"AAC" (space) message & send to 7575

چلتا پھرتاعکس

تقسیمِ ہند اور قیام پاکستان کے وقت خاک اور خون کی جو داستانیں لکھی گئیں‘ وہ بہت پُرانی بات نہیں‘ لیکن یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ہمارے حکمران ان کو جیسے بھول چکے ہیں۔ نام نہاد سماج سیوک نیتا اپنا شوقِ حکمرانی پورا کرنے کے لیے خاک اور خون کی ان دردناک داستانوں اور اندوہناک واقعات کو اتنی آسانی سے فراموش کر دیں گے اور بے حسی کا پہاڑ بنتے چلے جائیں گے‘ اس کا کبھی کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ جیسے قومی سانحہ کو محض ایک واقعہ قرار دے کر تاریخ کے اوراق میں دفن کردیں گے‘ ایسا تصور کرنا بھی ممکن نہ تھا۔ یہ ملک کیسے کیسوں کے ہتھے چڑھتا چلا جائے گا‘ بانیٔ پاکستان نے ایسا کبھی سوچا بھی نہ ہو گا۔ دنوں‘ مہینوں‘ سالوں سے لے کر کئی کئی دہائیاں ان حکمرانوں کی بوئے سلطانی کی نذر ہوتی چلی جائیں گی جنہیں قومی وقار سے لے کر قوم کی حالتِ زار تک کسی کی کوئی پروا ہے نہ احساس‘ ایسا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کہیں نظریہ پاکستان کے نام پر چورن بیچ کر نظریات اور عمل سے عاری دکانیں سجائی ہوئی ہیں تو کہیں کسی اور نام سے۔ کہیں بابائے قوم کی تصویر آویزاں کر کے ان کی تعلیمات اور فرمودات سمیت نجانے کس کس چیز کی دھول اڑائی جا رہی ہے اور کہیں کسی اور عنوان سے۔ دین اسلام سے لے کر سیرت النبیﷺ تک‘ قائد اعظم کے خطبات سے لے کر تعلیمات تک‘ سبھی کچھ تو مکمل اور روز روشن کی طرح عیاں اور دستیاب ہے۔ ان پر تحقیق کی دکان کھولنے کے بجائے صرف تقلید اور عمل پر زور دیا جاتا تو شاید حالات اتنے مایوس کن اور عوام کی حالت اتنی ناقابلِ بیاں نہ ہوتی۔ یہ کس مقام پر وطن عزیز کو لا کھڑا کیا ہے کہ ایک خدا‘ ایک رسولﷺ اور ایک قرآن کو ماننے والے ایک دوسرے کو ماننے اور تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ بغض، کینہ، منافرت کی آندھی ملک کے کونے کونے میں ایسے چل پڑی ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ عدم برداشت اور منتقم مزاجی کے کلچر نے تحمل، رواداری اور بردباری سے لے کر سماجی اور اخلاقی قدروں تک نجانے کیا کچھ کرچی کرچی کر دیا ہے۔ سیاسی اختلافات ذاتی دشمنیوں میں تبدیل ہو کر سیاست کو انتقام اور عناد سے آلودہ کر چکے ہیں۔ مباحثہ اور مذاکرہ خواب و خیال بن کر رہ گیا ہے۔ اختلافِ رائے ذاتی مخالفت اور دشمنی سے ہوتی ہوئی قتل و غارت تک جا پہنچی ہے۔ نہ مرنے والے کو معلوم ہے کہ وہ کس جرم کی پاداش میں مارا جا رہا ہے اور نہ ہی مارنے والے کو پتہ ہے کہ کس کو اور کیوں مار رہا ہے۔ مارنے والا بھی اسی مذہب کا اور مرنے والا بھی۔ جب حالات اس نہج تک پہنچ جائیں تو ہاتھ خود بخود دعا کے لیے اٹھ جاتے ہیں اور دل سے عافیت‘ امن اور خوشحالی کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں کہ وہی ہے ہماری التجائوں کو سننے والا اور ہم پر رحم و کرم کی بارش کرنے والا جو سب کا پروردگار ہے۔ آئیے میرے ساتھ آپ بھی ہاتھ اٹھائیے ۔ آئیے ہم سب مل کر دعا کرتے ہیں:
اے رب کعبہ!
تجھے اپنی کریمی کا واسطہ
تجھے شاہ مدینہ کا واسطہ
تجھے اپنی ان تمام صفات کا واسطہ
جو تمام جہانوں کا احاطہ کیے ہوئے ہیں
اس خطے کی خاک سے خون کی بو ختم کردے
غیظ و غضب کو تحمل و برداشت سے ٹھنڈا کردے
ایک خدا ‘ایک رسولﷺ کے ماننے والوں کو ایک کردے
بٹے ہوئوں کو اکٹھا کردے، ان دیکھی موت کو موت دے دے
ایک دوسرے سے دست وگریباں کو بغل گیر کر دے
کرموں جلے بدنصیب عوام کی سیاہ بختی کو خوش بختی میں بدل دے
اے رب کائنات!
عادل بھی تو ہے
اور بلاتاخیر عدل بھی تو تجھ سے ہی منسوب ہے
تیری اس صفت کا اطلاق وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے
احتساب تو سزا اور جزا کے عمل کا نام ہے
اس عمل کو بھی انہوں نے آلودہ کرڈالا ہے
اپنی نیتوں سے‘ اپنے ارادوں سے
صاف نظر آتا ہے۔
یہ کیا کرسکتے ہیں۔
عوام کو بدحالی کے ابھی کتنے گڑھوں میں گرنا ہے؟
ذلت‘ دھتکار اور پھٹکار کے کتنے دور ابھی باقی ہیں؟
میرے مالک!یہ تو ہی بہتر جانتا ہے
ان کی نیت بد اور کاربد کہاں ختم ہوں گے...کب ختم ہوں گے؟
کیا عوام کو اس طرز ِحکمرانی
اس گلے سڑے اورفرسودہ نظام سے
کبھی نجات مل بھی پائے گی؟
کیا عوام کو ایسے حکمرانوں سے نجات مل سکے گی؟
ملک و قوم کو لوٹنے والے آج ضمانتوں پر نازاں ہیں
کیا یہ عوام بھی کبھی ضمانت حاصل کر پائیں گے؟
تیرے خزانے میں کیا کمی ہے؟
ماضی اور حال مستقبل کا آئینہ ہوتے ہیں‘ بد قسمتی سے ملک و قوم کا مستقبل ماضی اور حال سے مختلف نظر نہیں آ رہا۔ گویا وہی چال بے ڈھنگی‘ جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ پہلا قدم ہی دوسرے قدم کی منزل اور سمت کی نشان دہی کرتا ہے۔ ہمارا مستقبل کیا ہو سکتا ہے اس کا بخوبی اندازہ لگانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ ماضی کی خرابیاں کئی گنا اضافوں کے ساتھ بدستور جاری ہیں۔ حال کی بد حالی آنے والے وقت کا منہ چڑاتی ہے اور ہم ہیں کہ سدھرنے کا نام نہیں لے رہے۔ ماضی میں دھرنوں اور مظاہروں کو آواز خلق قرار دے کر ہلہ شیری دینے والے کو برسرِ اقتدار آ کر آج ریاست کی رٹ اور طاقت یاد آ رہی ہے کہ وفاقی دارالحکومت کی طرف رخ کرنے والوں کا راستہ کس طرح روکنا ہے۔ کہیں خندقیں کھودی جا رہی ہیں تو کہیں کنٹینر کھڑے کر کے رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔
126 دن وفاقی دارالحکومت کا ناطقہ بند رکھنے والے آج دارالحکومت کے داخلی اور خارجی راستوں پر حفاظتی بند باندھنے کے لیے کیسے کیسے اقدامات کر رہے ہیں۔ ان کے ارادوں سے لے کر نیتوں تک‘ معیشت سے لے کر گورننس اور میرٹ تک‘ سماجی انصاف سے لے کر قانون کی حکمرانی تک‘ تجاوزات سے لے کر احتساب تک‘ ملکی وقار سے لے کر غیرتِ قومی تک‘ ذاتی مفادات سے لے کر مذموم عزائم تک‘ مصلحتوں اور مجبوریوں سے لے کر بد انتظامیوں اور بد عنوانیوں تک‘ سبھی کچھ ملک و قوم کے مستقبل کا چلتا پھرتا عکس ہے۔ سبھی کے اپنے اپنے پاکستان ہیں کسی کا پرانا اور کسی کا نیا۔ ان سبھی نے مل کر قائد کا وہ پاکستان کہیں کھو دیا ہے جو اصل پاکستان ہے۔
یہی مقام ہے توقف کرنے اور سوچنے کا کہ ہم نے 74سال پہلے کس منزل کی جانب سفر شروع کیا تھا اور کدھر آ نکلے ہیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں