مقامِ استعجاب ہے کہ ''جوا ئنٹ وینچر‘‘ کے تحت مینارپاکستان گراؤنڈ میں رچائے جانے والے سکرپٹڈ (Scripted) ڈرامے کے کردار آمنے سامنے آکر ایک دوسرے پر الزام تراشی کے ساتھ ساتھ کردار کشی بھی کر رہے ہیں۔معاملہ ریٹنگ اور ٹاپ ٹرینڈنگ سے کہیں آگے کا نکلا۔شریکِ جرم کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاکر خاتون نے پانچ لاکھ فی بندہ بٹورنے کا منصوبہ بنایا تھاجبکہ اس شرمناک ڈرامے کی مرکزی کردار نے انکشاف کیا کہ ریمبو کے پاس میری نازیبا ویڈیوز ہیں اور وہ مجھے بلیک میل کرکے اب تک دس لاکھ روپے بٹور چکا ہے ۔پورا سچ سامنے آتے آتے دنیا بھر میں ہمارا جو تماشا بن چکا ہے اس کی تلافی شاید نہ ہوسکے کیونکہ یہ تماشا لگانے والے کہیں باہر سے نہیں آئے بلکہ ہمارے حکمران اور وہ نام نہاد دانشورہیں جن کی رائے اور گفتگو میں عقل و دانش کا دور دور تک نام و نشان نہیں ملتا۔
یہ پیرا ٹروپرجو سوشل میڈیا پرگمراہ کن پروپیگنڈا کرکے سماجی قدروں کو تہہ و بالا کرنے کے ساتھ ساتھ ٹاپ ٹرینڈ بننے کے لیے اکثر حکومتی فیصلوں اور پالیسیوں پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں ‘ ان کی وجہ سے زمینی حقائق اور پورا سچ سامنے آنے تک حالات و واقعات کی شکل ہی بگاڑ کر رکھ دی جاتی ہے۔ ایسی افراتفری کا سماں دکھائی دیتا ہے کہ حکمرانوں سے انتظامی افسران اور عوام الناس تک سبھی اندھا دھند بھاگتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس بھیڑ چال نے حکمرانوں کو ایسے مسخر کیا ہے کہ وہ بعض اوقات پس منظر ‘صورتحال اور حقائق معلوم کیے بغیر عجلت میں ایسے انوکھے فیصلے کر ڈالتے ہیں جو نہ صرف قانون اور ضابطوں کو آزمائش سے دوچار کرتے ہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی بگاڑ کے ذمہ داروں کو بھی اشیرباد دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم تو سوشل میڈیا سے اتنا جلد متاثر ہوکریقین کی تمام منزلیں بڑی تیزی سے طے کرجاتے ہیں اور انتظامی مشینری جھوٹے سچے واقعات پر بلا تحقیق یوں حرکت میں آتی ہے کہ زمینی حقائق اکثر زیر زمین ہی چلے جاتے ہیں اورپورا سچ سامنے آنے تک کی سبکی کے ساتھ ساتھ انتظامی فیصلے سوالیہ نشان بن کر عجلت اور غیر ذمہ داری کی سولی پر چڑھ چکے ہوتے ہیں جبکہ سماجی و اخلاقی قدریں لیر و لیر ہونے کے علاوہ معاشرے میں عدم تحفظ اور بگاڑ پیدا کرنے کی داستان بھی بہت بھیانک اور طویل ہے۔
کہاں ہیں وہ جو اس شرمناک ڈرامے کے رچائے جانے کے بعد ٹک ٹاکر کے سرپر ہاتھ پھیر کراس بات پر شکر ادا کررہے تھے کہ اچھا ہی ہوا کہ اللہ نے انہیں بیٹی نہیں دی کیونکہ اس معاشرے میں بنتِ حوا محفوظ نہیں۔ اس ڈرامے کی آڑ میں اخلاقی اور سماجی قدروں پر اپنے ایجنڈے کی کالک ملنے والوں نے کس طرح ہماری تہذیب اور اداروں کو برا بھلا کہا۔ کہاں ہیں وہ جو تھانے میں دی جانے والی درخواست پر مدعیہ کا پتہ غلط ہونے کے باوجود نامعلوم مقام پر اس کا انٹرویو کرکے سوشل میڈیا پرریٹنگ لیتے رہے ہیں؟گویا اس شرمناک کھیل میں ٹک ٹاکر ہو یا شریک جرم ‘سوشل میڈیا پر من چاہی ریٹنگ حاصل کرکے ٹاپ ٹرینڈ بننے کے تمنائی ہوں یااس ڈرامے سے دنیا بھر میں وطنِ عزیز کو بدنام کرنے والے‘سبھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ احتجاج اور یکجہتی کرنے والے ہوں یا تضادات کی وجہ سے واقعہ پر اختلافِ رائے رکھنے والے‘ سبھی پاکستانی ہیں لیکن یہ جب ریٹنگ اور سیلف پروموشن کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں تو یہ سبھی ٹاپ ٹرینڈ بن کر بہت آگے نکل جاتے اور پاکستانیت بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔
ہماری سماجی و اخلاقی اقدار پر غلاظت کے ٹوکرے الٹنے والے ہوں یا سنگ باری کرنے والے‘ سبھی کا ہدف ریٹنگ اور ٹاپ ٹرینڈنگ ہی تھا۔ اُس وقت بھی عرض کیا تھا کہ گزرتے وقت کے ساتھ وقوعہ کی مرکزی کردار کے بارے میں تضادات اور ماضی کے چند واقعات آنے والے وقت میں مزید انکشافات کا باعث بھی ہو سکتے ہیں اور آج نہیں تو کل پورا سچ ادھورے سچ کو ضرور ظاہر کرے گا ۔ریکارڈ پر موجود کالم میں یہ بھی کہا تھا کہ گریٹر اقبال پارک میں رونما ہونے والے اس واقعہ کے سبھی کردار نہ صرف بے نقاب ہوں گے بلکہ افشا ہونے والا یہ بھید بھی ٹاپ ٹرینڈ بنے گا۔ قانونی موشگافیوں کے ساتھ ساتھ کئی کرداروں کی آنیوں جانیوں کے علاوہ سبھی ڈرامے بازیاں انتہائی مہارت اور کاری گری سے ترتیب دی گئی تھیں۔ کرداروں کی آمد اور نشست و برخاست بھی سکرپٹ کا حصہ نظر آتی ہے۔ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے یہی واویلا کرتے رہے کہ یہ واقعہ یقینا کسی سارش یا مخصوص اہداف اور مائنڈ سیٹ کے تحت پیش آیا ہے اس لیے عجلت میں فیصلے کرنے کے بجائے تحقیقاتی رپورٹ آنے تک صبر ضرور کرلینا چاہیے‘تا ہم آفرین ہے فیصلہ سازوں پہ جنہوں نے بلاتحقیق ایسے ایسے فیصلے کرڈالے کہ سوشل میڈیا پر منظم اور طے شدہ مہم کے زیر اثر لاہور پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز سمیت کئی سینئر افسران اور ایس ایچ اوز کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا جبکہ پی ایچ اے کے متعلقہ عملے کو بھی اس واقعہ کی دلدل میں دھنسا دیا گیا ۔
ٹک ٹاکر اور اس کے ساتھی کے بیانات اور ایک دوسرے پر الزامات کے بعد انتظامیہ کے ویژن‘ معاملہ فہمی اور فیصلہ سازی کی صلاحیتوں کا پول بھی کھل چکا ہے۔گویا اس شرمناک واقعہ کے ذمہ داروں نے جو خاک ہماری تہذیب اور اخلاقی قدروں کے سر میں ڈالی تھی وہی خاک حکمرانوں نے پولیس اور انتظامی افسران کے سر میں ڈال کر نہ صرف معاشرے میں عدم تحفظ کے خوف میں اضافہ کیا بلکہ مذکورہ افسران کی اہلیت اور قابلیت پر بھی سوالیہ نشان لگا ڈالا۔
میری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ سوشل میڈیا پرٹاپ ٹرینڈ بننے والے اکثر واقعات اور موضوعات اور ان کے ''پرچارکوں‘‘ سے دور ہی رہوں اوران سے لاتعلقی قائم رکھنے کی بھی بھرپور کوشش کیے رکھتا ہوں۔ مسلسل کڑھنے اور اندر ہی اندر ملامت کرنے کے بعداب اکثر انتہائی بوجھل دل اور منتشر خیالات کے ساتھ ہی ایسے موضوعات پر خود کو لکھنے پر آمادہ کرتا ہوں۔ میری پارٹی میری مرضی‘ میرا صوبہ میری مرضی‘ میری گاڑی میری مرضی‘ میرا جسم میری مرضی وغیرہ وغیرہ کے بعد اب میرا کیمرہ میری مرضی والوں نے من مرضی کا طوفان برپا کر رکھا ہے۔ یہ مرضی اب من مرضی اور خود غرضی کی تمام حدیں پار کرکے اخلاقی اور معاشرتی قدروں کے لیے دہشت گردی سے کم نہیں۔ اس کیمرے کے توسط سے دکھائے جانے والے بھاشن اور دانشوری کے نام پر ہماری اخلاقی اور سماجی قدروں پر سوالات اٹھا کر ریٹنگ حاصل کرنے والوں کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ ٹاپ ٹرینڈنگ کی دوڑ میں غیرتِ قومی کا جنازہ نکال رہے ہیں۔
یہ لوگ کون سی تہذیب کی بات کرتے ہیں؟ کون سی اخلاقی اور سماجی قدروں کا چورن بیچ رہے ہیں؟ ٹک ٹاکر ٹاپ ٹرینڈ بننے کی خاطر کون کون سا گل نہیں کھلا رہے؟ گھر بیٹھے مشہور ہونے سے لے کر مال کمانے تک کون سا حربہ استعمال نہیں کر رہے؟ اخلاقی وسماجی قدروں سے بے نیاز یہ سبھی ٹک ٹاکر اپنے خاندان سے لے کر معاشرے تک کو کیسی کیسی آزمائش سے دوچار کررہے ہیں۔ ویڈیو ہِٹ ہونی چاہیے بس‘ منظر اخلاق باختہ ہو یا حواس باختہ‘ سب چل رہا ہے۔مگر جہاں سب چلتا ہے تو پھر ایسے واقعات بھی رونما ہو ہی جاتے ہیں جہاں تہذیب ثانوی اور اقدار بے معنی ہو جائیں۔اس پر ستم یہ کہ ایسے سکرپٹڈ واقعات پر ہونے والے فیصلوں سے ہلکی سی یہ جھلک بھی نظر آتی ہے کہ میری حکومت میری مرضی۔