اکثر گماں ہوتا ہے کہ حکومت آج کل کم و بیش اُسی مقام پر کھڑی نظر آتی ہے جس مقام پر مسلم لیگ (ن) 2017-18ء میں کھڑی تھی۔فرق صرف اتنا ہے کہ برسراقتدار شریف فیملی براہ راست کرپشن کے الزامات اورمقدمات کی زد میں تھی اور عمران خان کی ذات کو تاحال کسی کرپشن اوربڑے سکینڈل کا سامنا نہیں ہے‘ تاہم تحریکِ انصاف کی حکومت میں شریک اقتدار اکثر مشیروں اور وزیروں سمیت مخصوص سرکاری بابوئوں کے بارے میں مال بنانے کے علاوہ انتظامی بدعنوانی کے قصے اور چرچے زبان زد عام ہیں۔نئے مشیر احتساب بریگیڈیئر (ر) مصدق عباسی کی تقرری کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ ایف آئی اے اور صوبوں میں اینٹی کرپشن کے اداروں میں بھی تبدیلی کی جھلک نظر آئے گی اور شہزاد اکبرکی پالیسی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ان منہ زور افسران کو بھی تبدیل کیا جاسکے گا جو قانون اور ضابطوں کے بجائے مذکورہ پالیسی کے ساتھ ساتھ ذاتی ایجنڈوں کے مطابق ادارے چلاتے رہے۔راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل کی غیر جانبدار تحقیقات کروائی جائیں تویہ معمہ بھی حل ہوسکتا ہے کہ کمشنر سمیت قربانی کا بکرا بننے والے سبھی کرداروں کو کس کی ردِ بلا کیلئے قربان کیا گیا؟ بینی فشری کون تھا اور سہولت کار کون؟
عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نااہل ہونے والے نواز شریف کوئے اقتدار سے نکلے تو پوچھتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا۔ خدا جانے خان صاحب کو کون سے خدشات اور خطرات لاحق ہیں کہ انہوں نے پیشگی اعلان کر ڈالا 'اگر مجھے نکالا تو میں زیادہ خطرناک ثابت ہوں گا‘۔ گویا پاکستان کی سیاست 'مجھے کیوں نکالا‘ سے نکل کر 'اگر مجھے نکالا‘ تک آن پہنچی ہے۔ یہ اقتدار بھی کیا چیز ہے‘ ہروقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے؛ تاہم یہ بات طے ہے کہ یہ نکلنے نکالنے کا کھیل اسی طرح جاری رہے گا جیسے ماضی میں ہوتا چلا آیا ہے۔ پیشگی انتباہ یا اعلانات سے 'ہونی روکیاں رکدی نئیں‘۔ خان صاحب نے یہ انتباہ یقینا 2014ء کے دھرنوں کے تناظر میں کیا ہو گا کہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موسمی اثرات سے بے پروا 126 دن تک تبدیلی کے ترانے سنتا رہا اور سر دھنتا رہا۔ وہ وزیر اعظم ہائوس میں بیٹھ کر آج بھی شاید 2014ء کے سحر میں مبتلا ہیں۔
تین سال سے زائد عرصہ اقتدار نے حالات اور مقبولیت کے گراف کو کہاں سے کہاں لا پٹخا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے عرصۂ اقتدار میں تبدیلی کے ترانے سن کر سر دھننے والے کہیں سر پیٹتے تو کہیں بال نوچتے نظر آتے ہیں۔ خوش حالی کے سہانے خوابوں سے لے کر سماجی انصاف اور کڑے احتساب کے دعووں سمیت نجانے کیسے کیسے بیانیے بدعہدیوں اور یوٹرنز کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ انقلابی جدوجہد کے خطیر اخراجات اٹھانے سے لے کر سیاسی جوڑ توڑ اور سازگار حالات کی علامت‘ سبھی قریبی جاں نثاروں کو اپنی مجبوریوں اور مصلحتوں کی نذر تو پہلے ہی کر چکے ہیں۔ اگر خان صاحب کے خدشات درست ثابت ہوئے اور انہیں سڑکوں پر نکل کر اپوزیشن کا ایکشن ری پلے چلانا پڑا تو کوئی ماضی کے جاں نثاروں کا حشر نشر دیکھنے کے بعد جاں نثاری کی تمنا کیسے کر سکے گا؟
حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ عوام کی حالتِ زار بھی اس قدر بدتر ہو چکی ہے کہ وہ اب نہ تو کسی تبدیلی کے جھانسے میں آئیں گے اور نہ ہی کسی سونامی کے۔ خاطر جمع رکھیں! آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ برسر اقتدار آنے کے بعد دھرنوں اور طویل سیاسی جدوجہد میں شانہ بشانہ اور قدم بہ قدم چلنے والوں کو جس طرح نظر انداز اور فراموش کیا گیا تھا‘ آج وہ سبھی فیصلے اور مردم شناسی جوابدہی کے کٹہرے میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ حکومت کی فیصلہ سازی سے لے کر اجارہ داری تک سبھی اہم ترین ادارے ان مصاحبین اور مشیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ ڈالے گئے جن کا جدوجہد میں نہ تو کوئی کردار تھا نہ ہی برسر اقتدار آنے سے پہلے نام و نشان۔ گویا منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے ساتھ شریک اقتدار ہونے سے لے کر اڑن چھو ہونے تک سبھی مشیر انصاف سرکار کے لیے جوابدہی کے گڑھے اور ناکامی کی گہری کھائیاں کھود کر جا چکے ہیں۔ مشیر احتساب سے ناراضی کے بعد استعفیٰ لیے ابھی دو دن نہیں گزرے کہ وزیر اعظم نے ایک اور انقلابی بیان جاری کر ڈالا کہ انہوں نے پہلے 90 دن میں کرپشن کے خاتمے کا وعدہ پورا کر دیا تھا۔ کبھی ان کا یہ بیان دیکھتا ہوں تو کبھی ملک بھر میں کرپشن کا مچا ہوا ادھم۔ مالم جبہ کیس کس کے حکم پر اور کیوں بند کیا گیا؟ پشاور ہائیکورٹ کی برہمی کے باوجود متعلقہ ادارہ تاحال لاجواب ہے۔
ریکارڈ کی درستی اور علم میں اضافے کے لیے عرض کرتا چلوں کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اہم سرکاری عہدوں پر تعیناتی کا نرخ نامہ بھی اسی دور میں رائج اور مقبول ہوا۔ تبادلوں کے ریٹ نکالنے والوں کو انکوائری شروع ہوتے ہی محفوظ راستہ دے کر اوپر کیوں روانہ کیا گیا؟ ڈپٹی کمشنر سے لے کر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سمیت دیگر اہم پیداواری عہدوں تک کے سربراہان کی پوسٹنگ ٹرانسفرز کے پس پردہ کردار اس قدر بے پردہ ہیں کہ سبھی کے بارے میں سبھی جانتے ہیں۔ اکثر تقرریوں اور تبادلوں کا معیار اور ترجیحات دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ یہ تبادلے نہیں ٹینڈر ہیں۔ جب ٹاپ لیول پر تقرری اور تبادلوں کا یہ معیار ہو تو ماتحت افسران اور اہلکار کیا گل کھلاتے ہوں گے؟ انسدادِ رشوت ستانی پنجاب سے لے کر لاہور ترقیاتی ادارے تک نہ جانے کتنے ہی ایسے محکمے ہیں جن کے سربراہان کے بارے میں یہ سوال دن بدن اہمیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے کہ خدا جانے ان کی تقرری کا ٹینڈر کب ختم یا منسوخ ہو گا؟
طرزِ حکمرانی نے گورننس اور میرٹ کے معنی ہی الٹا کے رکھ دیے ہیں اور سربراہ حکومت کا کہنا ہے کہ ''بزدار آج بھی نمبر ون ہیں‘‘ اگر بزدار نمبر ون ہیں تو حکومت کے باقی چیمپئنز کی کارکردگی کے نمبروں کے بارے میں جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ سبھی کردار بے نقاب اور اپنے اپنے ایجنڈوں کے پیچھے بھاگے پھرتے نظر آتے ہیں۔ تختِ پنجاب کے اکثر وزیر بڑے کاروباری اداروں کے سہولت کار بن کر سرکاری اداروں میں جوتے چٹخاتے نظر آتے ہیں۔ کئی ایک تو جوتے چٹخانے کے عوض ہائوسنگ پروجیکٹس میں حصہ دار بن چکے ہیں تو اکثر بنائے گئے مال میں سے سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ راوی اربن پروجیکٹ کے خلاف عدالتی فیصلے پر اکثر وزیر دھمال ڈال رہے ہیں کیونکہ وہ وزیر حکومت کے ہیں لیکن ہو سکتا ہے سہولت کار ان کے ہیں جو اس پروجیکٹ کے خلاف عدالت میں گئے تھے۔
چلتے چلتے عرض کرتا چلوں کہ 'مجھے کیوں نکالا‘ سے لے کر 'اگر مجھے نکالا‘ تک سبھی بیانیے ہوں یا کردار‘ کسی کو ملک و قوم کی کوئی پروا ہے نہ کوئی سروکار۔ کسی کو گلہ ہے کہ 'مجھے کیوں نکالا‘ تو کسی کو خطرہ ہے کہ 'اگر مجھے نکالا‘۔ خوف اور خواہشات کے درمیان یہ سبھی 'سماج سیوک‘ نیتا آتے جاتے رہیں گے۔ کسی کو نکالا جائے گا‘ کوئی نکلنے کے بعد واویلا کرتا نظر آئے گا تو کوئی نکلنے سے پہلے ہاتھ پیر مارتا نظر آئے گا۔ خدا کرے کہ یہ سبھی عوام کے دلوں سے نکل جائیں۔ جس دن یہ سب عوام کے دل سے نکل گئے یا اتر گئے اس دن نہ کوئی نکلنے کے بعد پوچھے گا کہ 'مجھے کیوں نکالا‘ اور نہ ہی کوئی انتباہ جاری کرے گا کہ 'اگر مجھے نکالا‘۔ ویسے بھی جن کا نکلنا ٹھہر جائے وہ چاہے سر پہ ہاتھ ہونے کا دعویٰ کریں یا اچھے تعلقات کا‘ ایک پیج پر ہونے کی اداکاری کریں یا کوئی اور ملمع کاری‘ کوئی فرق نہیں پڑتا۔
جو دل کو چھین لینے کے ڈھب جانتے ہیں
وہ ترکیب ورکیب سب جانتے ہیں