کبھی وکی لیکس تو کبھی ڈان لیکس۔ کبھی پاناما لیکس تو کبھی پنڈورا پیپرز۔ یہ سبھی ملکی سیاست میں بھونچال کے ساتھ ساتھ سیاسی سرکس میں نئے آئٹمز کے علاوہ اگلے اہداف اور شکار کی بھی خوب نشان دہی کرتے ہیں۔ ہر لیکس پر ملک بھر میں وضاحتوں اور توجیہات کے کیسے کیسے پہاڑ بنائے جاتے ہیں۔ اکثر یہ پہاڑ سر کر کے سر بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور جو نشانے پر ہوتے ہیں وہ ان لیکس کا شکار بن جاتے ہیں۔ اس پنڈورے کے نتیجے میں کون کون لنڈورا ہوتا ہے۔ پنڈورا لیکس کے پنڈورے میں کون شہید اور کون غازی ٹھہرتا ہے اس کا فیصلہ بھی ہو ہی جائے گا۔ اس کے بعد نجانے کون سا پنڈورا اور کون سی لیکس آتی رہیں گی اور سیاسی سرکس کے بازی گر اور آئٹم بھی بدلتے رہیں گے‘ تاہم وزیر اعظم صاحب نے بلا لحاظ تحقیقات کا اعلان کر ڈالا ہے اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ اپنے لوگوں کے خلاف بھی سپریم کورٹ تک جائیں گے جبکہ اپوزیشن نے وزیر اعظم کی نگرانی میں تحقیقات کے نعروں کو مضحکہ خیز اور کھوکھلا قرار دیا ہے۔
اپوزیشن کے لیے احتسابی عمل کو مضحکہ خیز قرار دینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ خود داری سے لے کر غیرت قومی تک‘ سرکاری وسائل پر کنبہ پروری سے لے کر بندہ پروری تک‘ ووٹ کی بے حرمتی سے کر حلف اور آئین سے انحراف تک‘ مفاد عامہ کے منصوبوں سے تجارتی فائدے حاصل کرنے سے لے کر کمیشن خوری تک‘ سرکاری خزانے کو طول اقتدار کے لیے استعمال کرنے سے لے کر لوٹ مار کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے تک‘ منصب اور عہدوں کے زور پر ذاتی کاروبار کو زمین سے آسمان پر پہنچانے سے لے کر اہم اور پیداواری عہدوں پر اپنے چہیتوں کو تعینات کرنے تک‘ ملکی خزانے اور وسائل پر ہاتھ صاف کر کے بھی دامن اور ہاتھ صاف ہونے کے دعوے کرنے سے لے کر ہاتھ کی صفائی کو نصب العین بنانے تک‘ کس کس کا رونا روئیں؟ کس کس کی دہائی دیں؟ ان سبھی کرتوتوں اور وارداتوں کے باوجود وہ اسے کس قدر ڈھٹائی سے قومی خدمت قرار دیتے ہیں۔
اپوزیشن میں شامل شریف برادران ہوں یا زرداری اینڈ کمپنی‘ ان سبھی کے لیے احتساب کسی مذاق اور مضحکہ خیز عمل سے کم ہرگز نہیں۔ سمندر پی کر بھی ان کے لب خشک اور آج بھی پیاسے ہیں۔ ان کی ہوس کی پیاس نہ بجھی ہے نہ کبھی بجھے گی۔ کیسی مہارت ہے کیسی کاری گری ہے؟ ملکی معیشت کا پیندا چاٹ جانے والے، اقتصادی اصلاحات کے نام پر ذاتی مفادات کے گرد گھومتی پالیسیاں بنانے والے‘ لانچیں بھر بھر کر کرنسی نوٹوں کی نقل و حمل کرنے والے‘ ملازموں اور نا معلوم افراد کے نام پر جائیدادیں اور اکائونٹس چلانے والے‘ ٹی ٹیوں کی آڑ میں قومی خزانے کو ٹیکہ لگانے والے آج بھی سماج سیوک نیتا بنے آزاد اور موجیں مارتے پھر رہے ہوں تو احتساب کی باتیں مضحکہ خیز ہی لگتی ہیں۔ یہ احتسابی عمل سے گزرے ہی کہاں ہیں؟
انتہائی تعجب کی بات ہے کہ عام آدمی کسی چھوٹے موٹے کیس میں پکڑا جائے تو دو چار دن کے ریمانڈ کے بعد اس کی حالت ہی غیر ہوتی ہے۔ جب اسے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو تفتیش کے نام پر جس صورت حال کا اسے سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ صرف ملزم کی حالتِ زار سے لگایا جا سکتا ہے۔ اکثر تو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہی نہیں رہتے‘ جبکہ جسم پر ظاہری اور پوشیدہ تشدد کے نشانات گواہی دیتے ہیں کہ اس ستم رسیدہ کے ساتھ کیا سلوک ہوا ہے‘ دوسری طرف ملکی خزانے کا صفایا کرنے والوں سے لے کر وسائل کو بھنبھوڑنے والوں تک‘ بھتہ خوروں سے لے کر ٹیکس خوروں تک‘ عوام کی فلاح و بہبود کا پیسہ کنبہ پروری اور اللوں تللوں پر اڑانے والوں تک‘ سبھی زیر حراست کئی کئی ہفتوں کے ریمانڈ کے بعد جب عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں تو ان کی شان ہی نرالی ہوتی ہے۔ کلف لگی قمیص شلوار اور واسکٹ زیبِ تن کیے ہوئے‘ چم چم کرتے جوتے‘ سلیقے سے بنائے گئے بال اور کھینچ کر کی گئی شیو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ پیشی بھگتنے نہیں‘ بلکہ کوئی فیتہ کاٹنے آئے ہیں۔
کوئی احتساب کے خوف سے بیماری کی آڑ میں بیرون ملک بیٹھ کر قومی سلامتی کے اداروں کو للکارتا ہے تو کوئی خود کو خادم اعلیٰ ثابت کرنے کے لیے آج بھی بضد ہے۔ نہ دونوں اپنا حساب دے پائیں ہیں نہ ہی اولادوں کے ہوشربا مال اسباب، جائیدادیں اور اکائونٹس کا کوئی حساب ہے۔ کس قدر ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ میں اپنی بیوی اور اولاد کا حساب کیوں دوں؟ وہ جانیں اور ادارے جانیں۔ نیب کی اسیر ایک خاتون سیاسی رہنما جب پیشی پر آتی تھیں تو اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ پیشی پر آنے سے پہلے انہوں نے کتنا وقت بننے سنورنے میں لگایا ہو گا‘ یعنی جتنا بڑا ملزم اتنا بڑا پروٹوکول۔ پیشی پر آنے سے پہلے اگر ان اسیر سیاست دانوں کے گیٹ اپ اور میک اپ پر پابندی لگا دی جائے تو ان کی شکلیں دیکھنے سے تعلق رکھیں گی۔ اپنی اصل شکلیں چھپانے کے لیے یہ سب یقینا نقاب لگا کر پیشیوں پر آیا کریں گے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ پیشی کے بعد عدالتوں کے باہر یہ مجمع نہیں لگائیں گے اور نہ ہی لمبے چوڑے بھاشن دے سکیں گے‘ اور یہ ترلا بھی کریں گے کہ انہیں خاموشی سے لایا جائے اور خاموشی واپس لے جایا جائے؛ تاہم اپوزیشن کا یہ واویلا بجا اور یہ مطالبہ بھی جائز ہے کہ وزیر اعظم اپنے بیانیوں کا پاس رکھیں اور بلا امتیاز احتساب کی باتوں پر عمل کر کے دکھائیں۔ یہ تاثر بھی دن بہ دن تقویت پکڑتا چلا جا رہا ہے کہ احتساب کی چکی صرف اپوزیشن کے دانوں کو پیسنے کے لیے بار بار چلائی جا رہی ہے جبکہ انصاف سرکار میں موجود بیشتر ایسے لوگ موجیں مار رہے ہیں جو احتسابی اداروں کو مطلوب ہونے کے باوجود اداروں کی پکڑ سے دور ہیں‘ کوئی حکمران پارٹی کا عہدے دار ہے تو کوئی کابینہ کو محفوظ پناہ گاہ سمجھتا ہے۔ کوئی ایوان وزیر اعظم کو ڈھال بنائے بیٹھا ہے تو کوئی شریک اقتدار ہے۔ ایک احتسابی چیمپئن دورہ لاہور کے دوران کس کے مہمان ہوتے ہیں اور میزبان کی طرف سے کیسی کیسی سہولتوں اور نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں‘ یہ مہمان داریاں اور میزبانیاں بھی ایک معمہ اور بدستور سوالیہ نشان ہیں۔ ماضی کے سبھی ادوار سے لے کر دور حاضر تک صورت حال جوں کی توں ہے۔ قوانین اور ضابطے موجود ہیں مگر شخصیات اتنی با اَثر اور طاقتور ہیں کہ قانون اور ضابطے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور مجاز اتھارٹیز اس افسوسناک حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ وطن عزیز کی اس ماتمی صورت حال پر زہرا نگاہ صاحبہ کے چند اشعار بے اختیار یاد آرہے ہیں جو پیش خدمت ہیں:
سنا ہے جنگلوں کا بھی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
سنا ہے ہوا کے تیز جھونکوں میں
مینا اپنے گھر کو بھول کر کوے کے انڈوں کو تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گرے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سنا ہے جب سیلاب آ جائے تو لکڑی کے تختے پر
سانپ‘ بکری اور چیتا ایک ساتھ ہوتے ہیں
منصفو! میرے ملک میں جنگلوں کا ہی کوئی دستور لے آؤ