لیڈر ہمارے عہد کے ایک بار پھر کنگال ہی پائے گئے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کے اخراجات ہمیشہ ان کے ادا کردہ ٹیکس کا منہ چڑاتے دکھائی دیتے ہیں۔ خدا جانے کیسے اور کیوں سیاست دانوں کے گوشواروں کو من و عن تسلیم کر لیا جاتا ہے‘ بلکہ ٹیکس بھی ان کی مرضی کی شرح اور سہولت کے مطابق وصول کیا جاتا ہے۔ یہ سبھی مراعات اور آسانیاںصرف ان سیاسی رہنماؤں کے لیے ہیں جن کی وسیع و عریض جائیدادوں سے لے کر کمپنیوں اور فیکٹریوں اور ملکی و غیرملکی کرنسی کے اکائونٹس اور لگژری گاڑیوں تک نہ کوئی شمار ہے نہ ہی کوئی انت۔ بے نامی جائیدادوں اور اکائونٹس کی تفصیل میں جائیں تو بات کہاں سے کہاں جا پہنچے گی۔ کس کس کا نام لیں‘ جتنا بڑا نام اتنا ہی معمولی اور حقیر سا ٹیکس۔ گویا نام بڑے اور درشن چھوٹے۔ ان کے روزمرہ کے اخراجات اور لائف سٹائل سے لے کر بچوں کے ملکی و غیر ملکی تعلیمی اداروں اور بیرون ملک سیر سپاٹوں تک اخراجات کا کوئی شمار نہیں‘ مگر ان کے ٹیکس دیکھیں۔ عام آدمی کو انکم ٹیکس کا نوٹس آ جائے تو دستاویزی ثبوت اور تمام تر وضاحتوں کے باوجود کئی کئی ہفتے جان نہیں چھوٹتی۔ کھاتوں میں دس دس‘ بیس بیس سال پرانے مردے آج بھی عام آدمی کو ہلکان کئے ہوئے ہیں۔ کوئی گاڑی بدل لے یا مکان‘ شادی بیاہ کے اخراجات سے لے کر دیگر تفصیلات تک سبھی کا ایسے حساب لیتے ہیں کہ حساب دینے والا سو بار حساب دے لے تو بھی متعلقہ ادارے کا حساب کتاب نہ اسے قبول کرتا ہے نہ ہی معافی ملتی ہے۔ خدا جانے ہماری سیاسی اشرافیہ کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے‘ کون سا الہ دین کا چراغ ہے‘ کون سی سلیمانی ٹوپی یا عمرو عیار کی زنبیل ہے‘ نہ ان کی دولت کے انبار کسی ادارے کو نظر آتے ہیں اور نہ ہی ان کے اربوں کھربوں کے کھاتے اور درجنوں کمپنیاں اور فیکٹریاں۔ ممکن ہے ان کے فراہم کردہ گوشوارے چوم کر آنکھوں سے لگا کر کہا گیا ہو کہ سرکار آپ کا یہ ٹیکس تو ہم بطور ہدیہ وصول کرتے ہیں‘ اصل وصولیاں تو عوام اور ان بے وسیلہ ٹیکس گزاروں سے کی جاتی ہیں جن کی ہم تک کوئی رسائی ہے اور نہ ہی کوئی اثر و رسوخ۔ آپ جو گوشوارے جمع کروائیں گے ہم انہیں سچ مان کر آپ کا ٹیکس وصول کریں گے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب نے کمال مہربانی کرتے ہوئے سرکاری خزانے میں دو ہزار روپے بطور ٹیکس جمع کروائے ہیں۔ اسی طرح احسن اقبال نے 55 ہزار اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے 66 ہزار روپے ٹیکس دیا ہے۔ آصف علی زرداری نے 'سب پہ بھاری‘ ہونے کے باوجود نے صرف 22 لاکھ روپے ٹیکس دے کر متعلقہ ادارے کا مان اور سمان بڑھایا ہے۔ اُن کے صاحبزادے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ملک و قوم پر کمال مہربانی کرتے ہوئے تقریباً پانچ لاکھ روپے ٹیکس دیا ہے جبکہ زرداری صاحب اور صاحبزادے کی سکیورٹی اور پالتو جانوروں پر اٹھنے والے اخراجات ان کے دیے ہوئے ٹیکسز سے سینکڑوں گنا زیادہ ہوں گے‘ جن کا حساب نہ سندھ حکومت کے پاس ہے نہ ہی خود ان کے پاس۔
شہباز شریف صاحب نے بھی ارب پتی ہونے کے باوجود ٹیکس کی مد میں تقریباً 82 لاکھ روپے دے کر سیاسی اشرافیہ میں خود کو ممتاز رکھا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے صرف آٹھ لاکھ روپے بطور ٹیکس جمع کروا ئے۔ فواد چوہدری نے دو لاکھ روپے ٹیکس ادا کر کے قومی خزانے کا حوصلہ بڑھایا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کے بارے تبصرے کے بجائے احتیاط اور اختصار ہی بہتر ہے۔ وزیر اعظم عمران خان جو چند برس پہلے تک ایک دو لاکھ روپے ٹیکس دیا کرتے تھے، اُنہوں نے سال 2019ء میں تقریباً 98 لاکھ روپے ٹیکس دیا۔ یہ معمہ حل طلب ہے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد ان کی آمدنی میں اضافہ کیسے اور کن ذرائع سے ہوا؟ تاہم یہ امر باعثِ اطمینان اور قابلِ تعریف ہے کہ وزیر اعظم نے اپنی بڑھتی ہوئی آمدنی پر ٹیکس ادا کیا ہے۔ یہ سوال بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ تین سو کنال کے گھر میں ضرور رہتے ہیں اور اُن کا مالی طور پر شریف خاندان اور زرداری خاندان سے کوئی موازنہ نہیں بنتا لیکن شہباز شریف اور آصف علی زرداری ٹیکس دینے میں خان صاحب سے پیچھے کیوں ہیں؟
شاہد خاقان عباسی نے سال 2019ء میں 48 لاکھ 71 ہزار رویے ٹیکس دیا جو گزشتہ سال سے بہت کم ہے۔ ایک سال قبل اُنہوں نے 22 کروڑ روپے ٹیکس دیا تھا۔ یہ معمہ حل طلب ہے کہ جب وہ وزیراعظم تھے تو اُن کے ذرائع آمدن کیا تھے کہ 22 کروڑ ٹیکس دیا لیکن ایک سال بعد اُن کی آمدنی کیسے کم ہوئی کہ ٹیکس کا حجم اتنا معمولی ہوگیا۔ خسرو بختیار صاحب جیسے امیرکبیر وفاقی وزیر نے‘ جو ارب پتی خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں‘ صرف ڈیڑھ لاکھ روپے دے کر ٹیکس نظام کو ہی مشکوک اور جانبدار کر ڈالا ہے۔ جہاں ٹیکس کی ادائیگی پہ بھی سیاستدانوں کی اجارہ داری ہے وہاں ایسے اراکین اسمبلی بھی موجود ہیں جن کی ٹیکس ادائیگیوں کا حجم اور شرح نذرانے اور تبرک دینے والوں کو بے نقاب اور شرمسارکرنے کے لیے کافی ہے۔ سب سے زیادہ ٹیکس پی ٹی آئی کے ایم این اے نجیب ہارون نے 14 کروڑ 7 لاکھ 49 ہزار 768 روپے جمع کرایا، اُن کی آمدن ایک ارب 87 کروڑ 66 لاکھ 3ہزار 573روپے تھی، طلحہ محمود نے تین کروڑ 22 لاکھ 80 ہزار 549 روپے‘ شیخ فیاض الدین نے دوکروڑ 81 لاکھ 70 ہزار 518 روپے، شیخ علائوالدین نے دوکروڑ 8لاکھ 73ہزار 316روپے، ممتاز علی نے دو کروڑ 96لاکھ 78ہزار 697روپے ٹیکس دیا۔
پارلیمنٹ کے ارکان کی ٹیکس ڈائریکٹری کو دیکھ کر اس امر کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے کہ ایف بی آر کو ہر حال میں حکمرانوں اور ارکانِ اسمبلی کے ٹیکس ریٹرنز کا آڈٹ کرنا چاہیے‘ جس طرح عوام کو کھنگالتے ہیں‘ تب کہیں جاکر ٹیکس چوری کا تدارک ہوسکے گا۔ سیاسی اشرافیہ کا تعلق حزبِ اقتدار سے ہو یا حزبِ اختلاف سے‘ سبھی میں لاکھ اختلافات اور عناد کے باوجود ایک قدرِ مشترک ہے اور سبھی اس پر متفق ہیں کہ آمدنی اور اثاثوں کے مطابق ٹیکس ہرگز نہیں دینا‘ البتہ قومی خزانے میں چھوٹی چھوٹی رقمیں جمع کروا کر ٹیکس دہندگان کی فہرست میں نہ صرف شامل رہتے ہیں‘ بلکہ انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام لکھوا لیتے ہیں۔
حکومت پاکستان اپنے معاملات چلانے کیلئے ہر روز تقریباً چودہ ارب روپے کا قرضہ لینے پر مجبور ہے اور مملکت خداداد پر شوقِ حکمرانی پورا کرنے سے لے کر مال بنانے اور موجیں مارنے والے 'سماج سیوک‘ نیتا ان اثاثوں اور آمدنیوں پر ٹیکس دینے سے بھی گریزاں ہیں جو روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں‘ قطعی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ جب تک سیاسی اشراف حقیقی ٹیکسز نہیں ادا کریں گے جو اُن پر لاگو اور واجب الادا ہیں اس وقت تک نہ محصولات کا ہدف پورا ہوگا اور نہ ہی ٹیکس کلچر پروان چڑھے گا۔ یوں اربوں کا یومیہ قرض کھربوں تک جا پہنچے گا۔ نذرانے اور تبرک نہیں حقیقی اور واجب الادا ٹیکس ادا کرنا ہوں گے ورنہ چل سو چل تے مک مکا اور بلے بلے سے کام تو چل ہی رہا ہے‘ مگرایسا کب تک چلے گا؟