پون صدی کے اعمال مکافات ِعمل بن کر کہیں سر پر تو نہیں آن کھڑے ہوئے؟ بے یقینی کا غبار گہرا ہو چکا ہے جبکہ ہمارے کرتوتوں کا کالا دھواں مزید اندھیرے پھیلائے جا رہے ہیں۔ اندیشوں اور وسوسوں کی گہری کھائیاں سبھی کچھ نگلتی نظر آرہی ہیں۔ مایوسیوں کے سائے اس قدر لمبے ہو چلے ہیں کہ اچھے خاصے قد کاٹھ والے بھی بونے نظر آتے ہیں۔ طلب کی چادر رسد کے آگے اب رومال بھی نہیں رہی۔نیتوں کا کھوٹ ملک و قوم کا مقدر پہلے ہی کھوٹا کرچکا ہے۔سماجی انصاف اور قانون کی پاسداری نہ کل دکھائی دیتی تھی نہ آئندہ اس کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔آئین اور حلف سے انحراف تو ایسی روایت بن چکی ہے کہ ہر دور میں زمانہ حال کی نسبت گزرا ہوا وقت غنیمت نظر آتا ہے۔ آنے والے ہر حکمران پر ماضی کی بدترین طرز حکمرانی کے سبھی ریکارڈ ریکارڈ مدت میں توڑنے کی دھن سوار رہتی ہے۔ سیاسی اشرافیہ سے لے کر انتظامی اشرافیہ تک ‘عوام الناس سے لے کر ریاست کے دیگر ستونوں تک سبھی کے لیے کھلے اشارے دن بدن کھلتے ہی چلے جارہے ہیں۔
اقتصادی اصلاحات کے نام پر کیے جانے والے سبھی اقدامات کا نتیجہ بے تحاشا قرضے ‘ ناقابل برداشت سود کی ادائیگی ‘ ریاست کے معاملات چلانے کے لیے منافع بخش اداروں کی اونے پونے فروخت‘ مفاد عامہ کے منصوبوں سے مال بنانے کا رواج‘حکومتی وسائل پر کنبہ پروری اور بندہ پروری‘ چوربازاری سے لے کر ٹیکس چوری تک سبھی وارداتوں میں کامیاب اور نازاں ‘لوٹ مار کی آزادی سے لے کربندر بانٹ کے لائسنس تک‘تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات کو عام آدمی کی دسترس سے باہر کرنے سے لے کرتھانے‘ پٹوار خانے اور ہسپتال تک دھتکار اور پھٹکار تک‘بااثر کی اجارہ داری سے لے کردھونس اور دھاندلی تک‘اوزان اور پیمائش میں کھلے عام ڈنڈی مارنے سے لے کر دیدہ دلیری سے خوراک اور ادویات میں ملاوٹ تک‘دہرے معیار سے لے کرتوہین آدمیت اور ظلم و جبر تک‘اخلاقی قدروں کی پامالی سے لے کر خون کی ارزانی تک ‘عزت نفس سے لے کر غیرتِ قومی تک‘لمحہ لمحہ مرنے اور ریزہ ریزہ بکھرنے سے لے کر قطرہ قطرہ پگھلنے اور پل پل کڑھنے تک‘ چوراہوں سے لے کر شاہراہوں تک‘ گلی محلوں سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک‘کس کس کا رونا روئیں؟ روتے روتے پون صدی گزر چکی ہے‘ اب تو آنسو بھی نہ صرف خشک ہوچکے ہیں بلکہ شکلیں بھی رونے کی مستقل علامت نظر آتی ہیں۔
اس خطے میں بسنے والوں نے کیسا مقدر پایا ہے‘ ان کے نیتا انہی کے ووٹ اور مینڈیٹ سے ایوانوں میں جاکر انہی لوگوں کو دیوانہ تصور کر لیتے ہیں کہ وہ ان کے دلفریب وعدوں کے جھانسوں میں پھر آگئے۔مینڈیٹ دینے والوں کا تمسخر بھی اڑاتے ہیں اور کبھی سنہری مستقبل کے خواب دکھا کر تو کبھی شعلہ بیانیوں سے عوام کا خون گرما کر ان کے ووٹ ہتھیا کر اسمبلیوں میں آ بیٹھتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا ہو جو الیکشن جیت کر ایوان میں گیا ہو اور اس کی سماجی و مالی حیثیت کا گراف غیر فطری تیزی سے اوپر نہ گیا ہو۔ اس نے گاڑیاں تبدیل نہ کی ہوں‘ گھر تبدیل نہ کیا ہو‘ پہلے مکانوں میں اضافہ اور تزئین و آرائش نہ کی ہو‘ اس کے ذرائع آمدن کو ضربیں نہ لگی ہوں‘ اثاثوں نے انڈے بچے نہ دیے ہوں‘ بینک اکائونٹس کو پَر نہ لگے ہوں۔
مملکت خداداد کو کہاں لاکھڑا کیا گیا ہے؟ پاکستان آج روزمرہ کے معاملات چلانے کے لیے بھی بھاری سود پر قرضوں پہ قرضے اٹھا رہا ہے۔ معیشت حالت نزع میں ہے اور وینٹی لیٹر کا کنٹرول بھی انہی کے پاس ہے جو ہمیں اپنی شرائط پر قرضے دیتے ہیں اور ہمارے کھانے پینے سے لے کر دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں تک کا تعین بھی کرتے ہیں۔ اپنے قرضے کی رقم وصول کرنے کے لیے وہ کبھی کھانے کا تیل عوام کی دسترس سے باہر کردیتے ہیں تو کبھی پٹرول اور بجلی۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں تو روز ہی عوام کی قوتِ خرید کو پچھاڑ ڈالتی ہیں۔ جہاں روٹیوں کے لالے پڑے ہوں وہاں کیسی اقتصادی اصلاحات اور کون سی معیشت؟ جن دوست ممالک سے قرض لے کر جیسے تیسے ملک اور معاملات چلاتے رہے ہیں‘ وہ بھی اب گریزاں ہوتے چلے جارہے ہیں۔ قرضوںکی ادائیگیاں مصیبت کا پہاڑ بن چکی ہیں۔ ٹوپیاں گھماتے گھماتے ٹوپی ہی چھوٹی پڑ گئی ہے۔ نہ کوئی اعتبار کرنے پر تیار ہے اور نہ ہی کوئی مالی سہارا دینے پر آمادہ۔ دوست ممالک دیگر ممالک سے مراسم اور تجارت میں اس قدر آگے جاچکے ہیں کہ انہیں ہماری مجبوریوں سے کوئی سروکار ہے نہ ہی ضرورتوں سے۔ خارجہ پالیسی پر غیر سنجیدہ رویہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ حالات کی نزاکت اور وطن عزیز کے مفادات سے بے پروا ہوکر فی البدیہہ بیانیے ہمیں ان ممالک سے بھی دور لے گئے جن کی دوستی ہمارا فخر اور اطمینان ہوا کرتا تھا۔ کئی چلتے ہوئے میگا پروجیکٹ ایسے کھٹائی میں پڑے کہ ہر طرف گھاٹا ہی دکھائی دینے لگا ہے۔ عالمی منظرنامے پر غیر محتاط گفتگو کی وجہ سے تنہا ئی کے علاوہ ڈیفالٹ کا خطرہ بھی سیلاب کے پانی کی طرح بڑھتا چلا جارہا ہے۔ معیشت تو پہلے ہی وینٹی لیٹر پر تھی مانگے تانگے کی آکسیجن سے سانسیں چلائی جارہی تھیں لیکن قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اب وینٹی لیٹر پر چلنے والی آکسیجن کا کنٹرول بھی براہ راست آئی ایم ایف کے پاس چلا گیا ہے۔ یہ وہی طے کیا کریں گے کہ پاکستان کی معیشت کو آکسیجن کب اور کتنی دینی ہے؟
ابھی انہوں نے ہم سے پرانی وصولیاں بھی توکرنی ہیں‘ جب تک ساری وصولیاں نہیں ہوجاتی یہ ہمیں اتنی آکسیجن تو ضرور فراہم کریں گے جس سے ہماری معیشت کی سانسیں اور عوام کی روکھی سوکھی چلتی رہے تاہم حکمران اشرافیہ کے اللے تللے اور موج مستیاں ویسے ہی ان کا حق اور وہ خراج ہے جو وہ عوام سے روزِ اول سے وصول کرتے چلے آرہے ہیں۔ بیرونی قرضوں میں بطور پیکیج وہ ہمیشہ شامل ہوتے ہیں اور ان کی موج مستیوں میں اٹھنے والے اخراجات کی قیمت بھی اس قوم ہی کو چکانا پڑتی ہے۔ اصل قیمت تو خیر نجانے کب سے واجب الادا ہے‘ ابھی تو سود ہی سود ہے جو ادا کرنے کے لیے ہلکان ہیں۔ آئی ایم ایف کے گلوری فائڈ منیجرز پاکستان کے مالی معاملات پر دسترس تو پہلے ہی حاصل کرچکے تھے اب مانیٹرنگ اور کنٹرول بھی انہی ہاتھوں میں جارہا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان پر سٹیٹ کا کنٹرول ایک ایسا معمہ بنتا چلا جا رہا ہے جس کا جواب حکومت کے درجنوں اقتصادی چیمپئنز کے پاس بھی نہیں۔ ڈیڑھ درجن سے زائد اقتصادی ماہرین اور افسران تبدیل کرنے والی سرکار کے سبھی دعوے اس کے قد سے کہیں بڑے ثابت ہوچکے ہیں۔
چلتے چلتے ایک بھارتی شہری گیتا گوپی ناتھ کا ذکر بھی ضروری ہے جو اگلے مہینے سے پاکستان کے اقتصادی امور کی نگرانی کیا کریں گی۔ محترمہ اگلے مہینے سے آئی ایم ایف میں دوسرے نمبر کی پوزیشن پر تعینات ہو جائیں گی اور بحران زدہ ممالک کی فنڈنگ کے معاملات کو دیکھا کریں گی۔ ان ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے جہاں اس وقت آئی ایم ایف کا سابق افسر گورنر سٹیٹ بینک کے عہدے پر فائز ہے جو آئی ایم ایف سے تعلق کے سبب محترمہ گیتا گوپی ناتھ کو جواب دہ ہوا کرے گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ قانون ساز حلقوں میں ایک ترمیمی بل زیر غور ہے جس کی منظوری کے بعد سٹیٹ بینک حکومت پاکستان کو جوابدہ نہیں ہوگا۔ گیتا گوپی ناتھ مملکت خداداد کے مالی معاملات دیکھا کریں گی اور حکومت اور سبھی شریک ادارے ایک دوسرے کا منہ دیکھا کریں گے۔