"AAC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم کا پورا سچ

کوئی میدان لگنے جارہا ہے یا نئی بساط بچھائی جا رہی ہے؟سیاسی سگنل نجانے کیسے کیسے اشارے اور استعارے دے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا ملتوی ہونا ‘شراکت کی ہانڈی پریشر ککر بننے کا استعارہ ہے بلکہ دور کی کوڑی لانے والے تو اسے توڑی کی پنڈ میں سوراخ قرار دے رہے ہیں اور آنے والے وقت میں توڑی کی یہ پنڈ باقاعدہ کھلتی نظر آتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ ادھر یہ پنڈ کھلے اور اُدھر سیاسی آندھی بگولا بن کر نہ صرف منظرنامہ گھما دے بلکہ توڑی کا تنکا تنکا بھی ہوا کے دوش پر اڑتا دکھائی دے۔چوہدری برادران کی نمائندگی کرتے ہوئے وفاقی وزیر مونس الٰہی نے اپنے بڑوں کا پیغام وزیراعظم کو پہنچا دیا ہے کہ وہ ان دیکھی کسی ڈیوائس یا مشین کے حق میں فیصلہ نہیں دے سکتے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا حکومتی ایجنڈا نہ صرف کھٹائی میں پڑ چکا ہے بلکہ اس مشین کی تشہیر اور افادیت کے حوالے سے سبھی حکومتی توجیہات اور کوششوں کے دانت بھی کھٹے ہوچکے ہیں۔
سپریم کورٹ میں پیشی کے دوران اٹھائے گئے فکرانگیز سوالات پر وزیر اعظم نے روایتی یقین دہانیاں تو کروا دی ہیں لیکن ہماری سیاسی تاریخ میں حکومتی سربراہ کی عدالتوں میں پیشی اور جواب طلبی کبھی اچھا شگون ثابت نہیں ہوئی۔ ماضی قریب میں سید یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف ‘ وزیراعظم کی حیثیت سے طلب کیے گئے اور پھر نااہلی اور سزائوں کے ساتھ کوئے اقتدار سے رخصت ہونا پڑا ‘ اس تناظر میں وزیراعظم عمران خان کی عدالت عظمیٰ میں طلبی اور کڑے سوالات‘ کڑے حالات کا اشارہ بھی ہوسکتے ہیں ۔2018ء کے عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف کو جوعزت اور مقام قدرت نے عطا کیا اسے نہ تو سنبھالا گیا اور نہ ہی قدرت کی اس عطا کی کوئی قدر کی گئی۔ اس بے مثال عطا کوحکومت اپنی ہی کوئی عطا سمجھ کر اس قدر نازاں اور سرشار تھی کہ پتہ ہی نہ چلا کہ اقتدار کی مٹھی سے مہلت کی ریت کس تیزی سے سرک رہی ہے اور اب یہ عالم ہے کہ مہلت کی کرنسی کے سبھی بڑے نوٹ فضول خرچی میں اڑا ڈالے‘ اب چند چھوٹے نوٹوں اور ریزگاری کے ساتھ اقتدار کی بقیہ مدت پوری کرنے کے سفر پر رواں دواں ہیں۔
حکومت کو ایک کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اقتدار کی اس مدت میں سیاسی اور انتظامی ٹیموں میں جو پے در پے تبدیلیاں اس مختصر دورانیے میں کی گئیںماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔اقتدار میں ابتدائی ایام میں گڈ گورننس کا ایسا ڈھول بجایا گیا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔میرٹ اور گورننس کو جن حکومتی فیصلوں کا سامنا کرنا پڑا ان کے نتیجے میں گورننس شرمسار اور میرٹ تارتار ہے۔گڈ گورننس اور بیڈ گورننس کی بحث سے معاملہ اس قدردور جانکلا ہے کہ نہ کہیں گڈگورننس ہے اور نہ ہی بیڈ گورننس ‘ہر طرف نو گورننس کا دور دورہ ہے۔ جن بیانیوں کو فخریہ انداز میں تواتر سے پیش کیا کرتے تھے اب انہی کے برعکس طرزِ عمل کی کیسی کیسی توجیہات اور جواز پیش کرتے نہ کوئی جھجک محسوس کرتے ہیں نہ ہی شرمندگی کا شائبہ نظر آتا ہے۔
جہاں کارخانے لگانے تھے وہاں لنگر خانے بنا کر اپنے دعووں اور وعدوں سے انحراف جاری ہے۔دہشتگردی کی فہرست میں شامل تنظیموں سے ہمدردی اور مفاہمت کے راستے نکالے جارہے ہیں۔ کاش کوئی ہمدردی‘ کوئی مفاہمت ‘کوئی احساس ان عوام کا بھی کیا جاتا جو ان کے دلفریب وعدوں اور شعلہ بیانیوں سے متاثر ہوکر مینڈیٹ دے بیٹھے ۔تحریک لبیک کے سعد رضوی اور ان کے 487 کارکنوں کے نام فورتھ شیڈول سے خارج کے ان کے شناختی کارڈ اور بینک اکائونٹ بحال کردیے گئے ہیں۔ یہ سارے مراحل انتہائی دلجمعی سے ریکارڈ مدت میں طے کیے گئے ہیں۔کاش عوام کو بھی انسانیت کے مرتبے پر بحال کردیا جاتا اور وہ سبھی حقوق اور سہولیات انہیں بھی میسر آسکتیں جو بحیثیت انسان ان کا بنیادی حق ہے‘مملکت خداداد کے شہری ہونے کے ناتے جن حقوق سے عوام کو آج تک محروم رکھا گیا ہے۔ ان حقوق کی بحالی کے لیے کہیں کوئی مذاکرات کی میز سجائی جاتی‘کوئی حکومتی وفد ان لاچار اور بے کس عوام کی خبر گیری کے لیے ایوانِ اقتدار سے نکلتا‘کوئی انہیں بھی منانے آتا جو اپنے سماج سیوک نیتائوں کو ایوانوں میں بھیجنے کے بعد ان سبھی کی رسائی کو ترس گئے ہیں۔کوئی حکومتی کمیٹی یہ اعداد و شمار بھی اکٹھے کرتی کہ مملکت خداداد میں بسنے والوں کی کتنی بڑی تعداد دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے لیے کیسے کیسے جتن کرتی ہے۔کوئی یہ خبر بھی نکال لاتا کہ پٹرول اور بجلی کی ناقابلِ برداشت قیمتوں سے ازخود بڑھنے والی مہنگائی نے عوام کو زندہ درگور کرڈالا ہے۔کتنے ہی گھرانے ایسے ہیں جو یوٹیلٹی بل دینے کے لیے اپنے بچوں کا پیٹ کاٹتے ہیں تو کہیں بل کی ادائیگی کو علاج معالجے پر فوقیت دیتے ہیں۔ لمحہ لمحہ مرنے اور لمحہ لمحہ جینے والی کتنی ہی نسلیں ان حکمرانوں کے دھوکوں اورجھانسوں کی نذر ہوچکی ہیں۔
وزیراعلیٰ عثمان بزدار دورہ سعودی عرب کے دوران کبھی بخار کی ادویات کی قلت کا نوٹس لیتے رہے تو کبھی ڈینگی مچھر کی پھیلائی ہوئی تباہ کاریوں پر اپنے غصے کا اظہار کرتے رہے۔بیرونِ ملک بیٹھ کر عوام کے لیے یہ دکھاوے کا درداور بے معنی خبر گیری کس کام کی ۔وزیراعلیٰ صاحب جب وطن عزیز میں تھے تو کیا تیر مار لیا تھا اور ایک مختصر دورے کے بعد اب وطن واپس پہنچ چکے ہیں تو امورِ حکومت میں کیا بڑی تبدیلی آ گئی ہے؟ایک مشورہ پیش خدمت ہے کہ عوام کی تکلیف پر زبانی بے چین ہونے کے بجائے کسی روز صوبے کے بڑے سرکاری ہسپتال کے مختلف شعبوں کا دورہ کریں تو شاید یہ واضح ہوسکے کہ عوام کی ذلتِ جاریہ کا سفر کس قدر زور و شور سے جاری ہے۔آئوٹ ڈور سے لے کران ڈور اور ہسپتال میں داخل مریضوں کی حالتِ زار کے سبھی مناظر یقینا کسی بھیانک انکشاف سے کم نہیں ہوں گے۔تشخیصی ٹیسٹوں کے لیے دربدر اور مارے مارے پھرنے والے اکثر مریض تشخیص سے پہلے ہی طرزِ حکمرانی کی اذیتوں کا سامنا کرتے کرتے اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔
کسی روز ان نامور مسیحائوں کا بھی پتہ کریں جو عہدے اور تنخواہیں تو سرکار سے لیتے ہیں اور سرکاری اوقات میں پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں۔صوبائی دارالحکومت میں ایک ہسپتال کے سربراہ دفتر اس لیے تاخیر سے آتے ہیں کہ انہیں اپنے پرائیویٹ مریضوں کے پاس حاضری دینا ہوتی ہے۔ ان مریضوں کے پاس حاضری نہیں دیں گے تو روز جیب کیسے بھرے گی؟ سرکاری ہسپتال میں تو نہ کسی مریض نے جیب بھرنی ہے نہ ہی پرائیویٹ پریکٹس چلنی ہے۔ پورے سچ پر مبنی وزیراعظم کا ایک بیان پیش خدمت ہے کہ ''ایک ایماندار ایس پی پورا ضلع ٹھیک کرسکتا ہے۔برائی وزیراعظم اور وزراء کے دروازے سے شروع ہوکر نیچے تک جاتی ہے‘‘ اس پورے سچ پروہ یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں۔ نجانے کس کیفیت میں انہوں نے یہ بیان جاری کر ڈالا۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ میرٹ تارتار ہونے سے لے کر گورننس شرمسار ہونے تک اکثراشارے اور استعارے کبھی وزیر اعظم ہائوس کے دروازے تک جاتے ہیں تو کہیں تختِ لاہور سے جا ملتے ہیں۔ اس پورے سچ کو جانے مانے اور من و عن تسلیم کیے بغیر کام نہیں چلے گا۔جس دن یہ پورا سچ بیانیوں سے نکل کر ارادوں اور نیتوں تک آپہنچا تو شاید ایک ایس پی نہ صرف پورا ضلع ٹھیک کردکھائے بلکہ برائی وزیراعظم اور وزراء کے دروازوں سے ہوتی ہوئی تخت لاہور تک بھی جاتی ہوئی نظر نہیں آئے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں