قدرتی گیس کے ختم ہوتے ذخائر پر فواد چودھری کے پورے سچ پر کہیں مباحثے کا سماں ہے تو کہیں سیاسی سرکس میں کھیل تماشے جاری ہیں۔ فواد چودھری سرکاری اجلاسوں میں بھی بات کھری اور اکثر تیکھی کر جاتے ہیں۔ بند کمروں میں اجلاس ہوں یا آن کیمرہ بیانیے فواد چودھری کی منطق اور دلیل انصاف سرکار کی مصلحت پسندی کو اکثر شرمندگی سے دوچار کر جاتی ہے‘ جس کی وجہ سے انہیں اندرونی مخالفت کے ساتھ ساتھ محلاتی سازشوں کا بھی سامنا رہتا ہے۔ قدرتی گیس کے ذخائر کی فضول خرچی اس قدر بے دردی سے جاری ہے کہ فواد چودھری کے پورے سچ کو تقویت دینے کے لیے وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر بھی اس الارمنگ صورت حال کا احساس دلانے کے لیے سرگرم ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز گورنر ہائوس میں اینکرز اور کالم نگاروں سے ایک غیر رسمی گپ شپ میں تو انہوں نے پنڈورا باکس ہی کھول ڈالا۔ ان کی معاونت کے لیے معاون خصوصی حسان خاور بھی متحرک تھے۔ انہوں نے چونکا دینے والے چشم کشا حقائق کے ساتھ ساتھ وہ اعداد و شمار بھی بیان کر ڈالے ہیں کہ جنہیں سننے کے بعد قدرت کی یہ عظیم نعمت اگر ساشے پیک میں بھی دستیاب ہو تو اسے اس قدر کنجوسی سے استعمال کرنا چاہئے کہ کنجوسی کا سر بھی فخر سے بلند ہو جائے اور وہ بجا طور پرکہہ سکے کہ شاباش! کنجوسی اسی کو کہتے ہیں۔
حماد اظہر نے جن اعداد و شمار کے ساتھ گیس کے ذخائر کی اصل حقیقت بیان کی ہے‘ اس کے بعد انہیں ذخائر کہنا بھی ذخائر کو شرمندہ کرنے والی بات ہو گی۔ بچی کھچی گیس متوقع وقت سے کہیں زیادہ مدت تک اس ملک کے چولہے گرم اور چمنیوں سے دھواں نکالنے کا باعث بنتی رہی ہے۔ ماہرین بھی حیران ہیں کہ ان کے سبھی اندازے اور تخمینے غلط ثابت ہو چکے ہیں کہ متوقع مدت گزرنے کے باوجود بھی یہ قدرتی گیس کے کنویں ابھی تک کیسے چولہے گرم رکھے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر یہ بھی بتاتا چلوں کہ جس طرح ملک و قوم کی دولت اور وسائل پر برابر ہاتھ صاف کیا جاتا رہا‘ اسی طرح اس قدرتی گیس پر رات کے اندھیرے کے علاوہ دن دیہاڑے بھی ڈاکے ڈالے جاتے رہے ہیں اور ڈاکے ڈالنے کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ایک زمانے میں انڈسٹریز کی اصل کمائی اور بچت ہی گیس چوری ہوا کرتی تھی جو شاید اب بھی جاری ہو۔ ان میں بعض انڈسٹریز مالکان شہر کے نامی گرامی رئوسا ہوتے اور کچھ کا تعلق سیاسی گھرانوں سے ہوتا۔ اس بارے میں تفصیل میں جانے کے لیے ایسے کئی کالم درکار ہوں گے تاہم ان سبھی کو تقریباً سبھی جانتے ہیں۔ حماد اظہر کا کہنا ہے کہ اس گیس کو ہاتھ تاپنے ، نہانے دھونے اور کپڑے سکھانے کے لیے استعمال کرنے کے بجائے انڈسٹری کا پہیہ رواں دواں رکھنے کے لیے کچھ بچا لینا چاہیے جبکہ گھریلو صارفین کا کہنا ہے کہ انہیں سرکار سے ملتا ہی کیا ہے‘ گیس اور بجلی ہم اپنا پیٹ کاٹ کر خریدتے ہیں۔ میرے خیال میں اگر گیس پر پڑنے والے ڈاکے آج بھی روک لیے جائیں تو شاید عوام سے قربانی دینے کا مطالبہ نہ کرنا پڑے۔ پھر گیس کا جیسا نظام ہمارے ہاں ہے شاید ہی کسی اور ملک میں ہو گا۔ زیادہ تر سلنڈر استعمال ہوتے ہیں۔ ہم نے گیس کی ترسیل کا پورا انفراسٹرکچر بنا ڈالا۔ ان پائپ لائنوں سے گیس کی ترسیل تو ہوتی ہے‘ لیکن یہی لائنیں گیس کی چوری اور گیس کے ضیاع کا باعث بھی بنتی ہیں۔ سینکڑوں بار مشاہدے میں آیا ہے کہ پائپ لائن سے مسلسل گیس لیک ہو رہی ہے اور کسی کو پروا ہی نہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ گیس کے اس بحران کے ذمہ دار ہم خود بھی ہیں۔ جب گیس دستیاب ہوتی تو ہم نے اس کا ایسے بے دریغ استعمال کیا کہ اب یہ نایاب ہوتی جا رہی ہے۔
قارئین! بات شروع ہوئی تھی فواد چودھری کے پورے سچ سے۔ وزارت اہم ہو یا غیر اہم انہیں اپنی اہمیت اور موجودگی کا احساس دلانا خوب آتا ہے۔ انصاف سرکار کے پہلے وزیر اطلاعات و نشریات کا قلم دان سنبھالا‘ لیکن یہ قلم دان زیادہ دیر ان کے پاس نہیں رہنے دیا گیا۔ کہیں کان بھرنے والے سرگرم تھے تو کہیں بریفنگ اور ڈی بریفنگ کے چیمپئنز نے افتاد طبع کو اس قدر اکسایا کہ جلد ہی انہیں تبدیل کر کے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی دے کر اہم سے غیر اہم کرنے کی کوشش کی گئی‘ لیکن اس غیر اہم اور تقریباً غیر فعال وزارت کا چارج سنبھالتے ہی انہوں نے چاند دیکھنے والی کمیٹی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ عیدین اور رمضان المبارک کے چاند دیکھنے پر ملک بھر میں تضاد بیانیوں کو بنیاد بنا کر وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی خدمات پیش کر ڈالیں‘ گویا
جو دل کو لبھانے کا ڈھب جانتے ہیں
وہ ترکیب ورکیب سب جانتے ہیں
جب تک وزارت سائنس کا قلم دان ان کے پاس رہا‘ ان کی وزارت کا چرچا بھی زبان زد عام ہی رہا۔ کچھ لوگوں نے خدا جانے کتنی دعائیں کی ہوں گی۔ کیسی کیسی منتیں مانی ہوں گی کہ کسی طریقے سے فواد چودھری سے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کا قلم دان واپس لے لیا جائے۔ فواد چودھری کو دوبارہ وزارت اطلاعات کا قلم دان ملنا شاید انہی لوگوں کی دعائوں یا بد دعائوں کا ثمر ہے۔ ان کے بد ترین ناقد ہوں یا مخالفین فواد چودھری کی مخالفت میں یہ لوگ شاید سبھی پر بازی لے گئے تھے۔ فواد چودھری تو ان کی افادیت اور کارکردگی کو ہی چیلنج کر بیٹھے تھے ان کے سبھی کارنامے فواد چودھری کے بیانیوں کو تقویت بھی دیئے چلے جا رہے تھے۔ شاید ہی کوئی عیدایسی گزری ہو اور ایسا رمضان آیا ہو کہ ملک بھر میں سبھی مکاتب فکر ایک چاند پر متفق ہوئے ہوں۔ سبھی اپنا اپنا چاند دیکھ کر اپنا اپنا رمضان اور اپنی اپنی عید مناتے رہے ہیں۔
منافرت اور انتشار پھیلانے والوںکو فواد چودھری نے چلتے پھرتے بم قرار دیا۔ میرے خیال میں انہوں نے ٹھیک ہی کہا ہے‘ ایسے بم نجانے کہاں کہاں پھٹنا شروع ہو چکے ہیں بلکہ کب سے پھٹتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ میرے نبیﷺ تو رحمت للعالین ہیں ۔ طائف کے بازاروں میں سنگ باری سے لہولہان ہونے کے باوجود نبی رحمتﷺ بد دعا کے بجائے گستاخوں کے لیے اصلاح کی دعا ہی فرماتے رہے۔ اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر عفو و درگزر کے کیسے کیسے عظیم الشان مناظر دیکھنے میں آئے۔ حجۃ الوداع کے خطبہ میں دین کی تکمیل کا اعلان کرتے ہوئے آپﷺ نے پورا ضابطہ حیات ترتیب فرما دیا۔ رہنمائی اور تقلید کے لیے صرف اسوۂ حسنہ ہی کافی ہے۔ اس کے برعکس طرزِ فکر ہو یا طرزِ عمل‘ دونوں ہی نافرمانی کے زمرے میں آتے ہیں۔ دل آزاری کرنے والے کوسوں دور بیٹھ کر ہمارا تماشا دیکھتے ہیں‘ خصوصاً اس وقت جب ہم اپنا غصہ خود پر ہی اتارنے کی کوشش کرتے ہیں ۔سری لنکا سے حصول روزگار کے لیے آنے والے جیتے جاگتے شہری کی راکھ تابوت میں اس کے گھر بھجوا کران چلتے پھرتے بموں نے اس راکھ کی سیاہی پوری قوم کے چہرے پر مل دی ہے۔ فواد چودھری کے ایک اور پورے سچ کو بڑھاوا دیتے بتاتا چلوں کہ صرف قدرتی گیس ختم ہونے پر اتنا واویلا نہ کریں۔ اس ملک میں نجانے کیا کچھ اختتام پذیر ہے۔ خاطر جمع رکھیں۔ یہ واویلا رونے دھونے اور باقاعدہ ماتم میں تبدیل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اخلاقیات سے لے کر اقتصادیات تک اور مزید بہت کچھ اختتامی مراحل میں رواں دواں ہے۔