خدا جانے کوئی نحوست ہے یا کسی آسیب کا سایہ۔ روز اول سے عوام کی حالتِ زار اور ذلتِ جاریہ کے سبھی مناظر جوں کے توں ہیں۔ کوئی بھی کالم ان حالات کے ماتم کے بغیر ادھورا اور تشنگی کا شکار رہتا ہے۔ لاکھ فرار اختیار کروں کسی اور موضوع میں پناہ ڈھونڈ کر ڈپریشن اور ناسٹیلجیا کو کم کرنے کی کتنی بھی کوشش کر لوں‘ لیکن ہر دن گزشتہ روز کا ریکارڈ توڑتا اور عوام کی حالتِ زار کو مزید تار تار کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ موضوعات وہی ہیں لیکن ان کی سنگینی ضربیں کھاتی دکھائی دیتی ہے تو کہیں رنگینی ریکارڈ توڑ اضافوں کے ساتھ دن کا چین اور رات کی نیند برباد کیے دیتی ہے۔ یہ حالات کیسے کیسے دلچسپ اور پرکیف خیالات سے لے کر سبھی جذبوں اور احساسات کو نگلتے چلے جارہے ہیں۔ زندگی کے جھمیلوں سے گہماگہمی تک۔ تادیر چلنے والی بیٹھکوں سے لے کر قہقہوں اور مباحثوں سے بھری مجلسوں تک۔ محفلِ یاراں سے لے کر بزم ناز تک۔ سبھی کچھ تو بے ثباتی کی نذر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کہیں حالات پریشاں ہیں تو کہیں گردشِ ایام کا پہیہ رکنے کو تیار نہیں۔ کہیں زبوں حالی ہے تو کہیں بدحالی کا دور دورہ ہے۔ ضروریات وسائل کی چادر سے اس قدر دراز ہیں کہ کھینچ تان کر بھی جسم برہنہ ہی رہتا ہے۔
کہیں بھوک و افلاس کے ڈیرے ہیں تو کہیں بیماری مرض الموت بنتی چلی جارہی ہے۔ کہیں بدانتظامی بال کھولے سورہی ہے تو کہیں بدنیتی پائوں پسارے بیٹھی ہے۔ سماجی قدریں معاشی مجبوریوں کی بھینٹ چڑھتی جارہی ہیں۔ طرزِ حکمرانی اور مسلسل من مانی حالات کو مزید مایوس کن بنائے چلے جا رہی ہے۔ اداسی اور بددلی نے ماحول کو سوگوار بنا ڈالا ہے کہ اس پریشاں حالی اور بڑھتی ہوئی بدحالی کا جیسے کوئی انت ہی نہ ہو۔ انجانے وسوسوں اور نامعلوم خوف نے کچھ اس طرح عدم تحفظ سے دوچار کرڈالا ہے کہ کوئی خوشی خوشی نہ لگے۔ غم برا نہ لگے۔ پکانے کا تیل ہو یا چینی اور آٹا‘ دال اور مسالے ہوں یا پھل اور ترکاری‘ سبھی کچھ عوام کی قوتِ خرید کو شکست دے کر اقتصادی پالیسیوں اور معاشی استحکام کا ماتم کررہا ہے۔
وزیراعظم کبھی آٹا مافیا کو للکارتے ہیں تو کبھی چینی مافیا کے خلاف برسر پیکار نظر آتے ہیں۔ چیف سیکرٹری سے لے کر اسسٹنٹ کمشنر اور پٹواریوں تک سبھی کو چینی کا سٹاک مارکیٹ تک پہنچانے کے لیے ٹاسک دے دیا گیا ہے۔ یہ ٹاسک حکومت کی انتظامی اور سیاسی ٹیم کی قابلیت اور اہلیت سے کہیں قدآور ہے۔ اس کے قد تک پہنچنا تو درکنار یہ سبھی اس کی دھول کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ پٹرول کی چھترول ہو یا آٹا گردی کا سامنا‘ چینی کی قیمتوں کا زہر ہو یا دیگر اشیائے ضروریہ میں لگی ہوئی آگ‘ یہ دہکتا ہوا الائو بنتا چلا جارہا ہے۔ اچھے اچھوں کے چھکے چھڑا ڈالے ہیں۔ پچاس سال پرانے ایک قومی اخبار میں صدر ذوالفقار علی بھٹو کا انتباہ مین سرخی بن کر شائع ہوا تھا کہ چینی چوروں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ نصف صدی گزرنے کے بعد بھی ان حکمرانوں نے آٹے‘ چینی‘ تیل اور دال کے چکر میں ایسا الجھایا ہوا ہے کہ عوام گھن چکر بن چکے ہیں۔
غضب خدا کا‘ مہنگائی کے خلاف میدانِ عمل میں اترنے والی ٹیم سیاسی ہو یا انتظامی ان میں سے اکثریت کو عوام کے مسائل اور زمینی حقائق کے ساتھ ساتھ آٹے دال کا بھائو تک نہیں معلوم۔ یہ خاک عوام کی زندگیاں آسان کریں گے۔ کیا مشیرکیا وزیر‘ جس دور میں سبھی کے درمیان مقابلے کا سماں دکھائی دیتا ہو‘ مالی کرپشن سے لے کر انتظامی کرپشن تک‘ کسی نے بھائیوں کو فرنٹ مین بنا رکھا ہے تو کسی نے حواریوں کو‘ کوئی سروسز دے کر اپنا حصہ وصول کر رہا ہے تو کوئی سرپرستی کرکے۔ ایسی ایسی وارداتیں اور داستانیں زبانِ زد عام ہیں کہ نہ دیکھیں نہ سنیں۔ سرکاری بابوئوں کے لیے تو کوئی بھی بحران کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ کوئی حادثہ ہو‘ سانحہ‘ کسی وبا کا زمانہ ہو یا بلا کا‘ سیاسی ایشو ہو یا انتظامی۔ حالات کو الجھانے سے لے کر بگاڑنے تک‘ خوردبرد سے لے کر بندر بانٹ تک‘ ہاتھ کی صفائی سے لے کر لمبا مال بنانے تک‘ یہ ہر دور میں ہرفن مولا ثابت ہوئے ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ سرکارکی انتظامی مشینری چینی کے بحران پرکس طرح قابوپاتی ہے اور ذخیروں اور گوداموں سے چینی کیسے اوپن مارکیٹ میں پہنچتی اور کس بھائو بکتی ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے برملا کہتے ہیں کہ جو انتظامی مشینری سابقہ ادوار میں بہترین کارکردگی کے چوکے چھکے لگایا کرتی تھی وہ موجودہ دور میں قسم کھائے بیٹھی ہے کہ نہ خود کام کرنا ہے اور نہ کسی کام کرنے والے کو ٹکنے دینا ہے۔ جو انتظامی مشینری سال کے وسط میں شہباز شریف کے خوف سے ڈینگی لاروا تلف کرنے کے وسیع پیمانے پر اقدامات کیا کرتی تھی‘ تین سال سے غفلت کی نیند سورہی ہے۔ جون جولائی میں لاروے کی افزائش کروا کر اب ڈینگی مچھر کے پیچھے تالیاں بجاتے پھر رہے ہیں۔ پانچ ماہ پہلے اگر ہوش کے ناخن لیے ہوتے تو آج ڈینگی مچھر اس طرح تباہی نہ پھیلاتا۔ ہر تیسرا گھر ڈینگی کا شکار اورسرکاری ہسپتال عوام کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر نہ دکھائی دیتے۔
سرکاری ہسپتالوں میں علاج سے انکار معمول بنتا جارہا ہے۔ عوام مجبوراً پرائیویٹ ہسپتالوں میں اپنی بساط سے کہیں زیادہ مہنگا علاج کروانے پر مجبور ہیں۔ موقع پرست مسیحا بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھو رہے ہیں۔ کوئی جئے یا مرے ان کی بلا سے۔ انہوں نے تو بس سیزن کمانا ہے۔ جو قوم کورونا جیسی قیامت خیز وبا میں مال بنانے سے باز نہ آئی وہ چینی پر کیسے سمجھوتہ کرلے گی؟ اکثر محسوس ہوتا ہے کہ وطنِ عزیز کی سیاسی اشرافیہ ہو یا انتظامی‘ کارخانے دار ہوں یا آڑھتی‘ دکاندار ہوں یا ریڑھی بان‘ سبھی کے درمیان مقابلے کا سماں ہے کہ کون کتنا بڑا موقع پرست اور حرام حلال سے بے نیاز کتنا مال بناتا ہے۔ اس کانٹے دار مقابلے میں کہیں گورننس شرمسار ہے تو کہیں میرٹ تار تار۔ کہیں اخلاقی اور سماجی قدریں لیر و لیر ہیں تو کہیں قانون اور ضابطے پامال ہیں۔
سیاسی سرکس میں کھڑکی توڑ رش کی تیاریاں جاری ہیں بلکہ اس بار تو مشترکہ جدوجہد پر متفق ہو کر شہباز شریف اور بلاول نے ان ہائوس اور سڑکوں پر احتجاج کا اعلان بھی کرڈالا ہے۔ جس طرح چینی کا بحران پچاس سال سے عوام کا نصیب بنا ہوا ہے اسی طرح یہ احتجاجی تحریکیں بھی راج نیتی میں نئی نہیں ہیں۔ روزِ اول سے لمحۂ موجود تک محلاتی سازشیں ہوں یا غلام گردشیں‘ احتجاجی تحریکیں ہوں یا سیاسی جدوجہد سبھی کا ہدف حصولِ اقتدار رہا ہے مگر عوام اور عوام کے مسائل کے نام پر تحریکیں چلانے والے اہداف کے حصول کے بعد ایجنڈے اور منشور فراموش کردیتے ہیں۔ تحریکِ نجات ہو یا لانگ مارچ‘ میثاقِ جمہوریت ہو یا طویل ترین دھرنے۔ یہ سبھی تماشے عوام کے درد میں لگائے گئے لیکن سبھی نے برسراقتدار آنے کے بعد کس بے دردی سے عوام کی امیدوں اور آسوں کا نہ صرف گلا گھونٹا بلکہ یہ ثابت کیا کہ انہیں نہ عوام کا کوئی احساس ہے نہ عوام کے مسائل سے کوئی سروکار۔ عوام ان سماج سیوک نیتائوں کی طرزِ حکمرانی کی تاب لانے کے قابل نہیں رہے۔ روزِ اول سے لمحہ موجود تک حکمرانوں کے مائنڈسیٹ سے لے کر ان کی طرزِ حکمرانی کے نتیجے میں ملک و قوم کے ساتھ ہونے والے سبھی کھلواڑوں تک کس کس کا رونا روئیں۔ کتنی نسلیں اچھے دنوں کی آس میں قبروں کی خاک میں خاک ہوچکی ہیں‘ لیکن بدنصیبی اور سیاہ بختی کا یہ دور ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ پون صدی کے بعد بھی وہی مائنڈ سیٹ‘ وہی طرزِ حکمرانی‘ وہی حالات۔ وہی حالات کی گرانی۔ پھر بھی دل ہے پاکستانی۔ ایسے ماحول اورحالات میں پاکستانیت دور دور تک نظر نہیں آتی۔ وہی چہرے وہی بیانیے۔ وہی مائنڈسیٹ وہی طرزِ حکمرانی۔ بس من مانی ہی من مانی۔