ہم جس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہو گئی۔ تمام وسوسے‘ اندیشے اور خدشات توقع سے کہیں بڑھ کر پورے ہوتے چلے جارہے ہیں۔ کڑے احتساب کا بیانیہ ناصرف ڈھونگ ثابت ہوا بلکہ کسی سے کوئی خاص ریکوری بھی نہ ہوسکی۔ چور، ڈاکو، لٹیرا اور خائن ثابت کرنے کے لیے کروڑہا روپے کے اخراجات، سرکاری وسائل کا بے دریغ ضیاع کیا گیا اور ذاتی تشہیر حاصل کرنے کے لیے آئے روزدرجنوں مائک سجائے‘ کیسے کیسے سٹیج لگائے جاتے تھے۔ ملک و قوم کی لوٹی ہوئی دولت اندرونِ ملک ہو یا بیرونِ ملک‘ ہر صورت قومی خزانے میں واپس لانے کے دعوے کرنے والوں نے اتنا مہنگا احتساب کیا کہ سبھی اسیران سستے میں چھوٹتے چلے گئے۔ شہزاد اکبر صاحب کے استعفے پر مجھے قطعی حیرت اور تعجب نہیں ہے۔ نجانے کب سے کہے چلا جارہا ہوں کہ دیگر مشیران کی طرح مشیرِاحتساب بھی انصاف سرکار کے پائوں کی بیڑی بنتے چلے جائیں گے۔
ان کے ایجنڈے اور ان کی سرگرمیاں سبھی کو نظر آرہی تھیں۔ کھوکھلے بھاشن اور بے سر وپا دعوے بھی حکومت کے لیے روز بروز مشکلات پیدا کرنے کا باعث بنتے چلے آرہے تھے۔ سرکاری خرچ پر بین الاضلاعی دورے‘ روزانہ میڈیا بریفنگز‘ تام جھام، پروٹوکول، آنیاں جانیاں یہ سبھی کس کھاتے میں؟ زمینی حقائق کے برعکس وزیراعظم کو بریفنگ دینے سے لے کر عوام کو گمراہ کن اعداد و شمار بتانے والے مشیرِ احتساب کے غضب کا عالم یہ تھا کہ سبھی اداروں میں ان کا سکہ چلتا تھا۔ اکثر افسران اس قدر خود سر اور منہ زور ہوتے چلے جارہے تھے کہ وہ سوائے شہزاد اکبر کے کسی کو گھاس تک نہیں ڈالتے تھے۔ مشیرِ موصوف نے صرف احتساب کے عمل کو ہی نہیں بلکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے اور انسدادِ رشوت ستانی کے صوبائی اداروں کو بھی اپنی نیت اور ارادوں کی بھینٹ چڑھا ڈالا۔ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے پولیس کا محکمہ بھی ان کے نشانے پر رہتا تھا۔ غیر موزوں اور ناموافق افسران کی تقرری و تعیناتی سے لے کر کیسز پر اثرانداز ہونے تک سبھی کچھ کرگزرتے تھے۔ اہم کاروباری شخصیت کے ذاتی جہاز پر بین الاضلاعی دورے اور ہوشربا مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے والے خدا جانے احتساب کی باتیں کس منہ سے کرتے تھے۔
کس کس کا رونا روئیں؟ گورننس کا یا میرٹ کا؟ وزیروں کا یا مشیروں کا؟ وزیراعظم نے جن کی قابلیت اور مہارت سے متاثر ہوکر وزارتیں اور ادارے سونپے‘ ان سبھی کی کارکردگی مردم شناسی پر سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ ایک صاحب کو انرجی اور پٹرولیم کے ادارے یوں سونپ دیے گئے جیسے کوئی لوٹ کا مال ہو۔ ایک خاص ایجنڈے کے تحت ان کے دل میں پاکستانیت کا درد اٹھا تھا۔ بھلی چنگی اور منافع بخش الیکٹرک کمپنیوں میں انہوں نے من مرضی کے خوب کھیل کھیلے۔ میرے حالیہ کالم ریکارڈ پر موجود ہیں کہ یہ صاحب ایجنڈا پورا ہوتے ہیں اڑن چھو ہوجائیں گے۔
ایسے کتنے ہی کردار انصاف سرکار کی کشتی میں اپنا اپنا سوراخ کرکے چلتے بنے۔ ہر ایک کا یہی کہنا ہے کہ فلاں کا سوراخ میرے سوراخ سے کہیں بڑا ہے۔ پے در پے سوراخوں کے بعد کشتی اقتدار میں پانی داخل ہونا شروع ہوچکا ہے۔ ویسے بھی کشتیاں باہر کے پانی سے نہیں بلکہ اندر کے پانی سے ہی ڈوبتی ہیں۔ کشتی کے اندر جمع ہونے والا پانی کب خطرے کے نشان کو ڈبوتا ہے اس کا انحصار بھی انصاف سرکار کے فیصلوں اور اقدامات پر ہے۔ خدا جانے ان ''گھس بیٹھیوں‘‘ نے وزیراعظم کو کون سے سبز باغ دکھائے ہیں کہ وہ ان پر اس حد تک اعتبار کر بیٹھے ہیں کہ سبھی بیانئے اور دعوے منہ چھپائے پھرتے ہیں۔
مسلم لیگ قاف کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے ایک بار پھر وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ اپنے مشیروں اور ترجمانوں سے خبردار رہیں۔ یہ بھی خیال رہے کہ ان کے مشیر کس کی گیم کھیل رہے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین شریک اقتدار ہونے کے بعد مسلسل مشورے دیتے چلے آرہے ہیں اور اپنے اکثرتحفظات شیئر کرنے کے لیے خط بھی لکھ چکے ہیں۔ آج کل اپنی خرابیٔ صحت کی وجہ سے عملی سیاست اور فیصلہ سازی سے دوراور صرف مشورے دینے تک محدود ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں ہونے والی اکثر قانون سازی اور قرار دادوں سمیت اکثرمعاملات کو دیکھ کریہ احساس شدت سے بڑھ جاتا ہے کہ چوہدری شجاعت حسین کی علالت کے اثرات چوہدری برادران کے طرزِ سیاست اور فیصلہ سازی پر نمایاں نظر آتے ہیں۔
چوہدری برادران کا گلہ اور شکوہ اپنی جگہ‘ یہاں تو حکومتی جماعت کے ارکانِ اسمبلی سے لے کر وزرا تک سبھی بے وقعتی اور عدم توجہی کا شکار ہیں۔ عوام کے ووٹ لے کر آنے والے سبھی حکومتی نمائندے اپنے حلقوں میں جانے سے گریزاں ہیں۔ نہ تو وعدے پورے ہوسکے نہ دعوے۔ ساری بڑھکیں ان شعلہ بیانیوں میں بھسم ہو کر رہ گئیں جو برسر اقتدار آنے سے پہلے کبھی کنٹینر پر تو کبھی دھرنوں میں کی جاتی رہیں۔ وزیراعظم صاحب امورِ حکومت میں اس قدر مصروف ہیں کہ ان کے پاس مشورے سننے کا وقت ہے نہ ہی تحفظات پر غور کرنے کا؛ تاہم کوئی شریکِ اقتدار حلیف بلیک میلنگ پر آمادہ نظر آئے تو اس کی بات اور مطالبات مان لیے جاتے ہیں۔
پرویز خٹک صاحب کی اختلافی رائے نجانے کب سے ان کے اندر پلتی چلی آرہی تھی۔ غیر منتخب مشیروں کا غلبہ اور اجارہ داری انہیں اس نہج پر لے آئی کہ وہ وزیراعظم کی موجودگی میں پھٹ پڑے۔ یہ لاوا پھٹنا اب شروع ہوچکا ہے۔ آنے والے وقتوں میں مزید کئی وزرا اور ارکان اسمبلی سراپا احتجاج نظر آئیں گے۔ اقتدار کی کثیر مدت گنوانے کے بعد سبھی پر گھبراہٹ طاری ہے کہ الیکشن سرپر آچکے ہیں اور حالات یہ ہیں کہ انتخابی حلقوں میں جانے سے سبھی گریزاں اور راہِ فرار اختیار کیے ہوئے ہیں کیونکہ عوام گلے پڑتے ہیں اور برسراقتدار ہونے کے باوجودنہ کہیں شنوائی ہے اور نہ ہی کوئی سننے کو تیار۔
ساتھی وزرا بھی گروپنگ کا شکار اور ایک دوسرے کو رد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کا مرحلہ آن پہنچا ہے جبکہ دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں کہ جب تک وزیراعظم ہائو س میں ایک سرکاری بابو کا سکہ قائم اور چل رہا ہے‘ انصاف سرکار میں دھڑے بندی انتشار اور باہمی اختلافات یونہی جاری رہیں گے۔ اکثر وفاقی وزرا اور اعلیٰ بیوروکریسی‘ سب اس سرکاری بابو کے آگے بے بس اور لاچار دکھائی دیتے ہیں جبکہ نجانے کتنے وزیروں اور مشیروں سمیت سرکاری افسران کی موجیں بھی وزیراعظم ہائوس میں انہی کی مرہونِ منت ہیں۔ یہ ان کی مرضی ہے کہ جسے چاہے رد کردیں جسے چاہے روانہ کردیں۔ وزیراعظم اکثر اہم فیصلوں پر میرٹ کے برعکس ان کی مرضی اوربریفنگ کے عین مطابق اپنی مہر ثبت کرتے ہیں۔ حکومت کا یہی رویہ وزرا اور اعلیٰ بیوروکریسی میں بددلی اور انتشار کا باعث بنتا چلا آرہا ہے۔ وزیراعظم کے کئی دیرینہ اور مفید ساتھیوں سے دوری کا کریڈٹ بھی اسی سرکاری بابو کوجاتا ہے۔ ممکن ہے آنے والے دنوں میں پھٹ پڑنے والے مزید حکومتی وزرا اور ارکان کا کریڈٹ بھی انہی کوجائے۔