وزیر اعظم عمران خان نے خیبر پختونخوا کے بلدیاتی نتائج کے بعد پارٹی کی تنظیمیں توڑ ڈالی ہیں۔ بلدیاتی امیدواروں کی نامزدگی پر اقربا پروری کرنے والوں نے پاکستان تحریک انصاف کو سبکی اور جگ ہنسائی کے ساتھ ساتھ اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ وزیر اعظم کو واضح کرنا پڑا کہ آئندہ انتخابات میں سبھی فیصلوں کی منظوری وہ خود دیں گے۔ انہوں نے خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں شکست کو تسلیم کرتے ہوئے اس نالائقی کا نتیجہ قرار دیا۔ دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں کہ پنجاب میں متوقع بلدیاتی انتخابات میں اس نالائقی کا ووٹ مسلم لیگ (ن) کو پڑنے کا امکان بڑھتا چلا جا رہا ہے جبکہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج عام انتخابات کے سنگ میل ثابت ہوں گے۔ اس پر مزید بات کرنے کے بجائے ع
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
وزیر اعظم صاحب نے ایک اور خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی نااہلی ختم کروانے کے لیے راستے نکالے جا رہے ہیں۔ نواز شریف کے بارے میں ان کے اکثر خدشات درست ثابت ہوتے آئے ہیں۔ علاج کے لیے بیرون ملک روانگی سے قبل بھی وہ کہتے رہے کہ نواز شریف علاج کا بہانہ بنا کر بیرون ملک جانے کی راہ تلاش کر رہے ہیں۔ وہ اکیلے کیا کرتے؟ کیا وزیر کیا مشیر سبھی روزانہ باقاعدگی سے نواز شریف کی بگڑتی صحت کی اپ ڈیٹ دیا کرتے تھے۔ سرکاری ہسپتالوں میں زیر علاج نواز شریف کے معالج بھی سرکاری تھے اور لیبارٹریاں بھی سرکار کے زیر انتظام تھیں۔ وزیر اعظم لاکھ کہتے رہے کہ نواز شریف بیماری کا بہانہ بنا کر بیرون ملک چلے جائیں گے اور واپس نہیں آئیں گے مگر حکومتی چیمپئنز نے خود ایسا ماحول بنا ڈالا کہ وزیر اعظم کو خود کہنا پڑا کہ انہیں نواز شریف پر رحم آ گیا اور کابینہ میں اختلافِ رائے کے باوجود انہیں علاج کے لئے باہر جانے دیا گیا۔ جو وزیر اور مشیر نواز شریف کی بیماری کی تصدیق کر رہے تھے وہ سبھی ان کے جاتے ہی کفِ افسوس ملنے لگے۔ ہسپتال سرکاری‘ علاج سرکاری‘ تشخیصی رپورٹیں سرکاری‘ بیرون ملک جانے کی اجازت سرکار کی‘ تعجب ہے اب کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق حکومتی ترجمان اور وزرا کیوں آسمان سر پہ اٹھائے ہوئے ہیں؟
اپنی زبانوں سے شعلے اگلتے حکومت کے سقراطوں اور بقراطوں نے بالآخر خان صاحب کو اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ وہ ایک نئے خدشے سے دوچار ہو چکے ہیں کہ نواز شریف کی نااہلی ختم کروانے کے راستے نکالے جا رہے ہیں جبکہ یہ مباحثہ بھی دن بدن تقویت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے کہ نواز شریف وطن واپس آرہے ہیں۔ یعنی کچھ لوگ جو ان کے ملک کے باہر چلے جانے پر ناخوش تھے کہ وہ قید سے چھوٹ رہے ہیں‘ وہی اب اس بات سے خوف زدہ نظر آتے ہیں کہ کہیں وہ وطن واپس نہ آ جائیں۔ حکومت پہلے انہیں بیرون ملک بھیجنے سے خائف تھی اور آج ان کی واپسی کے وسوسے اور خدشات پریشان کیے ہوئے ہیں‘ گویا انہیں بھیجنے کے فیصلے کا اختیار نہ اس وقت خان صاحب کے پاس تھا اور نہ ہی آج ایسا نظر آ رہا ہے۔ اُس وقت بھی حکومت وہ سارے اقدامات کرنے پر مجبور نظر آئی جن کا ذکر سننا بھی کسی کوگوارا نہ تھا۔ وہ سبھی اقدام‘ جن سے وہ گھن کھایا کرتے تھے‘ جن کے ذکر سے ہی آگ بگولہ ہو جایا کرتے تھے‘ اپنی حکومت میں اپنے ہی ہاتھوں کرتے نظر آئے۔ بڑے بول اور بلند بانگ دعووں پر مبنی سارے بیانیے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ نہ کوئی تبدیلی نظر آئی اور نہ ہی کسی تبدیلی کے آثار پیدا ہوئے۔ سب کچھ ویسا ہی نظر آتا ہے جیسا چند سال پہلے تھا۔ ہاں ایک تبدیلی ضرور نظر آتی ہے کہ مہنگائی پہلے کی نسبت کئی گنا بڑھ گئی ہے‘ روپیہ ڈی ویلیو ہوتا جا رہا ہے اور آمدنیاں سکڑتی جا رہی ہیں۔
برسرِ اقتدار آنے سے پہلے تحریک انصاف کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ خان صاحب کے پاس ماہرین کی ایسی ٹیم موجود ہے جو برسرِ اقتدار آ کر نہ صرف ملک و قوم کی تقدیر بدل کر رکھ دے گی بلکہ ان چیلنجز اور مسائل سے بھی بخوبی نبرد آزما ہو سکے گی جو عوام کے لیے جونک بنے ہوئے ہیں۔ خصوصاً سماجی انصاف‘ معیشت کی بحالی اور استحکام کے حوالے سے عوام امیدوں کے جو چراغ جلائے بیٹھے تھے وہ ایک ایک کر کے بجھتے چلے جا رہے ہیں۔ اب یہ عالم ہے کہ نا امیدی‘ مایوسی اور غیر یقینی صورتحال عوام کو ہلکان کئے ہوئے ہے۔ صفر تیاری کے ساتھ برسرِ اقتدار آنے والی تحریک انصاف نے ابتدائی چند ماہ میں ثابت کر دیا تھا کہ دھرنا اور انتخابی مہم میں دیے جانے والے بھاشن اور بلند بانگ دعووں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ سبھی جھانسے اور دلاسے ہی نکلے۔ سماجی انصاف اور کڑے احتساب کا بیانیہ منہ چھپائے پھرتا ہے۔
جس طرح کوئی اپنی کمر کا تِل نہیں دیکھ سکتا اسی طرح حکمران بھی اپنے کئے ہوئے اکثر فیصلوں کے نتائج سے لا علم ہوتے ہیں۔ وہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ آنے والے وقت میں یہ فیصلے کیا نتائج دیں گے اور ان کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ انہیں اس بات کا بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے ارد گرد اور آگے پیچھے پھرنے والے وزیر اور مشیر گورننس کے نام پر کیا کچھ کرتے پھر رہے ہیں۔ اکثر فیصلوں اور اقدامات کے پسِ پردہ عزائم بھی اوجھل ہوتے ہیں‘ مگر جلد یا بدیر ان کے نتائج بہرحال حکمرانوں کو ہی بھگتنا پڑتے ہیں۔ مشورے دینے اور فیصلے کروانے والے اکثر تتربتر ہو جاتے ہیں اور کچھ اپنی اگلی منزلوں کی طرف رواں دواں نظر آتے ہیں۔ تحریک انصاف نے حکومت سازی کے فوری بعد کرپشن پر سخت سزا کا قانون بنانے کی بات کی۔ اس حوالے سے اسمبلی میں ہونے والی پیش رفت شور شرابے کے بعد پانی کا بلبلہ ثابت ہوئی۔ ایک دوسرے کو چور کہنے والوں نے ایوان میں کرپشن کے خلاف پیش کی گئی تحریک کو ایسے گھمایا کہ وہ نجانے کہاں کھو کر رہ گئی۔ نواز شریف کے بیرون ملک جانے کا فیصلہ ہو یا وطن واپسی کا اس بارے میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور شعلہ بیانیوں کے باوجود بجا طور پر کہا جا سکتا ہے ۔ ہونی روکیاں رکدی نئیں۔
اکثر اوقات سیاسی مصلحتیں اور مجبوریاں حکمرانوں کو اس مقام پر لے آتی ہیں کہ انہیں کوالی فکیشن بھی ڈس کوالی فکیشن نظر آتی ہے۔ ملک بھر میں سب سے زیادہ اہم اور طاقتور شخصیات سمیت تمام ہائی پروفائل کیسز کا کریڈٹ جس کو جاتا ہے وہ مخصوص عناصر کے ایجنڈے کی بھینٹ چڑھایا جا چکا ہے۔ خدا جانے وزیر اعظم کو اتنے بڑے فیصلے پر خدشات کیوں لاحق نہیں ہوئے؟ شریف برادران سے لے کر طاقتور بیوروکریٹس سمیت دیگر اہم سیاستدان اور لینڈ مافیاز کے سامنے ایک ہی ہدف تھا کہ کسی صورت ڈی جی نیب لاہور کا تبادلہ کروا دیا جائے۔ نیب لاہور کی چار سالہ کارکردگی احتساب کے ادارے کی سولہ سالہ تاریخ پر بھاری ہے‘ حکومت جس کا مزید بوجھ اٹھانے سے قاصر معلوم ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ایسے کئی کیس متوقع ہیں جن کے تانے بانے بالواسطہ یا بلا واسطہ حکومتی شخصیات سے جا ملتے ہیں لہٰذا پیش بندی کے طور پر نیب کے اعلیٰ افسر کو تبدیل کر دیا گیا۔ آخر میں یہ سوال کرتا چلوںکہ نیب لاہور میں اتنی بڑی تبدیلی کے تانے بانے کہیں نواز شریف کی واپسی سے تو نہیں جاملتے؟