"AAC" (space) message & send to 7575

مرگ ِنو …

مسلسل خسارے میں ہی نہیں بلکہ بدبخت ہے وہ شخص جو اپنے ملازمین کی دعائوں میں نہیں۔ اکثر سوچتا ہوں کہ ملازمین اور ماتحتوں کی دعائوں سے محروم شخص اگر اس قدر خسارے میں ہے تو اُن حکمرانوں کا کیا بنے گا جو اپنے ہی عوام کی مناجات میں شامل نہیں۔ ستم یہ کہ عوام بھی حکمرانوں کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہے۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر عوام حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہوں تو حکمران عوام کی مناجات سے محروم کیسے رہ سکتے ہیں؟ دعائوں سے محروم شخص کی بھی کیا زندگی ہو سکتی ہے؟ اپنی انائوں اور خطائوں کے خول میں بند خود پسندی کے مرضِ لا علاج میں مبتلا اپنی ہی ذات کے گرد طواف کرنے والا کوئی عام آدمی ہو یا اہم ترین‘ سبھی کو خبر ہو کہ سدا بادشاہی اللہ ہی کی ہے۔ کیسے کیسے ناگزیروں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں اور ان کی قبریں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ یہ غفلتوں کے مارے اسی مغالطے میں رہے کہ اگر ہم نہ رہے تو کچھ بھی نہ رہے گا۔ یہ سب کچھ انہی کے دم قدم سے ہے۔ یہ سبھی اپنی طاقت اور اقتدار کے نشے میں اس قدر مست تھے کہ انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ کب ان کا اقتدار ان کے گلے کا طوق بنا اور ان کی طاقت ان کی کمزوری بنتی چلی گئی۔ اپنے ہی عوام پر فاتح بن کر حکمرانی کرنے والے شاہ ایران ہوں یا صدام حسین اور قذافی سمیت نجانے کتنے ہی زمینی خداؤں سے کہاں کم تھے۔ لیکن آج ان کا نام لینے والا کوئی نہیں۔
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
کیسا کیسا حکمران نجات دہندہ بن کر آیا۔ اس نے جس سنہرے دور کی نوید دی وہ سنہرا دور ہر دور میں چمکیلا اندھیر ثابت ہوا اور وہ سب مزید اندھیرے گڑھوں میں عوام کو دھکیل کر اپنی اپنی باریاں لگاتے رہے۔ یہ آنیاں جانیاں آج بھی اسی طرح جاری ہیں جیسے ماضی کے ادوار میں عوام جھیلتے رہے ہیں۔ آج بھی وطنِ عزیز کے طول و عرض میں کہیں تماشے کا سماں ہے تو کہیں سرکس کا۔ کہیں کمرتوڑ مہنگائی تمام حدوں کو توڑتی ہوئی عوام کی قوتِ خرید کو ریزہ ریزہ کرچکی ہے۔ قیمتوں کو لگی آگ نے روپے کی قدر کو بھسم کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے اعصاب اور نفسیات کو تباہ و برباد کرڈالا ہے۔ مہنگائی کے جن کی دھمال نے اچھے اچھوں کو ہلکان اور بدحال کرڈالا ہے۔ عوام کی ناقابلِ بیان حالت کا ماتم کرنا شروع کروں تو سارا کالم سینہ کوبی اور آہ و بکا کرتے پورا ہوجائے تاہم حکومت کی اپنی توجیہات‘ عذر اور ایسے ایسے جواز ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ حکمرانوں کے دماغوں میں یہ خیالات عالیہ آتے کہاں سے ہیں۔ پھر خود کو سمجھانا اور تسلی دینا پڑتی ہے کہ کوئے اقتدار میں عالم پناہ کوئی بھی ہو سبھی کے سوچ کے زاویے کم و بیش ایسے ہی ہوتے ہیں۔ برسر اقتدار آنے سے پہلے بے پناہ چاہنے والے عوام ان کی رعایا بن کر انہی سے پناہ مانگتے پھرتے ہیں۔
ماضی کے سبھی ادوار سے جاری یہ مجہول سیاست اور پولیو زدہ طرزِ حکمرانی جوں کی توں جاری ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کردار اور چہروں کے سوا نہ کچھ بدلا ہے اور ہی کچھ بدلتا نظرآرہا ہے۔ اکثر چہرے تو وہی ہیں جو ہر دور میں پارٹی اور وفاداری کی تبدیلی کے ساتھ ہر بار عوام کو کھلا دھوکا دیتے ہیں۔ یہ سبھی بوئے سلطانی سے مجبور اور نظریات سے عاری ہی پائے گئے ہیں۔ عوام کی سادگی کا ماتم کیا جائے یا ان کے نصیب کا‘ جو ہر بار انہیں مینڈیٹ دے کر مقدر کا سکندر تو بنا دیتے ہیں‘ لیکن اپنے مقدر کو ووٹ کی سیاہی مل کرخود ہی سیاہ کرلیتے ہیں۔ سیاہ بختی اور بدنصیبی کا یہ دور یونہی چلتا رہے گا؟
ماضی کے چشم کشا حالات اور انجام سے نہ کسی سابق حکمران نے کچھ سیکھا اور نہ ہی موجودہ حکمران کچھ سیکھنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ اس حقیقت سے بے خبر کہ ہر چیز فانی اور ختم ہوجانے والی ہے۔ تخلیقِ حضرتِ انسان سے لے کر عروج و زوال تک کچھ بھی حتمی اور مستقل نہیں۔ سب عارضی اور فانی ہیں۔ پیدائش سے موت کا سفر ہی اختتام کی ابتدا ہے‘ یعنی Beginning of the End۔ کائنات میں ہر عمل اسی کے گرد گھومتا ہے۔ اقتدار کے مزے لوٹنے والے ہوں یا اختیارات سمیت بے پناہ نعمتوں کے حامل‘ کیا وہ نہیں جانتے کہ سبھی کچھ نقطۂ آغاز سے ہی اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہوجاتا ہے‘ یعنی پیدائش پر پہلا سانس لینے والے بچے کا دوسرا اور تیسرا سانس اس کی موت کے سفر کا سنگ میل ہوتا ہے۔ اقتدار ہو یا اختیار‘ شروع ہوتے ہی اختتام کی طرف دوڑا چلا جاتا ہے۔ اس کو مستقل اور دائمی سمجھنے والے اسی طرح سر پیٹتے رہ جاتے ہیں جیسے ہمارے ماضی کے حکمران آج مکافاتِ عمل کی چلتی پھرتی تصویریں بن کر دورِ حاضر کے حکمرانوں کے لیے عبرت اور نصیحت کی واضح مثال ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کا تین سال کا عرصہ جیسے تیسے گزر چکا ہے۔ گزرا ہوا یہ عرصہ اقتدار کے اختتام کا سنگ میل ہے‘ یعنی اقتدار کا پہلا دن ہی Beginning of the End تھا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی اس مٹی سے غداری کی‘ جس نے بھی وطنِ عزیز کے عوام کے خون کو پانی سے بھی ارزاں جانا نہ وہ رہا اور نہ ہی اُس کا اقتدار۔ ماضی بعیدکی طرزِ حکمرانی اور محلاتی سازشوں کو دہرانے کیلئے ایسے کئی کالم بھی ناکافی ہوں گے تاہم حالیہ چند دہائیوں کے جائزہ پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ مُکّے لہرا لہرا کر بات کرنے والے مطلق العنان ہوں یا مفاہمت کے بادشاہ کون کہاں کس حال میں ہے‘ یہ سب جانتے ہیں۔ ملکی وسائل کو بھنبھوڑنے والے ہوں یا انہیں باپ دادا کی جاگیر سمجھنے والے۔ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو ہر کام آہنی ہاتھ سے کرتے ہیں اور اقتدار سے محروم ہوتے ہی ہاتھوں پہ رعشہ طاری ہونے کے ساتھ ساتھ ٹانگیں بھی کپکپانے لگتی ہیں۔ پیشیوں اور عدالتوں میں نہ آنے کے کیسے کیسے عذر اور جواز گھڑے جاتے ہیں تاہم جلسوں جلوسوں میں اور پریس کانفرنسز کرتے ہوئے مکے بھی لہراتے ہیں اور گلے بھی پھاڑتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے نہ کسی کی حالت غیر ہوتی ہے نہ کوئی بیماری حملہ آور ہوتی ہے۔ یہ روپ بہروپ کا کھیل ہماری سیاسی اشرافیہ کا محبوب مشغلہ ہے۔
ماضی کے سبھی ادوار کے ماتم کے ساتھ ساتھ دورِ حاضر کا ماتم بھی عوام کے لیے کسی مرگِ نو سے کم نہیں۔ ہر دور میں لٹتے‘ مرتے اور مٹتے عوام آج بھی انہی حالات اور اسی طرزِ حکمرانی کا شکار ہیں جس کے نتیجے میں ان کی حالت بد سے بدتر ہوتے ہوتے نجانے کیا سے کیا ہو چکی ہے۔ اس حالتِ زار کو بیان کرنے کے لیے نہ صرف الفاظ کے قحط کا سامنا ہے بلکہ اکثر الفاظ تو ہاتھ جوڑے معذرت کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ ان حالات کی ترجمانی سے قاصر ہیں۔ 126 دن اسلام آباد میں سسٹم کو لاک ڈائون کرنے والے ہر احتجاج اور دھرنے کو غیر آئینی اور بلاجواز قرار دیتے ہیں۔ سرکاری افسران کو عبرت کا نشان بنانے کی دھمکیوں سے لے کر یوٹیلٹی بلز جلا کر سول نافرمانی کی کال دینے والے آج بجلی کے بلوں کے ان جھٹکوں سے آنکھیں چرا رہے ہیں عوام جن کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ریکارڈ پر موجودوہ بیان بھی فراموش ہو چکا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتو سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی چور ہے۔ آج پٹرول کی قیمتوں کو لگی آگ سبھی کچھ تو خاکستر کیے چلی جارہی ہے۔ ہر دور میں روز جیتے روز مرتے عوام کے لیے یہ مرگِ نو نیا نہیں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں