ہمارے وزیراعظم نے قوم کو ایک بار پھریہ خوشخبری سنائی ہے کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔ خدا جانے ہماری قوم ناشکری کیوں ہوتی چلی جارہی ہے۔ ہروقت رونا دھونااور حالات کا ماتم شاید اس کی عادت بن چکی ہے۔ اسے کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ کاش عوام وزیراعظم کے درد کو محسوس کر سکتے کہ وہ ان کیلئے کس قدر بے چین اور پریشان رہتے ہیں۔ لاعلم عوام کا احساس جگانے کیلئے انہیں یہ راز کی بات خود بتانا پڑتی ہے کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی اخبارات میں وزیراعظم کا یہ بیان شہ سرخی بن کر شائع ہوا ہے۔ تعجب ہے کہ عوام کو نہ اقتصادی اصلاحات نظر آتی ہیں‘ نہ معیشت کی بحالی نظر آتی ہے‘ خوشحالی کا دور دورہ نظر آتا ہے اور نہ ہی سماجی انصاف اور قانون کی پاسداری۔ پورے ملک میں روز سورج نکلتا ہے اور اپنے طے شدہ وقت پر روز غروب ہوتا ہے۔ لوگ رات کو سوتے ہیں۔ دن نکلتے ہی بیدار ہوکر اپنے اپنے کام دھندوں پر جُت جاتے ہیں۔ جنہیں اللہ نے نعمتوں سے نوازا ہے وہ گھروں میں ناشتے اور کھانوں کا اہتمام کرتے ہیں اور محروم مخلوق درباروں اور لنگر خانوں سے پیٹ کی آگ بجھا لیتی ہے۔
پیدائش اور موت کا سلسلہ بھی جوں کا توں جاری ہے۔ ریسٹورنٹس میں روز ڈھیروں پکوان پکتے ہیں جو چند گھنٹوں میں چَٹ ہوجاتے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات کی رونقیں بھی اسی طرح جاری و ساری ہیں۔ شہرِ خموشاں کی آبادی بھی اپنی رفتار سے بڑھتی چلی جارہی ہے۔ کم و بیش ہر شہری کے ہاتھ میں موبائل فون ہے۔ مواصلاتی رابطے فاصلوں کو مات دیتے چلے جارہے ہیں۔ ہرگھر میں سمارٹ ٹیلی ویژن آچکا ہے جس میں وہ اپنے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کے دلفریب وعدوں اور دعووں کو روز سنتے اور دیکھتے ہیں۔ سڑکوں پر قیمتی گاڑیوں کی ریل پیل ہے جبکہ شورومز پر نئے ماڈل کی گاڑیاں بِکنے کو تیار کھڑی رہتی ہیں۔ ملبوسات کی دکانوں پر Brand Conscious گاہکوں کا دن بھر تانتا بندھا رہتا ہے۔ دھڑادھڑ شاپنگ مالز بن رہے ہیں جہاں پر ونڈو شاپنگ کرکے دل بہلانے کی سہولت بھی عام ہے۔ سیاحتی مقامات پر شائقین کا رش میلے کا سماں پیش کرتا ہے۔ اتنی ساری نعمتوں اور آسانیوں کے باوجود قوم کا رونا دھونا اور حالات کا ماتم‘ ناشکری کے ساتھ ساتھ اپنے حکمرانوں کی ناقدری نہیں تو اور کیا ہے۔ ایسے درد دل رکھنے والے پوری دنیا بھی گھوم لیں تو ڈھونڈے سے نہیں ملیں گے۔ وزیراعظم قوم کو اورکس طرح یقین دلائیں کہ پاکستان دنیا کا سب سے سستا ملک ہے۔ اگر گننا بھی چاہیں تو عوام شمار نہیں کرسکتے کہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کے درد اور لازوال محبت میں کیا کچھ سستا کر ڈالا ہے۔
عوام کے لیے سستا پیکیج اور کیا ہو سکتا ہے کہ عزت نفس سے لے کر غیرت قومی تک‘ خون سے لے کر عزت و آبرو تک‘ دھتکار اور پھٹکار سے لے کر ذلت جاریہ تک سبھی کچھ تو سستا اور عوام کی خدمت میں ہمہ وقت دستیاب ہے البتہ اگر کچھ مہنگا ہے بھی توعوام کو ہی کچھ صبر اور سمجھوتا کرلینا چاہیے۔ دو وقت کی روٹی کے لیے مہنگائی کی دہائی دینے والے عوام کس قدر جلد باز ہیں۔ جب آٹا مہنگا ہو گا تو روٹی کس طرح سستی ہو سکتی ہے؟ اگر داد رسی مہنگی ہے تو اس کی بھی سادہ سی وجہ ہے کہ حکام تک رسائی مہنگی ہے‘ تاہم صاحب اختیار تک رسائی کی قیمت ادا کرنے والوں کو داد رسی میں بھی کچھ رعایت مل سکتی ہے۔ سبھی شب و روز کوشاں ہیں کہ پہلے سے سستی سبھی چیزوں کو مزید سستا کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ خون کی ارزانی سے لے کر آفت ناگہانی کی فراوانی تک‘ بدحالی کے دور دورے سے لے کر عوام کی خستہ حالی تک‘ کمزور اور بے وسیلہ افراد کی بے بسی سے لے کر فریاد اور التجائوں تک‘ مجبوریوں سے لے کر سمجھوتوں تک‘ خودداری سے لے کر انا اور غیرت تک‘ سبھی کچھ تو دن بدن سستا ہوتا چلا جا رہا ہے اس سے بڑھ کر کوئی بھی حکومت کیا کر سکتی ہے؟
ماضی کے سبھی ادوار کی طرز حکمرانی میں جو کچھ نہ ہو سکا وہ سب موجودہ حکومت مزید اضافوں کے ساتھ عوام کو دیے چلی جا رہی ہے۔ بد ترین طرز حکمرانی کے سبھی ریکارڈ تو ریکارڈ مدت میں حکومت توڑ چکی ہے۔ اب مزید توڑنے کو کیا رہ گیا ہے؟ عوام کے جو خواب ٹوٹنے سے بچ گئے تھے وہ بھی چکنا چور کر ڈالے ہیں۔ ان کی کرچیاں عوام کو لہولہان کر تو رہی ہیں۔ خوشحالی کی ہریالی نہ سہی‘ ارمانوں کے لہو کی سرخی ہی سہی۔ کیسے کیسے عالی دماغ مشیر اور وزیر عوام کو لبھانے اور بہلانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ اہلیت نا معلوم اور کارکردگی تا حال صفر‘ اس صفر کارکردگی کے ساتھ کس تام جھام سے جھنڈا لگی سرکاری گاڑیوں پر موجیں مارتے پھرتے ہیں۔ سرکاری وسائل اور خزانے پر پلنے والے ان حکمرانوں کو ذرا بھی احساس نہیں کہ عوام کا خون تو پہلے ہی چوسا جا چکا ہے اب نڈھال اور بدحال جسم کی ہڈیاں بھنبھوڑنے کے لیے جو اقدامات اور فیصلے کیے جا رہے ہیں اس کے بعد خیال رہے کہ جب عوام اس قابل نہ رہیں گے تو کس کا خون چوسا جائے گا اور کس کس کی ہڈیاں بھنبھوڑی جائیں گی؟
عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں وصول کرنے والے وزیر‘ مشیر ہوں یا سرکاری بابو‘ سبھی اپنے اپنے چکر میں عوام کو گھن چکر بنائے جا رہے ہیں۔ بد ترین مہنگائی کے مارے عوام جنہیں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں وہ دراصل حکمرانوں کی لائف لائن ہیں‘ جن پر وہ شوقِ حکمرانی بھی برابر پوری کرتے ہیں اور انہی کے دیے ٹیکسوں سے کنبہ پروری اور اپنے اللے تللے بھی پورے کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ برسر اقتدار آنے کے بعد جوں جوں ان کا معیار زندگی بلند ہوتا چلا جاتا ہے توں توں عوام پستیوں کی گہری کھائیوں میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ جیسے جیسے ان کے اثاثے اور کاروبار انڈے بچے دینا شروع کرتے ہیں ویسے ویسے عوام بنیادی سہولیات اور قوت خرید سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔
مہنگائی کم کرنے کا ایک انوکھا فارمولا پنجاب حکومت نے متعارف کروا ڈالا ہے کہ بڑے بزنس مین کی اطاعت کر لو اور چھوٹے دکانداروں کو اتنا مجبور کرو کہ وہ کاروبار چھوڑ کر دور جنگلوں میں چلے جائیں۔ ایگزیکٹو مجسٹریسی تو نہ جانے کس سرد خانے میں ڈال کر بھول گئے ہیں اور نا تجربہ کار افسروں کے ذریعے دکان داروں کو قوت خرید سے بھی کم نرخوں پر اشیائے خورونوش فروخت کرنے پر نہ صرف مجبور کیا جا رہا ہے بلکہ اتنے بھاری جرمانے کیے جا رہے ہیں کہ دکاندار جرمانے کے خسارے کے بعد مہینوں نہیں سنبھل پاتا۔ جہاں ٹریفک وارڈنز کو محض اس لیے عتاب اور شوکاز کا سامنا کرنا پڑتا ہو کہ اس نے ٹریفک چالان کی مطلوبہ تعداد پوری نہیں کی وہاں کہاں کی گورننس اور کیسا احساسِ عوام؟ جب ٹریفک وارڈنز کی تنخواہیں ٹریفک چالان سے مشروط ہوں گی تو موٹر سائیکل سواروں اور واجبی سی گاڑیاں رکھنے والوں کی چیخیں کیوں نہ نکلیں؟ ناجائز تجاوزات سے بھتہ لینے والی ٹریفک پولیس نے شہر لاہور میں بسنے والوں کی جیبوں سے اپنے خسارے اور اللے تللے پورے کرنے کے لیے بھاری جرمانے عائد کرنا شروع کر دیے ہیں۔گاڑی کی ملکیت معلوم کرنے کے لیے ڈیوائس استعمال کرنے والی پولیس لائسنس ہولڈر کو لائسنس کی آن لائن تصدیق ہونے کے باوجود دو ہزار روپے جرمانہ اس لیے کر رہی ہے کہ اس کا لائسنس گھر یا دوسری گاڑی میں کیوں رہ گیا تھا۔
جس ملک میں سروسز کو دھندہ بنا لیا جائے‘ مفاد عامہ کے محکمے عوام کے لیے کہیں وبال تو کہیں عذاب بن جائیں تو وزیر اعظم ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے جہاں داد رسی مہنگی اور ذلت، دھتکار اور پھٹکار سستی اور ہمہ وقت دستیاب ہے۔ جی ہاں! پاکستان اس حوالے سے دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔