حکمران اور عوام اسی کیفیت میں مبتلا ہیں جو ہر سانحے اور المیے کے بعد ان سب پر کچھ عرصہ طاری رہتی ہے۔عوامی حلقوں میں مری کا بائیکاٹ کرنے کا ٹرینڈ چل رہا ہے جبکہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے مری میں اوور چارجنگ کو لوٹ مار قرار دیا ہے۔ وہ لوٹ مار پراب بھلے برہمی کا اظہار کریں یا نوٹس لیتے رہیں‘ان کے اقدامات اور اعلانات سے کچھ واپس آنے والا نہیں۔ ناحق مارے جانے والوں کی روحیں بھی حکمرانوں کی آنیوں جانیوں اور یکجہتی کے نمائشی مناظر دیکھ یقینا بین کرتی ہوں گی۔اگر یہی سبھی کچھ کرنا تھا توچند روز پہلے ہی کرلیتے۔ یہ سبھی اقدامات کرنے کے لیے کیا لاشوں کے انبار ضروری تھے؟ جن کی دنیا اجڑنی تھی اجڑ گئی‘جن کا چین لٹنا تھا لٹ چکا۔لٹنے اور اجڑنے کا یہ کھیل ہر دور میں اسی ڈھٹائی اور بے حسی سے جاری رہا ہے۔اجڑنا اور لٹنا عوام کا مقدر ہی کیوں ؟ یہ فیصلہ ساز‘ صاحبانِ اقتدار ‘ صاحبانِ اختیار ‘یہ سب کس مرض کی دوا ہیں؟
حکمران کوئی مسیحا نہیں ہوتا جو مُردوں کو زندہ کردے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی معجزہ ہوتا ہے۔اس کا معجزہ اور مسیحائی اس کی مردم شناسی‘ فیصلہ سازی‘ ویژن اور گورننس ہی ہوتی ہے۔مُردوں کو بھلے زندہ نہ کرسکے‘ لیکن اس کی گورننس اور فیصلوں کی وجہ سے نہ کوئی ناحق مرے اور نہ ہی کسی کو جیتے جی زندہ درگور ہونا پڑے۔ ہلاکت سے بچانا ہی مسیحائی ہے۔عوام کو لاعلاج مرض سے دوچار کرکے کس منہ سے چارہ گر بنے پھرتے ہیں اور جب چارہ گرہی چارہ گری سے گریزاں ہو تو کیسی حکمرانی اور کہاں کی چارہ گری؟ بدانتظامی ہو یا بد نیتی ‘کوتاہی ہو یا غفلت‘سبھی کے اثراتِ بد کا سامنا عوام کو ہی کیوں کرنا پڑتا ہے؟بدقسمتی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ سبھی مردم شناسی اور گورننس جیسی بنیادی خصوصیات سے نہ صرف عاری پائے گئے ہیں بلکہ ان خصوصیات کے برعکس اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر ڈٹے دکھائی دیتے ہیں کہ ان سے بڑھ کر کوئی عقلمند نہیں۔
خون جما دینے والی سردی اورجاں لیوا برف پر جنم لینے والے ہولناک المیے کو بھی وقت کی گرد ڈھانپ دے گی۔ ویسے بھی ہمارے ہاں سانحات کا پورا شہر خموشاں آباد ہے جہاں نجانے کیسے کیسے حادثات اور دل دہلادینے والے المناک واقعات کی قبریں قطار در قطار بن چکی ہیں۔ سقوط ڈھاکہ جیسے سانحہ سے لے کر سانحہ مری تک ہم سبھی کو رضائے الٰہی سمجھ کر قومی سانحات کے شہر خموشاں کی آبادی میں اضافہ اور ہربار نئی قبر بنا کر کسی نئے سانحہ کی پرورش کرتے چلے آرہے ہیں۔نیتِ بد اور دلوں کے کھوٹ کے باوجود سب کچھ رضائے الٰہی سے منسوب کرکے بگڑے ہوئے نصیبوں کو مزید بگاڑنے کے لیے کیسے کیسے تجربات اور حیلے کرتے چلے آرہے ہیں۔کئی بار عرض کرچکا ہوں کہ مملکتِ خداداد کی سیاسی اشرافیہ ہو یا انتظامی ‘ عوام الناس ہوں یا خواص سبھی کے مابین کانٹے دار مقابلہ جاری ہے کہ کون کتنا بڑا سیاہ کار اور ریاکار ہے۔ ماضی کا کوئی حادثہ ہو یاسانحہ‘سیلاب اور زلزلے جیسی کوئی ناگہانی آفت ہویا کوئی اور قدرتی آفت سبھی کی انسانیت برابر بے نقاب ہوتی چلی آئی ہے۔بے یارومددگار لاشوں کے زیور اور گھڑیاں اتارنے سے لے کر ان کی جیبیں ٹٹولنے تک۔ امدادی رقوم اور سامان میں خوردبرد اور بددیانتی سے لے کر بندر بانٹ تک۔ اشرافیہ اور عوام سبھی کے شرمناک کارنامے ریکارڈ اور تاریخ کا حصہ ہیں۔ کس کس کا رونا روئیں۔ان کی اخلاقیات سے لے کر معاشیات تک سبھی لیر و لیر دکھائی دیتا ہے۔ بے حسی ‘ ڈھٹائی اور سفاکی کی یہ داستان اس قدر شرمناک اور دردناک ہے کہ نجانے ایسے کئی کالم بھی ناکافی ہوں۔
نسل در نسل ملک پر کوئی دانت گاڑے ہوئے ہے تو کوئی پنجے جمائے ہوئے ہے۔ کوئی چونچ سے کتر رہا ہے تو کوئی جبڑے سے چیرپھاڑ کر رہا ہے۔کسی کا طرز حکمرانی خون پینے کے مترادف ہے تو کوئی منافرت پھیلا کر خون چوس رہا ہے۔ کوئی وسائل کو بھنبھوڑ رہا ہے تو کوئی ذاتی فائدوں کے لیے مسائل سے دوچار کیے چلا جا رہا ہے۔ کوئی فکری طور پر تباہ و برباد کررہا ہے تو کوئی نفسیاتی طور پر پارہ پارہ کررہا ہے۔ اس زمین پر دندناتے پھرتے یہ سبھی کردار اگر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بھی ہو جائیں تو خون دھرتی ماں کا ہی پیتے ہیں۔ دھرتی کا خون پینے کی لت میں ایسے لت پت ہیں کہ حرام حلال‘ جائز ناجائز سے بے پروا سب کچھ بھنبھوڑے چلے جا رہے ہیں۔کوئی شوقِ حکمرانی میں اپنے ایسے ایسے شوق پورے کیے چلا جا رہا ہے جو کبھی دیکھے نہ سنے۔
مسلسل سانحات اور حادثات سہتے سہتے زمین بھی غم اور صدمے سے صرف نڈھال ہی نہیں ماتم اور بین بھی کرتی ہو گی کہ اس کے سینے پر کیسی کیسی قیامتیں برپا کی جا رہی ہیں۔ کیسے کیسے انسانی اور قومی المیے مقدر میں لکھ دیے گئے ہیں جن کا کوئی انت ہی نہیں۔ اب تو کہیں آسمان گرتا ہے اور نہ ہی زمین پھٹتی ہے۔ شاید زمین اور آسمان بھی تھک چکے ہیں۔ آسمان کہاں کہاں گریں اور زمین کہاں کہاں پھٹے؟ چشم فلک بھی شاید پتھرا چکی ہے۔ دلخراش واقعات سے لے کر المناک سانحات تک‘ بربریت سے لے کر حشر اٹھانے تک کیسے کیسے صدمات ملک و قوم کا نصیب بن چکے ہیں۔ ہر طرف افراتفری‘ نفسانفسی‘ مارو مار اور اُدھم کا سماں ہے۔
ملول دل اور اداس طبیعت کے ساتھ گھنٹوں اکثر عجیب و غریب سی کیفیت کا سامنا رہتا ہے۔ کوئی ڈپریشن ہے یا کوئی ناسٹیلجیا‘ اور یہ خیال تو دل کا کام تمام ہی کیے دیتا ہے کہ اس دھرتی پر کیسا کیسا کہرام مچایا جا رہا ہے۔ ان کیفیات میں پیدا ہونے والے وسوسے ہوں یا واہمے یہ سبھی کیسے کیسے اندیشوں اور خدشات سے دوچار کر ڈالتے ہیں۔ کیا اعلیٰ کیا ادنیٰ‘کیا حاکم کیا محکوم ‘کیا آجر کیا اجیر‘ سبھی اس دھرتی سے خدا جانے کون سا خراج وصول کر رہے ہیں۔ کوئی حکمرانی کے نام پرتو کوئی مسیحائی کے نام پر‘کوئی دادرسی کے نام پر تو کوئی دلجوئی کے نام پر۔سبھی اپنا اپنا حصہ ‘اپنا اپنا خراج اور اپنا اپنا تاوان وصول کیے چلے جارہے ہیں۔خدا جانے ا نہیں اس دھرتی سے خدا واسطے کا بیر ہے یا یہ کوئی خدائی قہر ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے سانحہ مری پر ہنگامی دورے اور اجلاس شروع کرڈالے ہیں لیکن لگتا ہے کہ سرکاری بابوئوں نے انہیں اس طرح الجھایا اور ڈی ٹریک کیا ہے کہ اگر مری ضلع ہوتا توشاید یہ دلخراش واقعہ پیش نہ آتا کیونکہ ضلع میں ایک ڈپٹی کمشنر ہوتا ہے اور ایک ڈسٹرکٹ پولیس افسر اور یہ دونوں مل کرملکہ کوہسار میں پیش آنے والے ہولناک سانحے کو روک سکتے تھے۔سرکاری بابوئوں نے وزیراعلیٰ کواس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا ہے جس کی کوئی منزل ہی نہیں ۔مری کو ضلع بنانے سے پہلے‘ پہلے سے موجود اضلاع تو ٹھیک طریقے سے چلا لیں۔صوبائی دارالحکومت سمیت بڑے اضلاع میں کارکردگی کے جو چوکے چھکے لگائے جارہے ہیں ان کی روشنی میں مری کو ضلع بنانے کی یہ اختراع محض ڈھونگ اور ذمہ داری سے فرار کے سوا کچھ نہیں۔سانحہ کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے بجائے سرکاری بابو نیا جگاڑ لگانے کے چکر میں ہیں۔نیا ضلع بنے گا‘خطیر فنڈز آئیں گے‘سرکاری دفاتر بنیں گے‘افسران کی رہائش گاہیں بنیں گی۔بڑے افسران تعینات ہوں گے۔ان سبھی کی نئی شکارگاہ تیار ہوگی۔موجیں ہی موجیں ۔ المیہ یہ کہ وزیراعلیٰ ان بابوئوں کے چکر میں آکر بڑے فیصلے کرچکے ہیں اور مگر گزرتے پل کے ساتھ یہ بھی وقت کی دھول میں دب کر اسی شہر خموشاں کا حصہ بن جائے گا ۔ناحق مارے جانے والوں کی روحیں بھٹکتی اور بین کرتی رہیں گی۔گویا ایک اور قبر کا اضافہ۔