"AAC" (space) message & send to 7575

من پسند موضوع

کیسے کیسے شجرِ ممنوعہ کو جڑ سے اکھڑنے کے بعد سوکھے پتے کی طرح ہوا کے دوش پردیکھنے کے باوجود کوئی عبرت پکڑنے کو تیار نہیں۔ خوف ِخدا نہ سہی مکافاتِ عمل کے چلتے پھرتے نمونوں ہی سے کچھ سبق حاصل کرلینا چاہئے۔عمل سے عاری سبھی بیانیے سنتے سنتے عوام کے کان پکنے کے بعد اب تو بہنے لگے ہیں۔دعوے اور وعدے برسر اقتدار آنے سے پہلے کے ہوں یا بعد کے‘ کسی کا چند فیصد ہی پورا ہوجاتا تو حالات اس قدر ابتر اور مایوس کن نہ ہوتے۔انحراف اور فرار کی پالیسی پر نازاں اور شاداں حکمران خدا جانے کس بوتے پر طرزِحکمرانی پر اترائے پھرتے ہیں۔ شریف برادران کی کرپشن پر لتے لینے سے لے کر طرح طرح کے انکشافات کرنے والوں تک آج بھی سبھی اپنے اصل کام کرنے کے بجائے انہی کا ڈھول پیٹے چلے جارہے ہیں۔ کنٹینر پرکھڑے ہوکر کئے گئے دعوے ہوں یا انتخابی مہم کے وعدے ‘سبھی کی ناکامی کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کو ٹھہراتے ٹھہراتے اقتدار کے چوتھے سال کے چھ ماہ گزر چکے ہیں اور آج بھی عالم یہ ہے کہ بات گورننس اور میرٹ کی کریں تو تان شریف فیملی پر ہی ٹوٹتی ہے۔ اپنی ناکامیوں اور نالائقیوں کا کیسا کیسا عذر تراشتے اور ذمہ داریوں سے بھاگتے بھاگتے خود ہلکان ہوئے چلے جارہے ہیں اورعوام کو بھی روز ایک نیا لالی پاپ دے ڈالتے ہیں۔ زیادہ دور نہ جائیں صرف گزشتہ پانچ سال کے اخبارات اٹھالیں تو چند مخصوص بیانیوں اور الزام تراشیوں کی تکرار کے تسلسل کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ وزیراعظم سے لے کر وزیروں اور مشیروں تک سبھی کا من پسند موضوع شریف فیملی کی لوٹ مار اور نواز شریف کی بیماری ہی بنا ہوا ہے۔سرکاری وسائل پر سرکاری اوقات میں اپنی کارگزاری پر بات کرنے کے بجائے حیلے بہانے سے شریف فیملی کا ذکر لے بیٹھتے ہیں اور اس پر بے تحاشا اور بے تکان بولے چلے جاتے ہیں۔ انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے یہ بیانیے کئی سال سے دہرائے چلے جارہے ہیں۔
بہت ہوچکا۔ اور کتنا وقت گنوانا ہے؟ساکھ گنوانے کے بعد اور کیا کچھ گنواناہے؟ نواز شریف کی بیماری ‘سرکاری ہسپتالوں میں علاج‘ چڑھتے گرتے پلیٹ لیٹس‘ تشخیصی رپورٹیں ‘وفاقی اور صوبائی وزرائے صحت کی طرف سے بیماری کی تصدیق‘وزیراعظم کی طرف سے رحم دلی کا مظاہرہ‘نواز شریف کو باہر بھجوانے کا فیصلہ‘ان سبھی کا کریڈٹ تو حکومت کو ہی جاتا ہے۔ نواز شریف کو بیرون ملک بھجوانے کے بعدبیماری بھی '' ڈھونگ‘‘ بن گئی اور تشخیصی رپورٹوں پر بھی خود ہی سوالات اٹھانے لگے۔ آج بھی حکومت جتنی توجہ اور محنت نواز شریف کی بیماری سے منسلک کئے ہوئے ہے‘ یہ توانائیاں اور توجہ اپنے اصل اہداف کی طرف دی ہوتیں تو آج یوں تہی دست ہوکر پہلو تہی کرتے ہرگز نظر نہ آتے۔ اب بھی وقت ہے ‘نواز شریف کی رپورٹوں کے بجائے بے کس اور لاچار عوام کی ان رپورٹوں کی طرف ہی کچھ توجہ کرلیں جو وہ سرکاری ہسپتالوں سے دھتکارے جانے کے بعد منہ مانگے اور مہنگے داموں پرائیویٹ لیبارٹریوں سے کروانے پر مجبور ہیں۔یہ رپورٹ وزیراعظم کے پاس کیوں نہیں پہنچتیں کہ عوام کس حال میں اور کس طرح سے اس طرز حکمرانی کو برداشت کررہے ہیں ؟
نواز شریف کے مقدمات کے بجائے اب کچھ توجہ ان مقدمات کی طرف بھی کر لیں جن کے اندراج کے لیے بے وسیلہ سائل تھانوں کے چکر لگاتے لگاتے چکرا چکے ہیں۔ نواز شریف کی دولت اور آسائشیں گننے سے اگر کچھ وقت بچ جائے تواپنے وزیروں اور مشیروں کے ساتھ ساتھ منظورِ نظر سرکاری بابوئوں کی بھی کچھ خبر لیں جو گورننس کی آڑ میں اپنے دن اور دنیا سنوار رہے ہیں۔ وہ سبھی قابلِ احتساب ہوکر بھی حکومت کے کڑے احتساب جیسے مقبول عام بیانیے کو شرمسار کیے چلے جارہے ہیں۔ شریف برادران کے قریبی اور سر چڑھے سرکاری بابوئوں کو توخوب تنبیہ اور خبردار کیا کرتے تھے۔ اس حکومت میں موجود کاریگر سرکاری بابو کیسے کیسے کارنامے اور چوکے چھکے لگا رہے ہیں‘وزیر اعظم ان کی رپورٹ منگواکر دیکھیں تو یقینا چھکے چھوٹ جائیں گے۔ امور حکومت میں مریم نواز کے کردار اور مداخلت پر توصبح و شام خوب واویلا کیا جاتا ہے‘تخت پنجاب میں کون سی شخصیت کا کردار اس قدر پراثر ہے کہ اہم ترین عہدوں سے لے کر پیداواری سیٹوں تک اس کی منشا اورسفارش کارگر نسخہ ثابت ہوتی ہے۔
سابق چیئر مین نیب سیف الرحمن کو آڑے ہاتھوں لینے والے خاطر جمع رکھیں کہ اس سرکار کے احتسابی چیمپئن شہزاد اکبر سابق ادوار کے سبھی ریکارڈ‘ ریکارڈ مدت میں توڑ کر اڑن چھو ہوچکے ہیں۔ ان کے احتسابی کھاتے اب خدا جانے کس کُھو کھاتے میں جائیں گے۔یہ احتساب قوم کو اس قدر مہنگا پڑا ہے کہ سارے ہی سستے چھوٹتے چلے جارہے ہیں۔ مالم جبہ کیس کس کی ہدایت پر‘کس کے ایما پر ‘کس کی خوشنودی کے لیے بند کیا گیا؟ عدالتی استفسار کے باوجود حکومت جواب دینے سے قاصر ہے؛تاہم نئے احتسابی مشیر کی تقرری کے بعد مالم جبہ کیس کی اہمیت اور پس منظر مزید واضح ہوچکا ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے تو برملا کہتے ہیں کہ نیب میں ناقابل فہم تبدیلیوں کی بڑی وجہ وہ ریورس انجینئر نگ ہے جس کے تحت احتساب والوں کو مطلوب ان چیمپئنز کو بچانا ہے جو سرکار سے منسلک یا شریک اقتدار ہیں۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ خدا کے لیے حکومتی کارکردگی اور مطلوبہ اہداف میں ناکامی کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کو ٹھہرانے کے بجائے خود فریبی سے نکل کر ان اسباب اور حالات کے ساتھ ساتھ ان سبھی کے ذمہ دار کرداروں پر بھی کچھ توجہ کریں۔ اقتدار کی بقیہ اور مختصر مدت یونہی گنوانے کے بجائے بلیم گیم اور الزام تراشی سے نکل کر جو وقت سابق حکمرانوں کا سیاپا کرنے میں گزارا جاتا ہے اسے پولیو زدہ گورننس کے علاج اور تار تار میرٹ کو رفو کرنے پر صرف کرکے ہی کچھ سنبھالا دیا جاسکتا ہے۔ اسحاق ڈار کی جن پالیسیوں کو معاشی استحکام کے لیے زہر قاتل بتایا کرتے تھے آج ان سبھی سے کہیں بڑھ کر سمجھوتوں اور مصلحتوں کو بالآخر اختیار کرنا پڑا ہے۔ ہوم ورک کے بغیر میدانِ عمل میں کودنے والی سرکاری ٹیم کی کارکردگی واضح اشارہ ہے کہ ان کے سبھی دعوے‘ اہداف اور چیلنجز کے سامنے نہ صرف بونے ثابت ہوئے بلکہ یہ عقدہ بھی کھل چکا ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے تحریک انصاف کی نہ کوئی ٹیم تھی اور نہ ہی کوئی تیاری۔ کنٹینر پر کھڑے ہوکر گھنٹوں عوام کو یہ بتایا جاتا تھا کہ تحریک انصاف کے ماہرین کی ایک ٹیم صبح و شام مصروفِ عمل ہے کہ برسر اقتدارآنے کے بعد اقتصادی ریفارمز اور معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ عام آدمی کے دن کس طرح پھیرے جاسکیں گے؟
جو حشر نشر عوام کا ہو چکا ہے اس کے چلتے پھرتے شرمناک اور زندہ مناظر جابجا‘ ہرسو‘ صبح شام ان کی طرزِ حکمرانی کا منہ چڑاتے پھرتے ہیں۔ 22 سال سماجی انصاف‘ احتساب‘ گورننس اور میرٹ کا ڈھول پیٹنے والوں پر جب وقت عمل آیا اور انہیں رب کائنات نے گورننس عطا کی تو انہوں نے رب کی اس عطا کو عوام کی خطا تصور کرلیا۔ وہ خطا جو عوام نے انہیں مینڈیٹ دے کر کی تھی۔ اس خطا کی سزا عوام نہ جانے کتنے ادوار سے پہلے ہی بھگت رہے ہیں اور بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ اس راج میں پھر بھگتنے پر مجبور ہیں۔ گورننس کے نام پر مملکت خداداد اور اس کے عوام کا جو حال یہ کر چکے ہیں‘اس سے کوئی بھی ناواقف نہیں۔ تباہی اور بربادی ہونے کے باوجود میں نہ مانوں کا راگ جاری ہے۔ اکثر تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ سارے چیمپئن گورننس اور میرٹ کے معنی سے بھی واقف نہیں۔ برادرم شعیب بن عزیز کا ایک شعر حسب حال ہے ؎
خبر ہم کو بھی تھی مرنا پڑے گا عشق میں لیکن
ہمیں اس نے توقع سے زیادہ مار ڈالا ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں