرل غلام جیلانی نے کس طرح ویٹر کے سر سے کلاہ اتار کر انہیں پہنایا‘ لیکن بزدار کا کیس یکسر مختلف ہے۔ ان کی نہ تو عزت نفس مجروح کی گئی اورنہ ہی وزیراعظم کی طرف سے کبھی توہینِ آدمیت کا اشارہ ملا۔
وزیر اعظم سے ملاقات وفاقی دارالحکومت میں ہو یا صوبائی دارالحکومت میں ہر بار مینڈیٹ اور اعتماد اضافے کے ساتھ ہی ملا۔ یہ حالات عثمان بزدار کو نواز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے ابتدائی ایام سے نہ صرف ممتاز کرتے ہیں بلکہ وہ کسی گورنر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے چاپلوسی پر بھی مجبور نہیں اُلٹا گورنر اپنی ناقدری اور بے وقعتی کا گلہ اکثر کرتے نظر آتے ہیں۔ بزدار سے جڑے سکینڈلز ہوں یا افواہیں‘ ان کی حیثیت اس بھینس چوری کے مقدمے سے زیادہ ہرگز نہیں جو چوہدری ظہور الٰہی کے خلاف درج کروایا گیا اور ان افواہوں کا نتیجہ بھی اس بھینس چوری کے مقدمے سے زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔ عثمان بزدار گورننس کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے خود سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ سرکاری اداروں میں اچانک چھاپوں اور معطلیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ سرکاری بابوؤں کا قبلہ کب تک درست کر پائیں گے جو نجانے کہاں کہاں جھکتے چلے جارہے ہیں۔ سابق ادوار میں لگائی گئی انتظامی پنیری آج مضبوط جنگلی بیل بن کر سسٹم کو نہ صرف لپیٹے ہوئے ہے بلکہ گورننس پر اُٹھنے والے سوالات کا باعث بھی بن رہی ہے۔ تاہم اہداف کے حصول کیلئے اس جنگلی بیل کی تراش خراش کے بجائے بھرپور کٹائی کرنا ہوگی۔