"AAC" (space) message & send to 7575

کوئی خاک میں کوئی خاک پر

جس طرح نسبتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں اسی طرح فیصلے اوران کے نتائج حکمرانوں کی نیتوں اور ارادوں کا پتہ دیتے ہیں۔ بد قسمتی سے وطن عزیز کے سبھی حکمرانوں نے آئین سے قوانین تک‘ نیت سے معیشت تک‘بد انتظامی سے بد عنوانی تک‘ بد عہدی سے خود غرضی تک‘ وسائل کی بربادی سے ذخائر کی بندر بانٹ تک‘ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ذاتی خواہشات اور مفادات پر مبنی پالیسیوں اورغیر منصفانہ اور غیر منطقی فیصلوں کے اثرات ملک کے طول و عرض میں جابجا‘ ہر سو نظر آتے ہیں۔ ان کے اعمال کا شکار عوام ان کی نیتوں اور طر زِ حکمرانی کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہیں۔مملکت خداداد کی اکثریت پراس اقلیت کی حکمرانی ہے جو مخصوص خاندانوں پر مشتمل ہے۔دورِ حکومت کسی بھی جماعت کا ہو‘یہ خاندان ہر دور میں شریکِ اقتدار رہتے ہیں۔دادا کی جگہ پوتا اور باپ کی جگہ بیٹا نسل در نسل عوام پر حکمرانی کے شوق پورے کرتا چلا آرہا ہے۔ کتنی ہی نسلیں ان کی طرزحکمرانی کی فصلیں کاٹتے کاٹتے اس قدر مجبور ہو چکی ہیں کہ اب یہ عالم ہے کہ زندگانی کے دن کاٹنا بھی مشکل ہو چکے ہیں۔
ان حکمرانوں کے فیصلوں اور اقدامات کی فصل کاٹنے والوں کو یقین ہوچلا ہے کہ پون صدی میں اس زمین پر سبھی حکمران کوڑھ کی کاشت کرتے رہے ہیں۔کوڑھ زدہ فصل کے اثراتِ بد نے پورا سسٹم ہی کوڑھ زدہ کرڈالا ہے۔اس کوڑھ کی کاشت نے ہماری زمین ہی قہر زدہ کرڈالی ہے۔زمین کو قحط کا سامنا ہو تو تھوڑی بہت محنت کے بعد اسے سیراب کیا جاسکتا ہے لیکن قہر زدہ زمین کو نہ زرخیز کیا جاسکتا ہے نہ ہی سیراب اور نہ ہی اس زمین سے ہریالی اور خوشحالی کی امید لگائی جاسکتی ہے۔حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے سبھی نے مل کر اس زمین پر جو کچھ بویا ہے وہ کوڑھ کی فصل زمین کے ساتھ ساتھ ماحول کوبھی زہر آلود کرچکی ہے۔ملک کے طول و عرض میں طرزِحکمرانی کے اثرات ِبد ہوں یا ان سبھی کی نیت کے‘انہیں بھگتنے والے عوام کی کتنی ہی نسلیں خاک میں مل کر خاک کا رزق بن چکی ہیں اور جو زندہ ہیں وہ خاک پر رُل رہے ہیں۔ گویا کوئی خاک میں تو کوئی خاک پر۔بس اتنا سا خلاصہ ہے اس مملکت میں بسنے والی مخلوق اور اس کی حالت زار کا۔
آئین اور ضابطے عوام کی سہولت اور مملکت کا نظام چلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں مگر جب قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا جائے تو حالات کوئی اور رخ اختیار کر لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا نظام حکومت اور سیاست دان ڈلیور کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں یا انہیں کام ہی نہیں کرنے دیا جا رہا؟ یہ سوال دن بدن اہمیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان سوالات کی شدت اور تقویت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے کہ ملک و قوم کو کسی نئے نظام کی طرف دھکیلنے کے اسباب پیدا کیے جا رہے ہیں یا آئین کو ریسٹ دینے کے حیلے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ یہ سبھی سوالات بلا جواز ہرگز نہیں۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ ان کی انفرادی کے ساتھ ساتھ مجموعی کارکردگی پر بھی کئی سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں۔
سرکاری خرچ پر اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے گھر سے نکلنے والے جمہوریت کے ہر چیمپئن کے تمام اخراجات قومی خزانے سے پورے ہوتے ہیں۔ اجلاس میں شرکت سے لے کر کھانے اور پینے تک‘ سفر کا خرچ اور جتنے دن بھی وہ قیام کریں سبھی اخراجات ملک و قوم کے خزانے سے پورے کیے جاتے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس کے بدلے انہوں نے عوام کو کیا دیا ہے؟ کسی بھی اجلاس کا منظرنامہ دیکھ کر اس کا جواب مل جاتا ہے کہ قانون سازی اور مفادِ عامہ کے سوا وہ سب کچھ ہوتا ہے جسے دیکھ کر ہر پاکستانی جلتا‘ کڑھتا اور شرمسار بھی ہوتا ہے کہ کیا اسی لیے انہیں مینڈیٹ دے کر بھیجا گیا تھا۔ عوام کے نمائندے اپنے ذاتی مفادات اور استحقاق کے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے اور آپس میں دست و گریباں ہونے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مزے کی بات یہ کہ ان کے مشترکہ مفادات کو جہاں خطرہ لاحق ہو وہاں یہ سبھی آن کی آن میں اکٹھے اور متحد نظر آتے ہیں۔ کیا حلیف کیا حریف باہمی مفادات کے جھنڈے تلے سبھی ایک ہو جاتے ہیں۔
چوروں اور لٹیروں سے ریکوری تو درکنار سبھی احتساب یاترا کے بعد مزید چوڑے ہو کر اترائے پھرتے ہیں۔ کوئی سافٹ ویئر کی تبدیلی کے بعد نازاں تو کوئی بیانیوں پرسمجھوتوں کا بینی فشری ہے۔ تعجب ہے ملکی خزانہ بھی صاف ہے اور سبھی لٹیروں کے دامن اور ہاتھ بھی صاف ہیں۔حکومت کے احتسابی چیمپئنز نے احتساب کو ایسی بھول بھلیوں میں بھٹکا کر رکھ دیا ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ وہ اپنی کارکردگی سے بے نیاز ہر خرابی کا ذمہ دار اپوزیشن کو ہی ٹھہراتے ہیں۔ حکومت کے مشیر جتنی محنت سابق حکمرانوں کی مخالفت اور ان کی طرزِ حکومت پر تنقید کے حوالے سے کر رہے ہیں اگر اتنی ہی توجہ اور محنت اپنے اصل کام پر کریں تو صورتحال یقینا مثبت اور بہتر ہو سکتی ہے۔ اکثر وزیر تو حیلے بہانوں سے سابقہ حکمرانوں کا ذکر کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ اچھی خاصی محکمانہ میٹنگ یا بریفنگ کو سیاسی جلسہ بنا کر رکھ دیا جاتا ہے اور نتیجہ یہ کہ ساری توانائیاں اور توجہ اصل مقصد اور ہدف سے ہٹ کر سیاست کی نذر ہو جاتی ہے۔ کیا مشیر کیا وزیر‘ سبھی کی کوئی محکمانہ بریفنگ اور کوئی میٹنگ ایسی نہیں جس میں انہوں نے سابق حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا ہو۔ اکثر میڈیا بریفنگز کے دوران سوال کارکردگی سے متعلق ہو تو چیمپئنز زور زبردستی سے وہاں بھی اپوزیشن کا ذکر لے آتے ہیں۔ اگر یہی توانائیاں اپنی کارکردگی اور گورننس پر صرف کریں تو بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
تعجب ہے ہر دور میں شریک اقتدار رہنے والے اپنی نالائقیوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کوکس ڈھٹائی سے ٹھہراتے ہیں۔ نسل در نسل ملک و قوم پر حکمرانی کے شوق پورے کرنے والوں کی اہلیت اور قابلیت کے ساتھ ان کی نیت اور ارادوں کے سبھی بھید تو کھل چکے ہیں۔ ملک و قوم کے مفاد کے نام پر ذاتی مفادات اور موجیں مارنے والے 'سماج سیوک‘ نیتائوں کو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں کوئی چارج شیٹ تو جاری ہونی چاہیے۔ ملک و قوم سے کھلواڑ کرنے والوں کا کوئی تو انجام ہونا چاہئے ۔موجودہ طرز حکمرانی بھی کوڑھ زدہ دکھائی دیتا ہے۔عوام سے بد عہدیوں کی طویل تاریخ ہو یا غیرت قومی سے لاپروائی ‘ان سبھی کا کوئی انجام تو ہونا چاہئے۔ اس کوڑھ زدہ زمین کو زرخیز اور سیراب کرنے کے لیے من مانی کی طرز حکمرانی پر نظر ثانی کرنا ہوگی ۔پون صدی کی بدعہدیاں ہوں یا بداعمالیاں ۔ان سبھی کے ازالے اور مداوے کے لیے مقتدر حلقوں کو کم از کم 10سے 15 سال پر محیط ریلیف پلان لانا ہو گا۔ بلا تمیزو لحاظ اور مصلحت ملک و قوم کے مفادات کے عین مطابق عملی اقدامات کرنا ہوں گے اور رکاوٹ پیدا کرنے والے عناصر کو ملک و قوم کا دشمن ڈکلیئر کر کے ریاستی رِٹ کو حرکت میں لانا ہو گا۔ تب کہیں جا کرکوڑھ زدہ زمین سیراب اور زرخیز ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں