مشینی یا غیر مشینی انتخابات کا معاملہ فائنل رائونڈ میں داخل ہوگیا ہے۔ حکومت پنجاب نے بلدیاتی انتخابات میں ووٹنگ مشین استعمال کرنے کا اعلان کردیا ہے جبکہ اس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) اپنے موقف پر قائم اور ڈیڈلاک برقراررکھے ہوئے ہے۔پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ انتخابات مشینی ہوں غیر مشینی‘نتائج عوام مخالف ہی نکلیں گے۔ من پسند اور موافق فیصلوں میں ہمارے سبھی حکمران عجلت اور بے صبری کا مظاہرہ کرتے چلے آئے ہیں۔دیارِ غیر میں بیٹھے پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے سے کم نہیں۔ اس بڑے فیصلے کے بعد بیرونِ ممالک بیٹھے پاکستانی اپنا حقِ رائے دہی تو استعمال کر ہی لیں گے لیکن اپنے حلقہ انتخاب سے دوراندرونِ ملک بیٹھے پاکستانی ہوں یا پولنگ کے اوقات ِ کار میں سفر کرنے والے‘ ہسپتالوں میں زیرِ علاج ووٹر ہوں یا کسی مجبوری یا عذر کے تحت پولنگ سٹیشن پر جانے سے قاصر پاکستانی‘ ان سبھی کو آن لائن ووٹ کاسٹ کرنے کی سہولت سے محروم کیوں رکھا جارہا ہے؟
ہمارے ہاں راج نیتی میں ادھورے سچ کے بعد ادھوری ٹیکنالوجی کا ٹرینڈ بھی بڑھتا چلا جارہا ہے۔اہداف کے حصول اور من چاہے نتائج کے لیے ادھورا سچ بول کر زمینی حقائق کو بھول بھلیوں میں الجھانے والے یہ سماج سیوک نیتا الیکٹرانک ووٹنگ مشین مفادِ عامہ کے تحت سیاسی منڈی میں نہیں لائے‘انہیں تو اپنے اہداف کے حصول کے لیے آسان اور موافق راستہ درکار ہوتا ہے۔وہ مشینی ہو غیر مشینی جبکہ اوور سیز پاکستانیوں کا ووٹ ان مشکل حالات میں کسی نعمت اور بونس سے ہرگز کم نہ ہو گا کیونکہ اندرونِ ملک عوام طرزِ حکمرانی سے نہ صرف غیر مطمئن ہیں بلکہ متنفر بھی ہوتے چلے جارہے ہیں جبکہ بیرونِ ملک بیٹھے پاکستانی طرزِ حکمرانی کے اثرات سے محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ ڈالر کی اڑان کے ساتھ روز بروز مزید خوشحال ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس تھیوری کا اظہارایک حکومتی چیمپئن بڑے فخریہ انداز میں کربھی چکے ہیں کہ ہماری اقصادی پالیسیوں کے نتیجے میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی غیر معمولی قدر سے غیر ملکی پاکستانی خوش اور خوشحال ہو رہے ہیں۔ اندرونِ ملک بسنے والے بھلے ہی زندہ درگور ہوتے چلے جائیں اس کی کسے پروا ہے۔ اس وقت حکومت کی اولین ترجیح بلدیاتی اور عام انتخابات ہیں۔ان انتخابات کے نتائج کو اپنے حق میں کس طرح سرنگوں اور تابع کرنا ہے اس کے لیے ذرائع مشینی ہوں یا غیر مشینی‘ انہیں تو بس نتائج سے غرض ہے۔حالیہ ایک ضمنی انتخاب میں نتائج کو حکومتی امیدوار کے حق میں کرنے کے لیے وہ سبھی روایتی ہتھکنڈے کھل کر استعمال کیے جاچکے ہیں۔مزے کی بات یہ کہ الیکشن کمیشن کی فنڈنگ کو الیکٹرانک طریقہ انتخاب سے مشروط کرنے کا بیانیہ بھی سامنے آچکا ہے۔
الیکشن کمیشن کو حکومت کی طاقت اور طرزِ حکمرانی کا احساس ضرور ہونا چاہیے۔کوئی زیادہ پرانی بات نہیں کہ حالیہ ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن کو اپنے عملے کو بازیاب کرانے کے لیے باقاعدہ دہائی دینا پڑی تھی۔ ایسے حالات میں اوورسیز پاکستانیوں کا ووٹ حکومت کے لیے آئندہ انتخابات میں مددگار اور سازگار ہوسکتا ہے جبکہ اندرونِ ملک پولنگ سٹیشن پہنچنے سے قاصر عوام کو حق رائے دہی سے محروم رکھنا دہرا معیار اور کھلا تضاد ہے؛تاہم حکومت کے چیمپئنز اس تھیوری پر قائم اور قائل ہیں کہ اپوزیشن غیر مشینی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی نہ صرف مہارت رکھتی ہے بلکہ من چاہے نتائج کے لیے بھی اپنا زور لگائے گی۔ حکومت نے پیش بندی کے طور پر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے اپوزیشن کے لیے ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ اوور سیز پاکستانیوں کے ووٹ کو لے کر وہ پہلے ہی پُر اعتماد اور انہیں اپنا ووٹ بینک سمجھتی ہے۔یہ ایک انتخابی حکمت عملی ہے جس کی بنیاد پر حکومت آئندہ انتخابات میں اپوزیشن کو مشکلات سے دوچار کرسکتی ہے جبکہ یہ تھیوری بھی اپنی جگہ اہم اور مضبوط حوالہ ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں موجودہ حکمران جماعت کو عوام نے غیر مشینی مینڈیٹ دیا تھا جسے سنبھالنے کی سبھی کوششوں کو تاحال ناکامی کا سامنا ہے۔حکومت شاید غیر مشینی مینڈیٹ سنبھالنے کے ہنر سے ناواقف ہے اسی لیے آئندہ انتخابات میں مشینی مینڈیٹ حاصل کرکے طرزِ حکمرانی کے مزید جوہر نئے ایڈیشن کے ساتھ عوام کو دکھانا چاہتی ہے۔
یوں لگتا ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ باقی تمام مسائل حل کرچکی ہے اب فقط ایک ہی مسئلہ حل طلب ہے۔ غیر مشینی ووٹنگ کے نتیجے میں عوامی مینڈیٹ کی جو درگت اب تک بنتی چلی آئی ہے وہ مشینی ووٹنگ کے بعد کئی اضافوں کے ساتھ جاری رہے گی اور الیکٹرانک ووٹنگ سے خدا جانے کون سا انقلاب آ نے والا ہے اور مینڈیٹ دینے والے عوام کو کون سی مالا پہنائی جائے گی۔ ووٹ غیر مشینی طریقے سے دیا گیا ہو یا مشینی ذرائع سے‘ اس کی بے حرمتی جوں کی توں رہے گی۔ نہ ووٹ کا احترام کل تھا اور نہ ہی آئندہ نظر آتا ہے۔ ووٹ دینے والے کو تو ہماری سیاسی اشرافیہ غلام ابنِ غلام سمجھتی ہے جس کا کام صرف مینڈیٹ دینا ہے۔ مینڈیٹ دینے کے بعد کوئی سر پیٹتا نظر آتا ہے تو کوئی خاک اڑاتا دکھائی دیتا ہے۔ ان نیتائوں کو تو بس ووٹ درکار ہے۔ووٹ دینے والا جائے بھاڑ میں‘ ان کی بلا سے۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر جاری مباحثے کا مفادِ عامہ سے دور دور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ اس مشین کے حق میں دلائل دینے والے ہوں یا اس میں تکنیکی نقائص کو بنیاد بنا کر اس کی مخالفت کرنے والے‘ کوئی بھی شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کے درد میں اپنے اپنے موقف پر نہیں ڈٹا ہوا‘ سبھی کا اپنا اپنا ہدف ہے کہ کس کو انتخابات میں کس طرح فائدہ ہو سکتا ہے۔ جسے جو طریقہ اپنے لیے موافق اور سود مند نظر آتا ہے وہ اس طریقے کے تحت انتخابات کروانے کے لیے بضد ہے۔ عوام الناس کو اس مباحثے کا حصہ بننے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ حکومت ہو یا اپوزیشن ووٹنگ مشین کا تنازع اپنے اپنے مفادات کا ٹکرائو ہے‘ اس میں عوام کا کوئی لینا دینا ہے اور نہ ہی عوام کو اس سے کوئی سروکار ہے۔ عوام خاطر جمع رکھیں انتخابات روایتی مینوئل طریقے سے ہوں یا جدید الیکٹرانک ذرائع سے‘ ووٹ کی درگت اور بے حرمتی کے سبھی مناظر جوں کے توں رہیں گے۔ ووٹنگ کے طریقہ کار کی تبدیلی نہ نیت بدل سکتی ہے نہ ہی ارادے۔ اُسی مائنڈ سیٹ‘ اُسی نیت اور انہی ارادوں کے تحت الیکشن کروائے جاتے رہیں گے اور نتائج کسی کے حق میں آئیں‘ نتیجہ عوام کے خلاف ہی آئے گا۔ اس لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو لے کر شادیانے بجانے والے ہوں یا خاک اڑانے والے‘ سبھی کو خبر ہونی چاہیے کہ شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کے لیے نیت اور ارادہ درکار ہوتا ہے۔ مشینی یا غیر مشینی کی بحث میں الجھا کر عوام کو مزید گھمانے کی کوشش کرنے والے پریشان اس لیے ہیں کہ اصل فیصلہ تو عوام کا ہوتا ہے۔ حکومت جس مینڈیٹ کے نتیجے میں آج برسر اقتدار ہے وہ کسی ووٹنگ مشین نے نہیں دیا۔ پریشانی کس بات کی‘ دل کیوں بیٹھا جا رہا ہے؟ آئندہ انتخابات کے لیے اگر کارکردگی اور تیاری کسی قابل ہے تو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی اس شدت سے ضد کیوں جاری ہے؟ اپنی کارکردگی اور طرزِ حکمرانی پراتنا ہی بھروسا ہے تو ووٹنگ مشینی ہو یا غیر مشینی‘ نتائج تو بہرحال کارکردگی کی بنیاد پر ہی آئیں گے۔