طرزِ حکمرانی صدارتی ہو پارلیمانی‘جمہوری ہو یا غیر جمہوری‘ برسراقتدار سیاسی رہنما ہو یاکوئی آمر‘عوام کا اس بحث سے کیا لینا دینا؟ عوام تو طرزِحکمرانی کے کم وبیش سبھی روپ بہروپ دیکھ ہی چکے ہیں۔انہیں تو بس وہ موافق نظام چاہیے جو آج تک سبھی دعووں اور وعدوں کے باوجود رائج نہ ہوسکا۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے ؟ عوام سے مینڈیٹ لے کر برسراقتدار آنے والوں پر اختیارات اور طاقت کا ایسا نشہ سوار ہوتا ہے کہ اچھا خاصا جمہوری حکمران آمر بنتا چلا جاتا ہے۔آمر بننے کی ایکٹنگ ہویا کوشش دونوں صورتوں میں اسے ہمہ وقت اپنے ارد گرد یس باس کہنے والے ہی درکار ہوتے ہیں۔حکمرانوں کے اسی مائنڈ سیٹ کی وجہ سے خوشامدی‘ چاپلوس اور زمینی حقائق کے برعکس سب اچھا کی رپورٹ دینے والے اکٹھے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح برسر اقتدار آنے والے آمر حکمرانوں کو اس طرح جمہوری نما بننے کا شوق چڑھتا رہا ہے کہ بس کہیں سے یہ تاثر اجاگر نہ ہو کہ ملک میں جمہوری حکومت نہیں ہے۔ اس تاثر کو برقرار رکھنے اور آمریت کے تاثر کی نفی کی کوشش میں کبھی شیروانی زیب تن کرتے رہے ہیں تو کبھی بلاجواز ریفرنڈم کروا کرآمریت میں جمہوریت کا تڑکا لگاتے رہے ہیں۔
باس کی نفسیات اور خواہشات کے مطابق رپورٹوں سے لے کر بریفنگ اور ڈی بریفنگ تک یہی احتیاط کی جاتی ہے کہ ایسی کوئی اطلاع باس کو فراہم نہ کی جائے جو باس کی طبیعت کے لیے ناگوار ہو یا موڈ خراب ہوجائے۔صاحب کا موڈ ٹھیک رکھنے کے لیے حقائق مسخ کرنے سے لے کر من چاہے فیصلے کروانے تک یہ سبھی کاریگر کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے۔بھلے اس کے نتائج حکومت کے خلاف جاتے ہوں یا عوام کے‘ان کی بلا سے۔انہیں تو بس باس کو خوش اور راضی رکھنا ہوتا ہے۔ان سبھی خدمات کے عوض باس کی طرف سے کھل کھیلنے کی نہ صرف آزادی حاصل رہتی ہے بلکہ دائو لگنے پر وہ اپنا اُلو سیدھا کرنے کے چکر میں حکومتی ساکھ اور استحکام بھی دائو پر لگا جاتے ہیں۔ ایسے کرداراور چہرے ہر دور میں حکمرانوں کے گردایسا جھرمٹ لگائے رکھتے ہیں کہ باس کو نہ کچھ دکھائی دیتا ہے اور نہ سجھائی۔
صدارتی نظام کا شوشہ سیاسی سرکس کا ٹاپ آئٹم بنتا چلا جارہا ہے۔یہ بات توطے ہے کہ پارلیمانی طرز ِحکمرانی نہ صرف مہنگا ترین ہے بلکہ قوم اب اس طرز ِحکمرانی کا مالی بوجھ اٹھاتے اٹھاتے بد حال اور ہلکان ہوتی چلی جارہی ہے جبکہ اسمبلیوں میں بیٹھے عوامی نمائندے ہوں یا ایوان چلانے والے سپیکر حضرات ‘سبھی کی کارکردگی ظاہر و باہر ہے۔ ملک و قوم کے خزانے سے تنخواہیں اور مراعات لینے والے یہ لوگ عوام کو جواباً نہ کچھ لوٹا پائے ہیں نہ ہی آئندہ کوئی امکان اور آثار نظر آتے ہیں۔ قانون سازی اور مفادِ عامہ کے لیے بنائے جانے والے ایوانوں کے اجلاسوں میں لگائے جانے والے تماشے ان کی کارکردگی اور ترجیحات واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اگر کارکردگی پر لکھنا شروع کروں تو ایسے درجنوں کالم بھی ناکافی ہیں تاہم اختصار اور احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ ملک و قوم کے کندھے اب اپنے عوامی نمائندوں کے اللوں تللوں کا بوجھ اٹھانے سے عاجز اور قاصر ہیں۔
متبادل طرز ِحکمرانی کی باتیں دل کو لبھانے اور عوام کو نئے خواب دکھانے کے لیے تو ٹھیک ہیں لیکن کیا گارنٹی ہے کہ نیا نظام حکومت عوام کے ان دکھوں اور مسائل کا مداوا کرسکے گا جن کے لیے عوام روزِاول سے دھوکے پہ دھوکا کھاتے چلے آرہے ہیں ‘کیونکہ چہرے بھی وہی ہیں‘ شخصیات بھی وہی ہیں‘خاندان بھی وہی ہیں اور نسل در نسل بدلتے حکمران بھی وہی ہیں۔ اصل مسئلہ تو نیت ارادوں اور ترجیحات کا ہے۔ جب ان سبھی میں کھوٹ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو تو طرزِ حکمرانی موجودہ ہو یا نیا‘ عوام کی حالت ِزار کیسے بدل سکتی ہے ؟
جہاں حال ماضی سے بدتر ہو تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کا آسیب کردار اور چہروں کی تبدیلی کے باوجود ہمارے حال کے ساتھ ساتھ مستقبل کو بھی جکڑے ہوئے ہے۔ماضی اور حال مستقبل کا آئینہ ہوتے ہیں‘ بد قسمتی سے ملک و قوم کا مستقبل ماضی اور حال سے مختلف نظر نہیں آ رہا۔ گویا وہی چال بے ڈھنگی‘ جو پہلے تھی سو اَب بھی ہے۔ پہلا قدم ہی دوسرے قدم کی منزل اور سمت کی نشاندہی کرتا ہے‘ مملکتِ خداداد کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے اس کا بخوبی اندازہ لگانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ ماضی کی خرابیاں کئی گنا اضافوں کے ساتھ بدستور جاری ہیں۔ حال کی بد حالی آنے والے وقت کا منہ چڑاتی ہے۔ ہمارے ارادوں سے لے کر نیتوں تک‘ معیشت سے لے کر گورننس اور میرٹ تک‘ سماجی انصاف سے لے کر قانون کی حکمرانی تک‘ تجاوزات سے لے کر احتساب تک‘ ملکی وقار سے لے کر غیرتِ قومی تک‘ ذاتی مفادات سے لے کر مذموم عزائم تک‘ مصلحتوں اور مجبوریوں سے لے کر بد انتظامیوں اور بد عنوانیوں تک‘ سبھی ملک و قوم کے مستقبل کے چلتے پھرتے عکس ہیں جو مستقبل کا منظرنامہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
عوام کوکسی بھی طرزِ حکمرانی سے ہرگز کوئی سروکار نہیں۔عوام تو بس اس جبرِ مسلسل سے رہائی اور پناہ مانگتے ہیں جو نجانے کتنی صدیوں سے نسل در نسل جھیل رہے ہیں۔ اس طرزِ حکمرانی سے رہائی چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی زندگیاں اجیرن اور حالت ِزار بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے۔ عوام ہاتھ جوڑ کران سبھی ناکردہ گناہوں کی معافی کے طلبگا ہیں جو انہوں نے کبھی کئے ہی نہیں۔ خدا جانے کسی جرم کی پاداش ہے یا کن اعمال کی سزا جس کے نتیجے میں روزِ اول سے لمحۂ موجود تک عوام کیسے کیسے حکمرانوں کو اور ان کے شوق حکمرانی کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔عوام سے بدعہدیوں اور بے وفائیوں کے علاوہ ملک و قوم کے خزانوں کو بھنبھوڑنے اور وسائل پر ہاتھ صاف کرنے والے آج بھی موجیں مارتے نظر آتے ہیں۔ کوئی سہولت کاری کے عوض تو کوئی زباں بندی کے نتیجے میں زیراحتساب ہوکر بھی ناقابل ِگرفت اور ناقابلِ احتساب دکھائی دیتے ہیں۔کوئی از خود این آر او لیے پھرتا ہے تو کوئی غیر علانیہ۔عوام ان سبھی جرائم پر بھی این آر او چاہتے ہیں جو انہوں نے کئے ہی نہیں۔ عوام جینے کا حق اور پیٹ بھر روٹی کے سوا اور چاہتے ہی کیا ہیں۔ یہ اشرافیہ حزبِ اختلاف میں ہو یا برسرِاقتدار‘ عوام کے لیے عذاب ہی عذاب ہے۔ کبھی مہنگائی کا عذاب تو کبھی لوٹ مار کا‘ کبھی بدامنی کا عذاب تو کبھی بدعہدی کا۔ عوام کو کیسے کیسے عذابوں کا سامنا ہے۔ کہیں جھوٹی تسلیاں اور نمائشی دعوے تو کہیں بیانات کی جگالیاں۔ کہیں وعدوں سے انحراف ہیں تو کہیں نیتوں میں کھوٹ۔ دھوکے پہ دھوکہ کھاتے کتنی ہی دہائیوں سے بھٹکتے یہ عوام کس کس عذاب کا رونا روئیں؟ کب تک روئیں‘ یہ رونا تو اب ان کا مقدر بن چکا ہے۔
ہر آنے والا حکمران اپنے بدترین طرزِ حکمرانی پر نازاں اوریوں مطمئن نظر آتا ہے کہ گویا اس نے عوام کی ساری تکالیف نہ صرف دور کر ڈالی ہیں بلکہ وہ تمام خواب بھی شرمندۂ تعبیر کر دیے ہیں جواقتدار میں آنے سے پہلے عوام کوتواتر سے دکھائے جاتے رہے۔ اپنی بدعہدیوں اور بیڈ گورننس کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کو ٹھہراکر خود کو بری الذمہ ثابت کرنے کی کیسی کیسی توجیہات اور منطقیں گھڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ الغرض ہر دور میں عوام کی ذلت‘ دھتکار اور پھٹکار میں نہ صرف ریکارڈ اضافہ کرکے عرصۂ حیات بھی اس قدر تنگ کر دیا جاتا ہے کہ جابجا مایوسیوں کے سائے اور بے یقینی کے اندھے گڑھے ہی دکھائی دیتے ہیں۔
جب باس کا موڈ ٹھیک رکھنا نصب العین اورمن مانی طرزِ حکمرانی بن جائے توکوئی بھی نظام حکومت کیا کرے گا؟ جب تک نیت اور ارادے نہیں بدلتے طرز ِحکمرانی بدلنے سے نہ حالات بدلیں گے نہ دن بدلیں گے۔