"AAC" (space) message & send to 7575

اقتدار کے بقیہ اووَر

سیاسی درجہ حرارت نقطۂ عروج کی طرف بڑھتا چلا جارہا ہے۔ شریکِ اقتدار کھلاڑیوں کے لیے انتہائی تشویش کا مقام ہے کہ اقتدار کے بقیہ اووَر دن بہ دن کم ہو رہے ہیں اور ان کی باری کے امکانات بھی معدوم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ چوہدری برادران نے ایک بار پھر حکومت پر واضح کردیا ہے کہ تعلق بس وہی نبھا رہے ہیں‘ حکومت ساتھ نہیں دے رہی۔ چوہدری پرویز الٰہی نے تو برملا کہہ دیا ہے کہ تحفظات دور نہ کئے گئے تو دیگر آپشنز پر بھی غور کیا جاسکتا ہے۔ چوہدری برادران کے یہ گلے شکوے نئے نہیں۔ کافی عرصہ سے وہ طرزِ حکمرانی اور حکومتی رویے پر احتجاج ریکارڈ کرواتے چلے آرہے ہیں۔ چوہدری برادران کا گلہ اور شکوہ اپنی جگہ‘ یہاں تو حکومتی جماعت کے ارکانِ اسمبلی سے لے کر وزراء تک سبھی بے وقعتی اور عدم توجہی کا شکار ہیں۔ عوام کے ووٹ لے کر آنے والے سبھی حکومتی نمائندے اپنے حلقوں میں جانے سے گریزاں ہیں۔ نہ تو وعدے پورے ہوسکے نہ دعوے۔ ساری بڑھکیں ان شعلہ بیانیوں میں بھسم ہو کر رہ گئیں جو برسر اقتدار آنے سے پہلے کبھی کنٹینر پر تو کبھی دھرنوں میں کی جاتی رہیں۔
اپنے ہی ارکان اسمبلی اور وزراء کو جن حالات سے دوچار کر ڈالا گیا ہے اس تناظر میں شریک اقتدار حلیف جماعتوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی تلخیاں اور اختلافات کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ کچھ عرصہ قبل چوہدری شجاعت حسین نے وزیر اعظم کو ایک خط بھی ارسال کیا تھا‘ جس میں انہوں نے ان کی توجہ اپنی پالیسیوں اور طرزِ حکمرانی پر نظرثانی کی طرف دلائی تھی۔ اس وقت بھی چوہدری پرویز الٰہی نے چوہدری شجاعت کو مشورہ دیا تھا کہ خط کا جواب آنے تک چند خطوط اور لکھ رکھیںکیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وزیر اعظم کیا لکھیں گے جواب میں۔ ویسے خط کا جواب نہ دینا بھی تو کھلا جواب ہی ہوتا ہے۔ مونس الٰہی کو وزیر بنانے کے لیے وزیر اعظم ٹال مٹول‘ حیلے بہانے اور تاخیری حربے اختیار کرتے رہے‘ بالآخر وہ جو ناخوب تھا بتدریج وہی خوب ہوا کے مصداق مونس الٰہی کو وفاقی وزیر بنانا پڑا۔
پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ افراد اور اقوام اپنی غلطیوں سے نہیں غلطیوں پر اصرار سے تباہ ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں روزِ اول سے حکمرانوں کا مائنڈ سیٹ ایک ہی ہے اور ان کی غلطیاں بھی کم و بیش یکساں ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ غلطیوں پر اصرار اور ضد میں سبھی ایک سے بڑھ کر ایک پائے گئے ہیں۔ روایت ہے کہ قسمت جب بندوں پر نامہربان ہوتی ہے تو نکمّے اور نااہل حکمران مسلط کر دیتی ہے‘ بخیلوں کو پیسہ دے دیتی ہے‘ پھر بے موسمی اور بے وقت بارشیں برستی ہیں۔ بے موسمی بارشیں‘ فصلوںکی تباہی اور ماضی کے سبھی حکمرانوں سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک گرانی‘ بد حالی‘ بے وفائی اور مہنگائی کی تباہی کے سوا عوام کوکچھ نہیں دے سکے۔ یا اللہ رحم۔ یا خدایا رحم۔ بد حالی سے لے کر بے برکتی تک یہ سب اگر تیری ناراضی اور خفگی کے چلتے پھرتے نمونے ہیں تو پھر کون سی اصلاحات‘ کون سے اقدامات‘ کیسی پالیسیاں اور کون سی گورننس؟ نواز شریف سے لے کر بے نظیر تک‘ پرویز مشرف سے لے کر شوکت عزیز تک‘ زرداری سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ سبھی ہمارے اعمالوں کا نتیجہ ہیں۔
قارئین! میں ایک بندہ ناچیز ہوں کوئی سکالر نہیں۔ اس موضوع پر مزید لمبی چوڑی بات کرنا مناسب نہیں کیونکہ بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی۔ حکمرانوں سے لے کر وطنِ عزیز کے عوام تک یہ دعوتِ عام ہے سبھی کے لیے اور اشارہ ہے صرف سمجھنے والوں کے لیے۔ مذکورہ المناک واقعات سمیت صبح شام کئی خبریں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں جن پر کُڑھنے اور ماتم کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ نا اُمیدی کے سائے اتنے لمبے اور بے یقینی کے گڑھے اتنے گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ ہر طرف مایوسیوں کے ڈیرے ہیں۔ کوئی حکمرانوں کے غیر مقبول اور نا موافق فیصلوں سے تو کوئی ان کے طرزِ حکمرانی سے پناہ کا طلب گار ہے‘ کوئی زندگی کی طلب میں علاج کے لیے مارا مارا پھر رہا ہے تو کوئی مہنگائی کے حملوں سے پناہ مانگ رہا ہے‘ کوئی اہلیت اور ٹیلنٹ کے باوجود بے روزگاری کے ہاتھوں یرغمال ہے تو کوئی انصاف کے لیے بھٹک رہا ہے‘ کوئی سماجی ناانصافی کا شکار ہے تو کوئی حق تلفی پر نالاں بیٹھا ہے۔ یہ سبھی پناہ کے طلب گار ہیں۔
لوگ تحریک انصاف سے بے تحاشا امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ یہ جماعت برسر اقتدار آئے گی تو سماجی انصاف اور میرٹ کا بول بالا ہوگا‘ گورننس مثالی ہوگی‘ صحت عامہ اور امن و امان سبھی کو ملے گا‘ تعلیم عام اور سب کے لیے ہوگی‘ روزگار کے دروازے کھلیں گے‘ احتساب بلا امتیاز ہوگا‘ لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ ان سبھی بیانیوں پر سر دھننے والے اب سر پیٹتے نظر آتے ہیں۔ جس سحر کی نوید سنائی گئی تھی وہ تو چمکیلا اندھیرا ثابت ہوا۔ نجانے کون سا آسیب ہے جو حکمرانوں سے ایسے فیصلے کروا دیتا ہے جس کے نتیجے میں بھلے کتنی ہی سبکی اور جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑے‘ وہ بہ آسانی اور ہنستے کھیلتے ایسے برداشت کر جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اپنی زبان سے ایسی ایسی خندق کھود ڈالتے ہیں کہ خود ہی اسی میں جا گرتے ہیں۔ بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس ملک کے حکمران نہیں اعلانات کے بادشاہ ہیں۔ ایسا ایسا بیان‘ ایسا ایسا بھاشن‘ ان کی تضاد بیانی اور قول و فعل سے دست و گریباں دکھائی دیتا ہے کہ کچھ نہ پوچھیں۔
مردم شناسی ایک ایسا ہنر اور صلاحیت ہے جو انسان کی سو خامیوں پر پردہ ڈال سکتی ہے۔ کسی حکمران میں اگر سو خوبیاں ہوں لیکن مردم شناسی نہ ہو تو ساری خوبیاں کس کام کی؟ کسی لیڈر یا حکمران کا اصل کام اہداف کے حصول کے لیے موزوں ترین شخص کا انتخاب ہے یعنی رائٹ مین فار رائٹ جاب کے تصور کو قائم رکھنا ہی کسی لیڈر کی کامیاب حکمتِ عملی ہوتی ہے‘ کیونکہ کوئی شخص‘ حکمران ہو یا لیڈر‘ سارے کام خود نہیں کر سکتا‘ ہر کام میں اس کی مہارت ممکن نہیں‘ اس کی اصل کامیابی اُس ٹیم کی تشکیل ہے جو اپنے لیڈر کے ویژن اور ایجنڈے کی عملی تصویر بن کر سامنے آ سکے۔
بد قسمتی سے ہمیں آج تک ایسا کوئی حکمران نصیب نہیں ہوا جو مردم شناسی کے ہنر سے آشنا ہو‘ ذاتی مفادات اور خواہشات کے گرد گھومتی پالیسیوں کی تشکیل اور تکمیل کے لیے انہیں ذاتی رفقا اور مصاحبین کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے ساتھ ذاتی مجبوریوں اور رفقا کو ملک و قوم پر کب تک مسلط کیا جا سکتا ہے؟ دعووں‘ وعدوں اور دلاسوں پر مبنی حکمرانی سے عوام کو کب تک بہلایا جا سکتا ہے؟ عوام کی تو خیر مجبوری ہے کہ ان کے پاس ہر دور میں اعتبار کرنے کے سوا چارہ ہی کیا ہوتا ہے؟ ناقص رہبروں کے پیچھے نامعلوم منزل کی طرف چلتے چلتے یہ قوم نہ صرف ہلکان ہو چکی ہے بلکہ اب ان حکمرانوں کی اصل حقیقت بھی جان چکی ہے۔ ملک و قوم کے غم میں گھلنے والے لیڈر اپنی مجبوریوں اور دوستیوں کے ہاتھوں اس حد تک بے بس ہو جاتے ہیں کہ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں رہتی کہ وہ بدعہدی اور بدترین حکمرانی کے ریکارڈ توڑنے کے ساتھ ساتھ عوام کی آس اور امید تک سب کچھ ہی چکنا چور کیے چلے جا رہے ہیں۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے یہ سبھی حصولِ اقتدارکے لیے اپنے قد سے بڑے دعوے اور وعدے تو کر لیتے ہیں لیکن نبھاتے نہ حلیفوں سے ہیں نہ عوام سے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں