سیاست کی بساط پر معنی خیز چالوں میں تیزی آچکی ہے۔ وفاقی کابینہ میںایک بار پھر ردوبدل کا شور ہے۔ دفاع، اطلاعات اور داخلہ کی وزراتوں کے لیے نئے وزرا کی تقرری کا امکان ظاہر کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ ممکنہ سبھی تبدیلیاں بے سبب نہیں۔ خصوصاً فواد چوہدری کا نیا قلمدان ان کی موجودہ اہمیت اور آئندہ مقام کا سنگ میل ہوسکتا ہے؛ تاہم سالِ رواں میں بظاہر سیاسی طورپر غیراہم لیکن انتہائی مؤثر اور غیرمعمولی اہمیت کے حامل وزارت دفاع کے قلمدان کی تبدیلی کی باتیں مخصوص حالات کو مزید خاص بنائے چلے جارہی ہیں۔ سیاسی شطرنج کے پیادوں سے لے کر گھوڑوں اور وزیروں سمیت سبھی اگلے چند ماہ پرنظریں اس خیال سے جمائے ہوئے ہیںکہ ان کی اگلی چال کہیں مات نہ کھا جائے۔ ایسے حالات میںغلطی چال کی ہو یا فیصلے کی‘ دونوں صورتوں میں شہ مات کا سامنا یقینی ہے‘ اور کوئے سیاست میں اکثر غلطیاں ایسی ہوتی ہیں کہ اچھے خاصے تناور درخت بھی سوکھے پتے کی طرح ہوا کے دوش پر اڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
ماضی میں ہوسِ اقتدار سے لے کر فیصلہ سازی سمیت نجانے کیسے کیسے عوامل کیسے کیسوں کو ایسا ویسا کرچکے ہیں۔ عوام کی ہمدردی کے دعوے دار رہنما مصلحتوں اور مجبوریوں کے مارے بھی ہوتے ہیں۔ چند روز قبل سینیٹ میں اچھی خاصی اکثریت کے باوجود سٹیٹ بینک ترمیمی بل کی منظوری اپوزیشن نے سرکار کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کردی۔ حکومت مخالف آٹھ سینیٹر بوجوہ غیرحاضر جبکہ سابق وزیراعظم اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی نے نور ربانی کھرکی رسم قل میں شرکت کی خاطر اس اہم ترین اجلاس میں شرکت کے بجائے ملتان میں بیٹھ کر ہی مرحوم کی دعائے مغفرت کے ساتھ ساتھ سٹیٹ بینک ترمیمی بل پر بھی فاتحہ پڑھ ڈالی۔ گویا گیلانی صاحب کی ایک فاتحہ کے دہرے اثرات۔ ذاتی مفادات سے لے کر کھال بچائو پروگرام تک کے تحت ہمارے سیاسی رہنما ردِ بلا کے لیے ایسی فاتحہ اکثر پڑھ لیتے ہیں۔ انہیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ کب رسم قل میں فاتحہ خوانی کرنی ہے اور کب دور بیٹھ کر اپنی قومی ذمہ داریوں پر فاتحہ پڑھنی ہیں۔ دونوں صورتوں میں ترجیحات کا تعین مجبوریوں اور مصلحتوں کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔
مسلم لیگ(ن) کا واویلا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کا ایک ووٹ کم ہونے سے پاکستان کو آئی ایم ایف کا غلام بنا دیا گیا لیکن میرے خیال میں سینیٹ میں ہونے والی کارروائی تو ایک دستاویزی کارروائی ہے‘ پاکستان آئی ایم ایف کا دستِ نگر ہونے کے ناتے کب اس کی اطاعت پر مجبور نہیں رہا بلکہ مملکت خداداد میں بسنے والی مخلوق تو اس ان داتا کی غلام ابن غلام ہے۔ نسل در نسل مقروض رہنے کے ساتھ ساتھ وہ سود بھی اتارے چلے جا رہے ہیں جس سے عوام کا کوئی لینا دینا نہیں۔ آج بھی ہر پیدا ہونے والا بچہ اس قرض اور سود کا ذمہ دار ہے جس میں نہ اس کی مرضی شامل ہے اور نہ ہی وہ اس کا بینی فشری ہے۔ کنبہ پروری سے لے کر بندہ پروری اور اللوں تللوں سمیت نجانے کون کون سے شوق پورے کرنے کیلئے سرکاری وسائل اور خزانوں کو بھنبھوڑنے والوں نے کوہ ہمالیہ سے بھی بلند قرضوں کے پہاڑ نجانے کون سی تجوریوں اور جیبوں میں بھرے ہیں کہ نہ ان قرضوں کا کوئی حساب ہے اور نہ ہی احتساب۔
چارٹرڈ جہازوں میں درجنوں مصاحبین اور وزیروں کے ساتھ قرضے لینے کیلئے ملک ملک پھرنے والے رہنماؤں نے قرض کے سود کی ادائیگی بھی مزید قرضوں سے ہی کی۔ قرضوں کے حصول کے لیے بیرون ممالک جانے والے سوٹڈ بوٹڈ کشکول بردار سرکاری وفود کی آنیوں جانیوں پر اٹھنے والے خطیر اخراجات ہوں یا انٹرنیشنل برانڈز کی مہنگی ترین شاپنگز‘ ان کے یہ سبھی شوق سرکاری خزانے ہی پورے کرتے رہے ہیں۔ قرضے تو قرضے یہ تو مالی امداد لینے بھی ایسے ہی جاتے رہے ہیں کہ امداد دینے والے ان کے ٹھاٹ باٹ اور شاہانہ اخراجات دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے تھے۔ حسن نثار صاحب کے بقول کھانے والے اس ملک کو صرف کھانا چھوڑ دیں تو اس کا حال بہتر اور مستقبل محفوظ ہو سکتا ہے۔ کھانے والوں نے مملکت خداداد کو اس طرح بھنبھوڑا اور کھایا ہے کہ اس کی معیشت کا پیندا ہی چاٹ گئے۔ بے پیندے کی اس معیشت میں اقتصادی اصلاحات اور معاشی اقدامات کا سمندر بھی ڈال دیں تو اس میں استحکام کا قطرہ بھی نہیں ٹھہرنے والا۔
اقتصادی ریفارمز اور معاشی استحکام کے نام پر کچھ بھی کر لیں نتائج اس وقت تک صفر رہیں گے جب تک اس ملک کی اقتصادیات اخلاقیات سے مشروط نہیں ہوجاتیں۔ اخلاقیات سدھار کر ہی اقتصادیات کو سنبھالا دیا جاسکتا ہے۔ کیا حکمران کیا عوام سبھی کے پلے کچھ نہیں۔ جہاں ہاتھ کی صفائی کو نصب العین بنا لیا جائے وہاں کیسی اخلاقیات اور کون سی اقتصادی اصلاحات۔ سکتہ طاری کر دینے والا اخلاقی گراوٹ کا ایسا ایسا نمونہ صبح شام دیکھنے میں آتا ہے کہ الامان والحفیظ۔ اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک کی سیاسی اشرافیہ ہو یا انتظامی‘ خواص ہوں یا عوام سبھی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ جاری ہے کہ کون کتنا بڑا کاریگر اور کتنا بڑا ہاتھ دکھا سکتا ہے۔ یہ کیسا خطہ ہے‘ کیسا کیسا تماشا سیاسی بازی گر لگائے رکھتے ہیں۔ اکثر کرتب تو ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں بیان کرنے کے لیے ڈھونڈے سے بھی الفاظ نہیں ملتے۔
پون صدی سے ایک ہی دہائی سنتے سنتے عوام کے کان پک چکے ہیں۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ حکمران چور ہیں اور حکمران کہتے ہیں کہ ہمیں تو خزانہ ہی خالی ملا۔ تعجب ہے قومی خزانہ بھی صاف ہے اور صفایا پھیرنے والوں کے ہاتھ اور دامن بھی صاف ہیں۔ ہاتھ دکھانے والے اس صفائی سے ہاتھ دکھاتے رہے ہیں کہ احتساب کے ادارے کچھ پکڑنے کے بجائے آج بھی ہاتھ ملتے نظر آرہے ہیں۔ اپوزیشن کی جماعتیں ہوں یا تحریک انصاف‘ سبھی اقتدار کی ہنڈیا سے اپنے اپنے حصے کی بوٹیاں اڑائے چلے جا رہے ہیں۔ یہ اور بات کہ اقتدار کی ہنڈیا میں بوٹیاں ختم نہیں ہو رہیں اور ادھر عوام ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ خیال آتا ہے کہ اقتدار کی ہنڈیا سے اڑائی جانے والی بوٹیاں کہیں عوام کی بوٹیاں تو نہیں؟ کوئی دانت گاڑے ہوئے ہے تو کوئی چونچ سے کترے چلا جارہا ہے۔ اپنی اپنی طاقت اور بساط کے مطابق سبھی اپنا اپنا حصہ اور اپنا اپنا تاوان وصول کیے چلے جا رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کے گلوری فائڈ منیجرز پاکستان کے مالی معاملات پر دسترس تو پہلے ہی حاصل کر چکے تھے اب مانیٹرنگ اور کنٹرول بھی انہی ہاتھوں میں جا رہا ہے۔ ابھی انہوں نے ہم سے پرانی وصولیاں بھی تو کرنی ہیں‘ جب تک ساری وصولیاں نہیں ہو جاتیں یہ ہمیں اتنی آکسیجن تو ضرور فراہم کریں گے جس سے ہماری معیشت کی سانسیں اور عوام کی روکھی سوکھی چلتی رہے‘ تاہم حکمران اشرافیہ کے اللے تللے اور موج مستیاں ویسے ہی ان کا حق اور وہ خراج ہے جو وہ عوام سے روزِ اول سے وصول کرتے چلے آرہے ہیں۔ جس ملک میں جزا اور سزا کا تصور اور معانی ہی الٹا کررکھ دیے جائیں‘احتساب پر مامور حکومتی چیمپئن دروغ گوئی اور فرضی اعداد وشمار کا گورکھ دھندہ کرنے کے ساتھ ساتھ سپانسرڈ اور ہوشربا لگژریز انجوائے کررہے ہوں‘کیا ان کا استعفیٰ اس ناقابلِ تلافی نقصان کا مداوا کرسکتا ہے جو وہ اس ملک و قوم کا کرچکے ہیں؟مبینہ مالی مفادات کے علاوہ انتظامی بدعنوانی کے ساتھ ساتھ احتساب کے عمل کو مشکوک اور آلودہ کرنے والے یہ سب کچھ کس کی ایما پر اور کس کھاتے میں کرتے رہے ہیں؟ یہ سوال فیصلہ سازوں کی مردم شناسی‘میرٹ اور گورننس پر سوالیہ نشان ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقیات پر بھی انگلی اٹھا رہا ہے جن سے اقتصادیات مشروط ہے۔