"AAC" (space) message & send to 7575

کام کے دام

اپوزیشن حکومت مخالف معرکہ سر کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں‘ عدم اعتماد میں مطلوبہ تعداد پوری ہو سکے گی یا نہیں‘ حکومت اپوزیشن کی سبھی کارروائیوں اور حملوں کا منہ توڑ جواب دے پاتی ہے یا نہیں‘ اپوزیشن کے سبھی دعوے کھرے ثابت ہوتے ہیں یا دھرے رہ جاتے ہیں‘ صبح سے شام تک اور شام سے لے کر رات اور اگلی صبح تک کیسی کیسی بڑھکیں‘ کون کون سے دعوے مستقل موضوع بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ منظرنامہ مایوسی اور ناامیدی میں کچھ اس طرح اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں اقتدار میں واپس آ گئیں تو اس ملک و قوم کا کیا بنے گا؟ اور اگر حکومت اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب رہتی ہے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکے گا؟ عوام تو سبھی کو یکے بعد دیگرے آزمانے اور دھوکے پہ دھوکہ کھانے کے بعد بے بس اور ادھ موے پڑے ہیں۔
انتخابات اور سیاسی جدوجہد میں کامیابی کو عوام کی فتح سے منسوب کرنے والی سیاسی اشرافیہ کے سامنے عوام کی حیثیت ہی کیا ہے۔ عوام اور ان کے درمیان بس ایک ووٹ کا رشتہ ہے‘ ادھر ووٹ حاصل کیا اُدھر تم کون اور ہم کون۔ اس کے برعکس عوام ان سے مانگتے ہی کیا ہیں؟ حکومت انہیں اُن بنیادی ترین ضرورتوں سے تو محروم نہ کرے جو بحیثیت انسان ان کا حق بنتا ہے۔ عوام کیلئے بس یہی کافی ہے‘ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ کچھ بھی نہیں مانگتے مگر عوام کے یہ حکمران انہیں انسان ہی کب سمجھتے ہیں؟ جب یہ عوام کو انسان کے مرتبے پر فائز کردیں گے شاید اُس دن انہیں وہ حقوق بھی مل جائیں گے جو بحیثیت انسان ان کا حق ہے اور جن کی جستجو میں نجانے کتنی دہائیوں کا سفر کرنے کے باوجود عوام آج بھی ہلکان اور لہولہان ہیں۔ تمام عمر گنوانے کے باوجود عوام کا وہ گھر نہیں آیا جس کے سہانے خواب انتخابات میں ان کے مسیحا انہیں دکھاتے آئے ہیں۔ بیچارے بھولے عوام جنہیں بے پناہ چاہتے ہیں‘ ان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد انہی سے پناہ مانگتے پھرتے ہیں‘ جنہیں نجات دہندہ سمجھتے ہیں پھر انہی سے نجات کیلئے منتیں کرتے نظر آتے ہیں۔
ہر نیا دور اور ہر نیا حکمران عوام کیلئے کچھ کرے نہ کرے ان کی ذلت اور مصائب میں اضافہ ضرور کر جاتا ہے۔ جس معاشرے میں عوام اچھے دنوں کی تلاش میں بد سے بدتر حالات سے دوچار ہوتے چلے جائیں وہاں کیسی گورننس‘ کہاں کی حکمرانی؟ ہر دور کی طرزِ حکمرانی نے عوام کو کب نہیں لوٹا؟ خوابوں کی تعبیر لوٹنے سے لے کر دن کا چین اور رات کی نیند لوٹنے تک‘ وسائل کی بندر بانٹ سے لے کر ملک و قوم کے خزانے پہ ہاتھ صاف کرنے تک لوٹ مار کا یہ سلسلہ روزِ اول سے جاری ہے۔ عوام کی مایوسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ
ابھی چراغِ سرِ راہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
جوں جوںعدم اعتماد کا شوشا زور پکڑ رہا ہے توں توں دونوں طرف سے پوائنٹ سکورنگ اور بیانیوں میں شدت کے ساتھ ساتھ سیاسی درجہ حرارت نقطہ عروج پر ہے اوریہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہر سُو آگ اُگلتا سیاسی سورج سوا نیزے پر دکھائی دیتا ہے۔ کوئی ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتا ہے تو کوئی ووٹ کی حرمت کے ڈھول بجا رہا ہے۔ حزبِ اقتدار ہو یا حزبِ اختلاف دونوں طرف سے کیسی کیسی توجیہات پیش کی جارہی ہیں کہ ایک سے بڑھ کر ایک ووٹ کی عزت و حرمت کا ٹھیکیدار دکھائی دیتا ہے۔ ووٹر کو عزت دیے بغیر ووٹ کی عزت کے بیانیے کس قدر بے معنی اور کھوکھلے نظر آتے ہیں۔ عوام کے ووٹ سے عزت پاکر ایوانِ اقتدار میں جانے والوں نے کبھی پلٹ کر بھی نہیں دیکھا کہ جن کے ووٹوں سے وہ آج اس ایوان میں براجمان ہیں ان ووٹرز پہ کیا گزر رہی ہے اور وہ کس حال میں ہیں؟
ووٹر کی عزت کئے بغیر ووٹ کی عزت کا ڈھول بجانے والے برسرِ اقتدار ہوں یا اپوزیشن میں‘ دونوں کی طرف سے ووٹر کی عزت تو درکنار مینڈیٹ دینے کی جو سزا عوام کو ہر دور میں دی جاتی ہے وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ووٹر اور ووٹ کو عزت ملتی کم از کم مستقبل قریب میں تو نظر نہیں آتی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورے ملک میں ہی یہ جنس ناپید ہوتی چلی جا رہی ہے۔ نہ کوئی کسی کو تسلیم کرنے پہ راضی ہے‘ نہ کسی کی عزت کرنے پر۔ افراتفری کا سماں ہے‘ مسیحا علاج سے انکاری اور آئے روز احتجاج کے بہانے ڈھونڈتے نظر آتے ہیں‘ قانون کی تعلیم سے آراستہ لوگ لاقانونیت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے‘ سرکاری بابو عوام کے لیے اپنے دروازے کھولنے کو تیار نہیں‘ تھانوں میں دادرسی نہیں‘ ناکوں پر ذلت کے سوا کچھ نہیں‘ بازاروں میں ایک دام نہیں‘ حکومت کی رِٹ نہیں‘ قانون کا احترام نہیں‘ میرٹ کا پاس نہیں‘ گورننس کا نام و نشان نہیں‘ عزت کے ناپید ہونے کی اس سے بڑھ کر نشانیاں اور کیا ہوں گی؟
قانون اور ضابطے ہوں یا سرکاری ادارے‘ یہ سبھی عوام کی سہولت اور فلاح کے لیے بنائے جاتے ہیں لیکن مفادِ عامہ سے مشروط یہ سبھی شعبے عوام کے لیے ہی عذابِ مسلسل بن چکے ہیں۔ جائز کام کے لیے بھی تھانے جانے سے پہلے وسیلے اور سفارشیں ڈھونڈی جاتی ہیں‘ تب کہیں جاکر کوئی سیدھے منہ بات کرتا ہے۔ عوام کے علاج معالجہ کے لیے بنائے گئے ہسپتالوں میں بے وسیلہ مریضوں کا علاج نامکمل ہی رہتا ہے اور جب علاج نامکمل ہوگا تو بیماری مستقل روگ بن کر مرض تامرگ بن جاتی ہے۔ قانون اور انصاف سے منسلک طبقے کے بعض لوگوں کو لیں‘ سرکاری عملے کے ساتھ بدسلوکی‘ مار کٹائی اور گالی گلوچ‘ صحافیوں کو پیشہ ورانہ فرائض سے روکنے کیلئے کیمرے توڑنے سے لے کر زد و کوب کرنے تک‘ سبھی واقعات انتظامی تاریخ پر داغ ہیں۔ من چاہے فیصلے حاصل کرنے کے لیے بعض لوگ کس حد تک نہیں جاتے رہے؟ اگر کوئی من چاہے فیصلے کو اپنا استحقاق سمجھنے لگے تو پھر انصاف کے تقاضے کیونکر پورے ہو سکتے ہیں؟ نہ کبھی کسی حکومت نے زحمت گوارا کی کہ ان کا ہاتھ روکے اور نہ ہی نظامِ عدل نے اس پر کوئی مناسب اقدامات کئے۔ مزاحمت اور ہڑتال کے خوف سے نہ کبھی ریاست حرکت میں آئی اور نہ ہی ریاست کا قانون‘ اُلٹا معاملے کو رفع دفع کیا جاتا رہا ہے۔
سرکاری محکموں میں بھی عام آدمی کی رسائی اور شنوائی خواب بنتی چلی جارہی ہے۔ جائز اور معمول کے کام کے ریٹ فکس ہیں۔ دورِ حاضر میں رشوت اور مک مکا کا وہ بازار گرم ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ہر کام دام سے مشروط ہوکر رہ گیا ہے۔ کہیں تعاون کے نام پر تو کہیں فائل کو پہیے لگانے کے نام پر‘ کہیں فیس کے نام پر تو کہیں مٹھائی اور بخشش کے نام پر‘ سبھی وصولیاں ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے جاری و ساری ہیں بلکہ اچھے خاصے معمول کے کاموں کو دانستہ الجھا کر منہ مانگی رقم طلب کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔ سائل کے احتجاج پر انتہائی ڈھٹائی سے جواب دیا جاتا ہے کہ تمہیں نہیں معلوم کہ تبدیلی آ گئی ہے۔ شنید ہے کہ سرکاری اہلکار اور افسران کے ساتھ ساتھ وزیر اور مشیر بھی اس کارِ بد میںحصہ بقدر جثہ برابر وصول کررہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں