سالِ رواں کے چند سورج ہی طلوع و غروب ہونا باقی ہیں۔ جانے والا سال بھی نیا سال بن کر آیا تھا اور آنے والا سال بھی کل جانے والا سال ہوگا۔ سال بدلنے کے ساتھ ساتھ حکمران تو بدلتے رہے لیکن طرزِ حکمرانی نہیں بدلا‘ کوئی سیر تو کوئی سوا سیر‘ کوئی نہلا تو کوئی نہلے پہ دہلا ثابت ہوا‘ ہر آنے والا حکمران کبھی حالات کی خرابی کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کو ٹھہراتا ہے تو کبھی گورننس کی آڑ میں اور میرٹ کے نام پر کیے جانے والے سارے اقدامات صرف مخالفین کو مات دینے کے اردگرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ رنگین و سنگین یادوں سے جڑے یہ سبھی ماہ و سال یونہی آتے جاتے رہیں گے اور عوام حکمرانوں کے فیصلوں اور اقدامات کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔ آلام و مصائب میں گھرے یہ عوام شب وروز سے لے کر ماہ و سال تک حالات کا ماتم اور گریہ زاری یونہی کرتے رہیں گے۔ تبدیلی کی آس میں بھٹکنے والے عوام بھٹکتے بھٹکتے کہاں آن پہنچے ہیں۔ یہ کیسی تبدیلی ہے جو کچھ بھی تبدیل نہ کر سکی ہے‘ وہی نظام وہی شکار‘ وہی کھیل وہی کھلاڑی‘ وہی سہانے خواب وہی بھیانک تعبیریں‘ سیاسی بازیگروں نے بس باریاں لگا رکھی ہیں۔ روٹی، کپڑا اور مکان سے لے کر نظام بدلنے تک‘ قرض اتارو ملک سنوارو سے لے کر سب سے پہلے پاکستان تک‘ پاکستان کھپے سے لے کر نئے پاکستان تک سبھی نعرے اور بیانیے جھانسے اور دھوکے ہی ثابت ہوئے۔ گویا تمام عمر چلے گھر نہیں آیا۔ سفر میں ہے لیکن منزل نہیں آئی۔
بدترین مخالف سماج سیوک نیتائوں کو کسی تقریب میں اکٹھے دیکھ لیں تو یقین نہیں آتا کہ ایک دوسرے کو عوام دشمن اور سکیورٹی رسک قرار دینے والے بانہوں میں بانہیں ڈالے اس طرح بھی شیروشکر ہو سکتے ہیں۔ دو روز قبل شہر میں ایک ہائی پروفائل شادی کی تقریب میں ایک دوسرے کے بدترین مخالف سماج سیوک نیتائوں کو کھلے بازوئوں سے ایک دوسرے کوگلے لگاتے دیکھ کر یہ گماں ہوتا تھا کہ نجانے کب سے بچھڑے ہوئے بھائی آن ملے ہیں۔ ایک دوسرے پر واری واری جانے کے مناظر ہوں یا ستائشِ باہمی کے کلمات‘ یہ سبھی مناظر اگر ان کے ووٹرز دیکھ لیں تو کم ازکم بے ہوش تو ضرور ہوجائیں گے۔ اپنے محبوب لیڈران کے منشور اور بیانیوں کے سحر میں جکڑے ووٹر آپس میں لڑتے مرتے اور آئے روز ایسے الجھتے نظر آتے ہیں جیسے ان کی ذاتی دشمنیاں ہوں۔ انتخابی سرگرمیاں ہوں یا انتخابی عمل (پولنگ ڈے) اپنے من پسند امیدوار کو جتوانے کے لیے یہی ووٹر کہیں آلہ کار تو کہیں پیروکار بنے دکھائی دیتے ہیں۔ مسلسل یہی ہو رہا ہے۔
یہ پُرتشدد کارروائیوں سے لے کر قتل و غارت جیسے قبیح جرائم سے بھی نہیں چوکتے‘ جبکہ سبھی سماج سیوک نیتائوں کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو‘ ایک دوسرے کے سامنے صف آراء ہوں یا بد ترین مخالف‘ حلیف ہوں یا حریف‘ ایک دوسرے کو عوام دشمن قرار دینے والے ہوں یا وطن دشمن‘ ہرزہ سرائی کرنے والے ہوں یا کردار کشی کرنے والے‘ سبھی ایک ہی سکے کے دو رُخ محسوس ہوتے ہیں۔ ایسے نیتائوں کے لیے عوام اپنا کیا کچھ دائو پر نہیں لگا ڈالتے؟ عوام کو خبر تک نہیں ہوتی کہ کب انہوں نے اپنی وفاداریوں اور بیانیوں کو اپنی مجبوریوں اور مصلحتوں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ ہمیشہ عوام کو یہی دلاسا دیا جاتا ہے کہ ان کا یہ اقدام ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ ملک و قوم کے مفادات کاحال تو سبھی کے سامنے ہے تاہم ان کے ایسے اقدامات ان کے اپنے مفاد میں اور سود مند ضرور نظر آتے ہیں۔ عوام کے لیے تو قربانیاں اور انتظار لکھ دیا گیا ہے۔
عوام کو کہیں پاگل بنائے رکھا گیا ہے تو کہیں دیوانہ۔ اپنے بیانیوں اور شعلہ بیانیوں سے عوام کو کیسے کیسے گمراہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ کسی الیکشن میں حریف بن کر تو کسی الیکشن میں حلیف بن کر عوام کو کس طرح کھلا دھوکا دیتے جا رہے ہیں اور عوام کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھنے کے باوجود نجانے کس مغالطے اور گمراہی کا شکار ہیں کہ انھیں نہ تو کوئی احساس ہے نہ ہی کہیں ہوش آتا دکھائی دیتا ہے۔ خدا جانے کوئی غفلت ہے یا کوئی سزا۔ سالہا سال سے انہی سماج سیوک نیتائوں کو آزمائے چلے جا رہے ہیں۔ کتنی ہی نسلیں بدل گئیں۔ بوئے سلطانی کے جوہر آزمانے والے خاندان بھی وہی ہیں اور شوق حکمرانی کا شکار ہونے والے عوام بھی وہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دونوں طرف دادا کی جگہ پوتا اور باپ کی جگہ بیٹا۔ نسل در نسل حاکم بھی وہی اور محکوم بھی وہی چلے آرہے ہیں۔ یہ سلسلہ بدلتا نظر نہیں آتا۔
کیسے کیسے سانحات‘ حادثات اور صدمات قوم کا مقدر بنتے چلے آئے ہیں۔ جب بھی آئی‘ جہاں سے بھی آئی‘ بری خبر ہی آئی۔ ہر دور میں وطنِ عزیز کے سبھی حکمران اور ان کے رفقا و مصاحبین جہاں قوم کے پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق بنتے رہے‘ وہاں عوام کے لیے بھی کبھی آزمائش تو کبھی مصائب کا ہی باعث بنتے چلے آ رہے ہیں۔ برسہا برس یا دہائیاں گزر جائیں‘ کتنے ہی حکمران بدل جائیں‘ کتنی ہی رُتیں اور موسم بدل جائیں عوام کے نصیب کبھی نہیں بدلتے۔ روزِ اوّل سے لمحہ موجود تک ان کے مسائل اور مصائب جوں کے توں ہیں۔ انہیں عوام کا کوئی درد ہے اور نہ ہی ملک و قوم کے استحکام سے کوئی سروکار۔ دکھ ہی دکھ‘ دھوکے ہی دھوکے‘ لٹنا اور مٹنا عوام کا مقدر بنتا چلا جا رہا ہے۔ کیا ان کے لیے کوئی خیر کی خبر کبھی آئے گی؟
خوش حالی کے سنہری خواب ہوں یا اچھے دنوں کی آس‘ نہ خوابوں کو تعبیر ملتی ہے نہ آس پوری ہوتی نظر آتی ہے۔ بس یہی خلاصہ ہے وطنِ عزیز کی اکثریت کی زندگانی کا۔ اقلیت کے طرزِ حکمرانی کی بھینٹ چڑھنے والی یہ اکثریت نجانے کب سے سولی پر لٹک رہی ہے۔ سراب کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہلکان ہو کر بالآخر قبروں میں جا سوتے ہیں۔ چلتے چلتے ایک اور ناسٹلجیا بھی شیئر کرتا چلوں جو ہر سال کے اختتام پر شدت اختیار کر جاتا ہے:
سنا ہے سال بدلے گا ؍ زبوں حالی وہی ہو گی ؍ اسیری بھی وہی ہو گی ؍ بردگی بھی وہی ہو گی؍ بے بسی بھی وہی ہو گی ؍ کسمپرسی وہی ہو گی ؍ ستم گر ڈال بدلے گا ؍ سنا ہے سال بدلے گا ؍ بازار بھی وہی ہو گا ؍ سودا بھی وہی ہو گا ؍ صارف بھی وہی ہوں گے ؍ گاہک بھی وہی ہوں گے ؍ بنیا چال بدلے گا ؍ سنا ہے سال بدلے گا ؍ جنونِ زیست وہی ہو گا ؍ آہن گر بھی وہی ہو گا ؍ عیاں سینہ وہی ہو گا ؍ معرکہ بھی وہی ہو گا ؍ ہنگامہ بھی وہی ہو گا ؍ صیاد بھال بدلے گا ؍ سنا ہے سال بدلے گا ؍ نتیجہ پھر وہی ہو گا ؍ پرندے پھر وہی ہوں گے ؍ شکاری جال بدلے گا ؍ سنا ہے سال بدلے گا ؍ بدلنا ہے تو دن بدلو ؍ بدلتے کیوں ہو‘ ہندسے کو؟؍ وہی حاکم‘ وہی غربت ؍ وہی قاتل‘ وہی ظالم ؍ بتاو کتنے سالوں میں؍ ہمارا حال بدلے گا ؍ سنا ہے سال بدلے گا
آخر میں فیصلہ سازوں سے ہاتھ جوڑ کر استدعا ہے کہ نجانے کتنی نسلیں ہر سالِ نو کو لے کر اپنے دن بدلنے کی کیسی کیسی حسرتیں اور تمنائیں لیے رزقِ خاک بن چکی ہیں۔ سال تو سالہا سال سے بدل رہے ہیں ان کے حالات کب بدلیں گے؟ حالاتِ بد کے ذمہ داروں سے جان کب چھوٹے گی؟ یہ من مانی کی طرز حکمرانی ہی کیوں؟ بدلنا ہے تو دن بدلو۔ یعنی چہرے نہیں نظام کو بدلو۔ ایسا نظام لائو جو عوام سے قربانیاں ہی نہ مانگے‘ انہیں کچھ دے بھی۔ ان کا کچھ خیال بھی رکھے۔ باقی جو چاہے ترا حسن کرشمہ ساز کرے۔