"AAC" (space) message & send to 7575

طرزِ حکمرانی کے روپ بہروپ

مصمم ارادہ تھاکہ آج سیاسی کھیل تماشوں کے بجائے کسی ایسے موضوع پر بات کریں گے جو ہر پڑھنے والے کے دل کے تار چھیڑ دے لیکن یہ سیاست بھی عجیب چیز ہے۔ اس سے جتنا گریز کرو یہ ہمیشہ سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔ کبھی فیصلوں کی صورت میں تو کبھی اقدامات کے روپ میں‘ کبھی طرزِ حکمرانی کی شکل میں تو کبھی من مانی کے انداز میں۔ سوچا تھا کہ ہر سال دسمبر کے ساتھ آنے والا ناسٹیلجیا اور دل پر بیتنے والی کیفیات ہوں یا ٹوٹنے والی قیامتیں وہ سبھی کچھ قارئین سے شیئر کروں گا‘ لیکن اخبارات کے ڈھیر میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس میرے ارادوں پر بھاری پڑ گئے۔ شہ سرخیاں بن کر شائع ہونے والے یہ ریمارکس طرزِ حکمرانی اور غیرت قومی کے لیے کسی آئینے سے ہرگز کم نہیں؛ تاہم کوشش کریں گے کہ اپنے ارادے کا بھی کچھ بھرم رہ جائے اور حکومت کو احساس دلانے کی بھی کوشش کی جائے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے واضح کیا ہے کہ وزیر اعظم لا پتہ افراد کی خود ذمہ داری لیں یا انہیں ذمہ دار ٹھہرائیں جو ان کے تابع اور ماتحت ہیں۔ عدالت عالیہ کے یہ ریمارکس طرزِ حکمرانی اور غیرتِ قومی کے لیے سوالیہ نشان بنے کھڑے ہیں۔
صدر پرویز مشرف نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ تو لگایا لیکن ''ڈو مور‘‘ کا جوابی مطالبہ اس قدر طاقتور اور پرکشش تھا کہ پاکستان سب سے پہلے تو درکنار سب سے بعد بھی کہیں نظر نہ آیا۔ بس نعرہ لگانے والے اور ایسے نعروں پر واہ واہ کرنے والے ہی سرگرم نظر آتے رہے۔ ڈو مور کے یہ پر کشش مطالبے اس قدر پر زور تھے کہ تعمیل بجا لانے والوں نے تو حد ہی کر دی۔ نہ انہیں پاکستان نظر آیا اور نہ ہی کہیں پاکستانیت۔ مملکت خداداد کی شہریت رکھنے والوں کی ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے شناخت کی گئی کہ کسی کو پناہ نہ ملی۔ جیتے جاگتے‘ چلتے پھرتے پاکستانیوں کو اس طرح باندھ کر ان کے حوالے کیا گیا جیسے کوئی پارسل حوالے کیا جاتا ہے۔ ان دو دہائیوں میں ڈو مور کے مطالبے کی بھینٹ چڑھنے والوں میں کس کا کیا حشر نشر ہوا‘ کس کا خانہ خراب ہوا‘ کیسے کیسے عذاب توڑے گئے‘ کیسی کیسی قیامتیں ڈھائی گئیں‘ متاثرہ خاندانوں کا آج بھی کوئی پرسان حال نہیں۔ ہاتھوں سے دفنائے ہووئوں کا تو وقت کے ساتھ صبر آ ہی جاتا ہے لیکن ہاتھوں سے اچک لیے جانے والے پیاروں کی جدائی کا درد دن کا چین اور رات کی نیند برباد کرنے کے علاوہ اس قدر اذیت ناک ہے کہ اظہار کے لیے الفاظ ڈھونڈنے نکلیں تو الفاظ خود ہاتھ جوڑے سراپا التجا نظر آتے ہیں کہ ہم اس سفاکی اور قیامت خیز لمحات کی ترجمانی سے قاصر ہیں۔
چیف جسٹس صاحب اسلام آباد ہائی کورٹ وزیر اعظم سے لا پتہ افراد کی ذمہ داری لینے کا کہہ رہے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب کی درد مندی اور فکر مندی قابل ستائش ہے لیکن وزیر اعظم کیا کریں؟ لا پتہ افراد پر سیاست تو وہ خوب کرتے رہے ہیں‘ کنٹینر پر چڑھ کر کبھی گھنٹوں متاثرہ خاندانوں سے یکجہتی کیا کرتے تھے‘ لاپتہ ہونے والے پاکستانیوں کا سوگ منایا کرتے تھے‘ ان کی گمشدگی کا ذمہ دار حکمرانوں کو ٹھہرایا کرتے تھے‘ ان کی بازیابی کے لیے مطالبے کیا کرتے تھے‘ ڈو مور کی سہولت کاری کی مذمت کیا کرتے تھے‘ اتنا کچھ تو کر بیٹھے ہیں اس سے بڑھ کر اور کیا کر سکتے ہیں؟ برسر اقتدار آنے کے بعد ماضی اور دھرنوں کی باتیں کرنے والے تو انہیں دیوانے ہی لگتے ہوں گے۔ یہ ساری باتیں‘ سارے دعوے‘ سارے وعدے اور لہو گرمانے والی سبھی شعلہ بیانیاں تو اقتدار کی منزل کا سنگ میل ہوتی ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں بھول جانا ہی بہتر اور فراموش کرنا ہی مقدم ہوتا ہے‘ تب کہیں جا کر مملکت اور اس میں بسنے والے لوگوں پر حکمرانی کا حق ادا ہوتا ہے۔
لاپتہ افراد کی ذمہ داری لینا تو بہت ہی بڑی بات ہے یہاں تو آنکھوں کے سامنے موجود رلتے ہوئے عوام کی ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہیں۔ جن عوام کو کنٹینر پر کھڑے ہو کر سول نافرمانی پر اکسایا جاتا تھا‘ بجلی کے بل جلا کر عوام کو بل ادا نہ کرنے کی ترغیب دی جاتی تھے‘ آج وہی عوام بجلی کے بل دیکھ کر خود سلگ رہے ہیں۔ کہیں روٹیوں کے لالے ہیں تو کہیں یوٹیلٹی بلوں کے۔ طرز حکمرانی کے سبھی روپ بہروپ ثابت ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سماجی انصاف اور قانون کی حکمرانی‘ دھونس اور من مانی کی سولی پر لٹکے دکھائی دیتے ہیں۔ گورننس منہ چھپائے پھرتی ہے تو میرٹ تار تار دکھائی دیتا ہے۔ اقتصادی اصلاحات اور معیشت کی بحالی عوام کے ٹھنڈے چولہے گرم کرنے سے قاصر ہے۔
لاپتہ افراد کو رونے والے اکثر تو روتے روتے منوں مٹی تلے جا سوئے ہیں اور نجانے کتنوں کی آنکھیں اپنے پیاروں کی راہ دیکھتے دیکھتے پتھرا چکی ہیں۔ اکثر آنکھیں تو اتنی خالی ہیں کہ ان میں اب آنسو بھی نہیں آتے۔ اپنے پیاروں کی بازیابی کی امید لیے پل پل جیتے اور لمحہ لمحہ مرتے ہیں۔ ریزہ ریزہ ٹوٹتے اور قطرہ قطرہ پگھلتے ہیں۔ انہیں کوئی خوشی خوشی نہیں لگتی اور سبھی غم پیاروں کی جدائی کے غم سے کم ہی لگتے ہیں۔ ان کا جینا کیا اور مرنا کیا۔ یہ تو روز جیتے اور روز ہی مرتے ہیں۔ دو دہائیوں سے جیتے مرتے یہ سبھی غالب کے اس مصرع اور بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں کہ 'مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا‘۔
قارئین! لاپتہ افراد کا نوحہ اس قدر طویل اور تکلیف دہ ہے کہ اس پر کئی کالم بھی کم پڑ سکتے ہیں۔ کالم کی سوگواری سے نکل کر ایک اور ناسٹیلجیاکی طرف چلتے ہیں جس کا ذکر کالم کی ابتدا میں کر چکا ہوں۔ دسمبر ایک بار پھر لوٹ آیا ہے۔ اس اختتامی مہینے کے نصف سورج غروب ہو چکے ہیں۔ باقی شب و روز بھی بالکل اسی طرح طلوع و غروب ہوتے چلے جائیں گے جس طرح پورا سال دن رات ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ہر سال یہ اختتامی مہینہ نجانے کیسے کیسے زخم ہرے کر جاتا ہے اور کون کون سی یادوں کی صورت میں ماضی کے کتنے ہی دریچے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ زندگی کے جھمیلوں سے لے کر رونق میلوں تک‘ ملنے کی خوشی سے لے کر بچھڑنے کے غم تک‘ یہ دسمبر جاتے جاتے کیسے کیسے تار چھیڑ جاتا ہے۔ دسمبر کی سرد شامیں ہوں یا یخ بستہ راتیں‘ ان سبھی میں نامعلوم اُداسی کا غلبہ کچھ اس طرح بے چین کیے رکھتا ہے کہ لمحہ لمحہ دھیرے دھیرے اور ریزہ ریزہ وقت کی مٹھی سے زندگی کی سرکتی ہوئی ریت طبیعت کو مزید بے چین اور بوجھل کیے دیتی ہے۔ اس کیفیت میں برادرم حسن نثار کا یہ شعر درد بڑھانے کے ساتھ ساتھ وسوسوں اور اندیشوں کی اندھی کھائیوں میں دھکیلے چلا جاتا ہے؎
رستے پہ عمر کی میرا پاؤں پھسل گیا
اک اور سال پھر میرے ہاتھوں نکل گیا
دسمبر جب بھی لوٹ کر آتا ہے تو سال بھر کا میزانیہ سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ مہینے تو سبھی رنگین و سنگین یادوں سے جڑے ہوتے ہیں‘ کوئی مہینہ کسی کی جدائی کا زخم ہرا کر جاتا ہے تو کوئی مہینہ کسی کے ملنے کی یاد تازہ کر جاتا ہے۔ ان سبھی مہینوں کی یادیں دسمبر میں ایک ایسی بیل کی صورت اختیار کر جاتی ہیں جو نفسیات اور اعصاب کو ایسے لپیٹ لیتی ہے کہ کوئی اس سے جتنا بھی بچنا اور نکلنا چاہے بچ نہیں سکتا۔ یہ یادیں کس کو کتنا بے چین اور گھائل کرتی ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لیے بس یہی کہا جا سکتا ہے 'جس تن لاگے سو تن جانے‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں