دلخراش کہوں یا قیامت خیز لکھوں ۔ سانحہ ہے یا کوئی حادثہ ۔ کلیجہ ہے کہ پھٹا چلا جارہا ہے۔ اعصاب شل اور حواس گم ہوچکے ہیں۔ عقل حیران اور منطق پریشان ہے ۔ڈھونڈے سے بھی الفاظ دستیاب نہیں جو اِس المیہ پر چار سطریں لکھنے میں مدد فراہم کرسکیں ۔یہ کیسا المیہ ہے ؟ یہ کیسی قیامت ہے کہ قلم سے نکلنے والی سیاہی بھی آنسو بن کر کاغذ کو بھگوئے چلے جارہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے الفاظ دھاڑیں ماررہے ہوں۔ہر سطر سے خون ٹپک رہا ہو۔ اعراب آبلہ پا ہوں اور پورا کالم ہی سینہ کوبی پر آمادہ ہو۔ہر طرف ماتم کا سماں ہے۔یخ موسم میں سوگوار فضا کرب اور درد کو مزید کربناک اور دردناک بنائے چلے جارہی ہے۔لگتا ہے کہ دُور کہیں روحیں احتجاج کررہی ہیں۔ان ناحق مرنے والوں کی روحیں بین کررہی ہیں کہ ہم تو ہنسی خوشی برف باری اور سرد موسم کا مزہ لینے کے لیے سیاحتی مقام کی طرف گھر سے نکلے تھے۔پھر ہمیں ایک دوسرے کو مرتے ہوئے دیکھنے کی اذیت سے کیوں گزارا گیا؟ باپ کے سامنے اولاد اور بہن کے سامنے بھائی اور ان سب کے سامنے باپ بے بسی کے کس مقام پر ہوگاکہ وہ کچھ کرگزرے کہ اپنے پیاروں کواس طرح لمحہ لمحہ‘قطرہ قطرہ موت کے منہ میں جانے سے بچا لے۔ سرد راہوں میں پڑے بے یارو مددگار مارے جانے والوں کو کیا معلوم تھا کہ حکومت جس سیاحت کو فروغ دے رہی ہے‘ وہ موت کا جال بن جائے گی۔
ابھی چندروز قبل ہی ایک وفاقی وزیر موسم سرما میں سیاحتی مقامات کا رُخ کرنے والے شائقین کو خوشحالی اور معاشی استحکام کا رنگ دینے کی کوشش میں ایک فخریہ ٹویٹ بھی کرچکے ہیں جو من عن پیش ہے: ''مری میں ایک لاکھ کے قریب گاڑیاں داخل ہو چکی ہیں‘ہوٹلوں اور اقامت گاہوں کے کرائے کئی گنا اوپر چلے گئے ہیں‘ سیاحت میں یہ اضافہ عام آدمی کی خوشحالی اور آمدنی میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے اس سال سو بڑی کمپنیوں نے 929 ارب روپے منافع کمایا‘‘۔ وزیر موصوف کی ٹویٹ کے مطابق رواں سیزن میں جو اربوں روپیہ سیاحت کی وجہ سے سرکولیشن میں آیا اگر اس کا چند فیصد بھی سیاحوں کی سہولت اور آسانی کے لیے خرچ کردیا جاتا تو شاید سرد راہوں پر بے یارومددگار کھلے آسمان تلے سیاحوں کی لاشیں نہ پڑی ہوتیں۔ محکمہ سیاحت کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے‘اتنا بڑا سانحہ ہونے کے باوجود ان کے آفیشل سوشل میڈیا پیج پر دعوتِ سیاحت تادم تحریر جاری ہے‘ مگرسیاحوں اور شائقین کے لیے نہ کوئی موسمی الرٹ اور اپ ڈ یٹ کا اہتمام ہے اور نہ ہی اس سانحہ کے بعد ناحق مارے جانے والوں کے لواحقین کے لیے کوئی اطلاعی نظام۔ برفباری کے شوق میں ملکۂ کوہسار کا رُخ کرنے والوں کی حماقت کی ذمہ داری بھی براہ راست حکومت اور متعلقہ انتظامی اداروں پرہی عائد ہوتی ہے۔مری جانے والے کوئی سلیمانی ٹوپیاں پہن کر وہاں نہیں جا گھسے تھے اور نہ ہی وہ پیرا شوٹ کے ذریعے کہیں فضا سے کودے تھے ۔یہ سبھی سیاح راولپنڈی اور اسلام آباد کی حدود سے گزر کر ہی وادیٔ موت کی طرف روانہ ہوئے تھے۔
اسے حادثہ کہیں یا سانحہ۔ایک بات طے ہے کہ اس کی پرورش ہم نے برسوں کی ہے ۔ ہر سال مری اور گلیات جانے والے شائقین اور سیاحوں کی تعداد گنجائش سے سینکڑوں گنا زیادہ ہوتی ہے مگر یہاں کسی بڑے سانحہ اور المیہ کے رونما ہونے تک پیش بندی کا سوچنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔چھوٹے موٹے حادثات سمیت بدمزگی اور لوٹ مار کے ناخوشگوار واقعات کو معمول کا واقعہ تصور کیا جاتا ہے۔ ان واقعات کونہ کبھی سرکار نے سنجیدہ لیا اور نہ ہی من موجی عوام نے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عوام اور سرکار کے درمیان کوئی مقابلہ جاری ہے۔ بالآخر یہ مقابلہ سرکار جیت چکی ہے اور عوام درجنوں قیمتی جانوں کی بازی ہار چکے ہیں۔ ایسی ہار جیت میں ہار ہمیشہ عوام کا مقد ربنتی ہے۔باتیں اور دعوے آسمان سے اونچے کئے جاتے ہیں‘دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔دنیا پر راج کرنے والے سبھی ترقی یافتہ ممالک اس برف باری سے پورا سال نمٹتے اور کھیلتے ہیں۔روز صبح کام کاج کے آغاز سے پہلے برف صاف کی جاتی ہے۔کاروبارِ زندگی معمول کے مطابق چلتا ہے اور ان کی کارکردگی اور ترقی کے راستے میں یہ برف نہ کبھی حائل ہوئی نہ ہی رکاوٹ کا جواز بنی۔
مری اور گلیات میں ریسکیوانتظامات ہمیشہ ہی کم رہے ہیں اور ہر حادثے کو موسم اور قدرت کے کھاتے میں ڈال کر حکمران اور انتظامیہ بری الذمہ ہوتے چلے آرہے ہیں۔ہرسیزن میں اربوں روپے کمانے والے علاقہ جات میں شہری سہولیات سے لے کر قانونی و سماجی تحفظ اور موسمی و قدرتی آفات سے بچائو کے لیے کیے جانے والے اقدامات آج بھی شرمناک ہیں۔ مری اور گلیات میں داخلے سے لے کر طعام و قیام سمیت سبھی معاملات میں سیاحوں اور شائقین کو مافیاز کا سامنا رہتا ہے۔کہیں سرکار خود مافیا کے ساتھ دکھائی دیتی ہے تو کہیں مافیاز کی سہولت کار ۔متعلقہ ادارے اور انتظامیہ اگر سیزن کمائو مال بنائوپروگرام کا حصہ نہ بنیں تو ایسے حادثات اور سانحات سے بچا جا سکتا ہے ۔
آخری اطلاعات تک وزیراعلیٰ پنجاب نے متاثرہ علاقے کا فضائی جائزہ لیا ہے جبکہ مری میں شدید برفباری کے باعث مرکزی سڑکوں پر پڑی برف ہٹانے اور راستوں کو کلیئر کرنے کا کام زیادہ تر مکمل کر لیا گیا ہے۔ کاش یہ فیصلے بروقت کئے گئے ہوتے۔ یہ ہیلی کاپٹر اور وسائل ایک رات قبل استعمال کرلیے جاتے‘ ان لوگوں کی سسکیوں اور آہوں کو محسوس کرلیا جاتا جو کھلے آسمان تلے خون جما دینے والی سردی میں اپنے سامنے ایک دوسرے کو مرتا دیکھ رہے تھے۔ جب انہیں یہ معلوم ہوا ہو گا کہ سبھی جان سے پیارے ایک دوسرے کے سامنے ہی دم توڑیں گے‘ اس منظر نامے کے کرب کا بیان میرے بس میں نہیں۔
شدید سردی میں کتنی لاشیں
برائے تدفین منتظر ہیں
حضورِ والا محل کی گرماہٹوں سے نکلیں
چلو تحفظ نہیں دلاسا تو دیتے جائیں
وہ بیٹیاں بہنیں اور مائیں
شدید صدمے سے منجمد ہیں
وہ منجمد ہیں جنابِ عالی
کسی کے کاندھے پہ ہاتھ رکھیں
کسی کی آنکھوں سے اشک پونچھیں
وزیر اعظم ہیں آپ اُن کے
جناب ہیں مائی باپ اُن کے
اگر یہ ممکن نہیں تو صاحب
انہیں اجازت ملے کہ کتبوں پہ اتنا لکھ دیں
یہ دورِ بے حسی کے شہری
اِن کی قاتل بھی بے حسی ہے