"AAC" (space) message & send to 7575

میں تو سکول گیا تھا!

دنیا میں کتنا غم ہے‘ میرا غم کتنا کم ہے۔ دوسروں کا غم محسوس کرکے ہی اپنے غم کو کہیں قرار آتا ہے۔ سوچا تھا‘ آج مجہول سیاست اور بے حس قیادت کے علاوہ میرٹ اور گورننس کے نام پر ہونے والے کھیل‘ کھلواڑ پر بات کرنے کے بجائے وہ ناسٹلجیا شیئر کروں گا جو شہر خموشاں سے لوٹنے کے بعد طاری اور جاری ہے‘ لیکن ڈیرہ غازی خاں کے ایک سکول میں بارہ سالہ طالب علم مبشر محمود پر آوارہ کتوں کا وحشیانہ حملہ اور اس کی دردناک موت نے اعصاب اور نفسیات کو تہ و بالا کر ڈالا۔ ماں نے کس قدر چائو سے اپنے لخت جگر کو یونیفارم پہنا کر سکول روانہ کیا ہو گا۔ اس کے مستقبل سے جڑے کیسے کیسے خواب دیکھے ہوں گے۔ آنکھوں میں خواب سجائے ماں نے اس پھول کا جنازہ کس دل سے دیکھا ہو گا۔ اجلے یونیفارم پر جابجا خون کے دھبوں نے ماں کے دل کو کس طرح لہولہان کیا ہو گا۔ باپ نے اپنے بڑھاپے کے سہارے کا لاشہ کس طرح اٹھایا ہو گا۔ کس دل سے قبر میں اتارا ہو گا۔
دل کے ٹکڑے کی معمولی سی تکلیف پر بے چین ہو جانے والے باپ نے اسے منوں مٹی تلے دفنانے کے لیے کیسے مٹی ڈالی ہو گی۔ قبرستان سے خالی ہاتھ گھر کیسے لوٹا ہو گا اور کیا بتایا ہو گا کہ وہ اپنے پھول کو رزق خاک بنا آیا ہے۔ کیسا کہرام مچا ہو گا۔ کیسی کیسی دُہائی دی گئی ہو گی۔ اذیت ناک سے موت سے دوچار ہونے والے معصوم مبشر کی روح بھی عرش معلیٰ پر انصاف کی منتظر روحوں میں شامل ہو چکی ہو گی اور بارگاہ الٰہی میں یقینا فریاد بھی کرتی ہو گی کہ ''اے اللہ ! میں تو گھر سے حصول تعلیم کے لیے سکول گیا تھا۔ تیرے نبیﷺ کا فرمان ہے کہ گود سے گور تک علم حاصل کرو۔ میرا گود سے گور تک سفر اتنا مختصر اور جلدی کیوں؟ ابھی تو میں نے وہ علم حاصل کرنا تھا جس کی تعلیمات تیرے نبیﷺ نے دی ہیں۔ ابھی تو مجھے پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننا تھا۔ اپنے ماں باپ کے بڑھاپے کا وہ سہارا بننا تھا جس کے خواب سجائے وہ مجھے سکول بھیجا کرتے تھے۔ سکول میں تو تعلیم دی جاتی ہے پھر وہاں آوارہ خونخوار کتے کہاں سے آ گئے؟ سکول کے ڈسپلن کا ذمہ دار تو ہیڈ ماسٹر اور اساتذہ ہوتے ہیں۔ وہاں کتوں کا راج کیسے قائم ہوا؟ میری بوٹیاں بھنبھوڑنے والے آوارہ کتے کلاس روم کے دروازے تک کیسے آپہنچے؟ کیا انہیں کسی استاد یا انتظامی سٹاف نے نہیں بتایا کہ یہاں پہ موت نہیں تعلیم دی جاتی ہے۔ جب خونخوار کتوں نے میرے نازک جسم پر اپنے دانت گاڑے تو میری فلک شگاف چیخوں پر نہ آسمان گرا اور نہ ہی کوئی میری مدد کو آیا۔ کتے میرا جسم نوچتے اور بھنبھوڑتے رہے۔ میں روتا اور چلاتا رہا۔ میرے ماں باپ میری دلخراش موت پر ساری عمر میری یاد میں روتے رہیں گے۔ مجھے کس جرم کی پاداش میں اس درندگی سے دوچار ہونا پڑا؟ میرے ماں باپ کو عمر بھر کا عذاب کس حساب میں؟‘‘
اس قیامت خیز منظر اور متاثرہ خاندان پر ٹوٹنے والی قیامت پر تخت پنجاب حرکت میں آ چکا ہے۔ گورننس نے انگڑائی لی ہے۔ نوٹس لے لیا گیا ہے۔ انقلابی اقدامات کا پروانہ جاری کیا جا چکا ہے۔ کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ ذمہ داران کا تعین ہوگا۔ انصاف سرکار کو رپورٹ پیش کی جائے گی۔ پریس کانفرنس ہوگی۔ فخریہ اعلانات کیے جائیں گے۔ معطلیاں اور کچھ تبدیلیاں ہوں گی۔ متاثرہ خاندان سے یکجہتی اور اظہارِ افسوس کیا جائے گا‘ اور شاید کچھ امدادی رقم دے کر رحم دلی اور بندہ پروری کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ ان سبھی مناظر کے فوٹو سیشن ہوں گے۔ میڈیا میں کوریج ہوگی اور عوام کو بتایا جائے گا کہ حکومت اپنے عوام کے لیے کس قدر بے چین اور مخلص ہے۔ یہ سبھی نمائشی کارروائیاں اور ستائشی بیانات اسی طرح دیکھنے اور سننے کو ملتے رہیں گے؛ تاہم کسی نئے حادثے یا کسی دلخراش واقعہ کے بعد عوام کو ان سبھی کا ایکشن ری پلے بھی اسی طرح دکھایا جاتا رہے گا۔
گلی محلوں اور شاہراہوں پر آوارہ کتوں کے ہاتھوں بھنبھوڑے جانے والے راہ چلتے عوام پہلے ہی خائف اور عاجز ہیں۔ کراچی سمیت اندرون سندھ میںکتا گردی کے نتیجے میں نجانے کتنے معصوم دردناک موت سے دوچار ہوچکے ہیں۔ سینکڑوں بھنبھوڑے جانے کے بعد آج بھی اس ٹراما سے باہر نہیں آسکے۔ اسی طرح تخت پنجاب کے دارالحکومت سمیت کئی شہروں میں آوارہ کتوں نے سینکڑوں راہگیروں کوبھنبھوڑ کر لہولہان کرڈالا ہے۔ کتا گردی کے اعدادوشمار دیکھ کرانتظامیہ نام کی کوئی شے کہیں نظر نہیں آتی اور گلیوں، شاہراہوں پر کتا راج آج بھی قائم و دائم ہے۔ بلدیاتی اداروں کو انصاف سرکار کے جس عناد اور بغض کا سامنا رہا ہے اس کے بعد کتا مار سکواڈ سمیت شہری سہولیات کے نجانے کون کون سے شعبے قصہ پارینہ بنتے چلے جارہے ہیں۔ معاملات اور انتظامات کی رفتار اور کارکردگی دیکھ کر بخوبی کہا جا سکتا ہے کہ 'چلے جارہے ہیں بس خدا کے سہارے‘۔ تنخواہیں اور فنڈز باقاعدگی سے وصول کرنے والے ادارے ڈھونڈے سے بھی کہیں نظر نہیں آتے۔ جہاں ہاتھ کی صفائی نصب العین بن جائے وہاں شہری سہولیات کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؛ تاہم مال بنانے اور فنڈز کھانے کیلئے ہر سرکار کو شہریوں کی ضرورت تو ہوتی ہے لیکن شہری سہولیات کی فراہمی ان کی ترجیحات سے کوسوں دور ہوتی ہے۔ گویا جن شہریوں کے دم قدم سے یہ ساری بہاریں اور موجیں لوٹی جارہی ہیں انہیں ہی شہری سہولیات سے محروم کرکے اپنی دنیا سنوارنے والے انہیں شہری سمجھتے ہی کب ہیں؟
حادثات ہوتے رہیں گے۔ سانحات پلتے رہیں گے۔ المیے جنم لیتے رہیں گے۔ عوام مرتے جیتے رہیں گے۔ حکومتیں سوتی جاگتی رہیں گی۔ گورننس انگڑائیاں لیتی رہے گی۔ نوٹس بھی لیے جاتے رہیں گے۔ تحقیقاتی رپورٹیں آتی رہیں گی۔ بلی پہ بکرے چڑھائے جاتے رہیں گے۔ گورننس شرمسار اور میرٹ تار تار ہی رہے گا۔ حکمران فخریہ اعلانات کرتے رہیں گے۔ ان کے بیانات میڈیا کی زینت بنتے رہیں گے۔ ناحق مارے جانے والوں کی روحیں عرش معلیٰ پر طالبِ انصاف ہوں گی۔ حکمران اپنی ذمہ داریوں سے یونہی گریزاں اور وعدوں سے منحرف ہوتے رہیں گے۔ گویا کاروبارِ گلشن بس یونہی چلتا رہے گا۔
اب لوٹتے ہیں اس ناسٹلجیا کی طرف جس کا ذکر کالم کے آغاز میں کیا تھا۔ اپنے اس غم کا اظہار کرنا چاہتا ہوں جس پر ڈیرہ غازی خان کے ایک سکول میں معصوم بچے کی دردناک موت کا غم اس طرح غالب آ گیا کہ گمان ہوا 'دنیا میں کتنا غم ہے میرا غم کتنا کم ہے‘ غم تو بس غم ہی ہوتا ہے۔ گوتم بدھ نے یونہی نہیں کہا تھاکہ دنیا دکھوں کا گھر ہے۔ اور جب دکھ دلوں میں گھر کر جائیں تو پھر جانے والوں کے غم اور دکھوں کے لاشے رکھ لیے جاتے ہیں‘ دفنائے نہیں جاتے۔ ساجد عمر گل کو منوں مٹی تلے دفنا کر لوٹا ہوں تو یوں محسوس ہورہا ہے کہ اس کے ساتھ تھوڑا سا میں بھی دفن ہوگیا ہوں۔ گویا اس کے اچانک مرنے کی خبر سنتے ہی میں خود بھی تھوڑا سا مر گیا ہوں۔ ستائیس سال کی رفاقت یوں پل بھر میں ٹوٹ جائے گی‘ سوچا نہ تھا۔ اسے تو مرحوم لکھتے ہوئے بھی گویا موت پڑ رہی ہو۔
کفن میں لپٹے اور پھولوں میں لدے ساجد عمر گل سے لپٹے زین اور فاطمہ کی عمریں اور آہ و بکا دیکھ کر پتھر بھی رو پڑے ہوں گے۔ روز شام کو منتظر رہنے والے ان معصوم اور کم سن بچوں کا باپ اب کبھی لوٹ کرنہیں آئے گا۔ غش کھاتی زنیرا بھابی سفر آخرت پر روانہ کبھی اپنے سہاگ کو دیکھتیں تو کبھی ان معصوم بچوں کو۔ آئندہ زندگی کے شب و روز سے لے کر ماہ و سال تک کون سا ایسا لمحہ ہوگا جس میں پل پل انہیں ساجد گل کی کمی اور ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ ان سبھی کے غم اور حالت دیکھ کر پھر یہی محسوس ہوا کہ 'دنیا میں کتنا غم ہے میرا غم کتنا کم ہے‘ دنیا کے جھمیلے مجھ سمیت تمام احباب کو پھر گھیر لیں گے لیکن ساجد گل کے بچے اس غم کے گھیرے میں رہیں گے۔ اللہ ہی انہیں غم کے اس کوہ ہمالیہ کو سر کرنے کا حوصلہ دے اور اسباب پیدا کرے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں