ماضی کے سبھی حکمرانوں سے لے کر دور حاضر تک یہ سبھی 'سماج سیوک‘ نیتا نجانے کن ناکردہ گناہوں کی سزا اور عذابِ مسلسل لگتے ہیں۔ وہی چہرے وہی کردار۔ وہی دعوے وہی بڑھکیں۔ وہی گالم گلوچ وہی الزام تراشیاں۔ نہ کوئی اخلاقیات ہیں نہ کوئی شرم و لحاظ‘ نہ احترام آدمیت۔ تحمل، برداشت اور بردباری جیسے اوصاف تو گویا ناپید ہی ہو چکے ہیں۔ زبانوں سے ایک دوسرے کے خلاف یوں شعلے اگلتے ہیں کہ بس نہیں چلتا مدِ مقابل کو بھسم کر ڈالیں۔ ایسی چیخ و پکار کرتے ہیں‘ جیسے ان کی جائیدادوں کے جھگڑے اور ذاتی دشمنیاں ہوں۔ ملک کو کہیں اکھاڑا تو کہیںعناد‘ بغض اور انتقام کی آگ نے انگار وادی بنا کر رکھ دیا ہے۔ اکثر تو یوں محسوس بھی ہوتا ہے کہ قسمت ہی روٹھ گئی ہے۔ تبھی تو یہ سیاہ بختی پون صدی گزرنے کے باوجود بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
کنٹینر کے سوار بدل گئے ہیں۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف والے بدل گئے ہیں۔ حریف اور حلیف بدل گئے۔ پارٹیاں اور وفاداریاں بدل گئیں۔ نظریات اور بیانیے بدل گئے۔ تیور بدلنے کے ساتھ ساتھ نیت اور ارادے بھی بدل چکے۔ نہیں بدلے تو عوام کے دن اور حالات نہیں بدلے۔ یہ سبھی 'سماج سیوک‘ نیتا عوام سے آنکھیں بدلنے کے ساتھ ساتھ نجانے کون سا بدلہ لے رہے ہیں۔ عوام سے مینڈیٹ لے کر جو درگت عوام کی بنائی جاتی ہے‘ اس پر اظہارِ خیال کے لیے ایسے درجنوں کالم بھی ناکافی ہوں گے۔ ووٹر کو عزت دئیے بغیر ووٹ کی عزت کا ڈھول بجانے والے برسرِ اقتدار ہوں یا اپوزیشن میں‘ دونوں کی طرف سے ووٹر کی عزت تو درکنار الٹا مینڈیٹ دینے کی سزا عوام روز اول سے لمحہ موجود تک بھگت رہے ہیں۔ ووٹر اور ووٹ کو عزت ملنے کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورے ملک میں ہی یہ شے ناپید ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ووٹر کی اہمیت کوئی تسلیم کرنے پہ راضی ہے‘ نہ ہی عزت دینے پر۔ ہر دور میں مینڈیٹ کا جنازہ دھوم دھام سے ہی نکلتا ہے۔ خدا جانے ان کے پاس کون سا جادو ہے۔ کوئی چمتکار ہے یا طلسماتی کرشمہ۔ ہر دور میں دھوکا کھائے عوام کو نجانے کس طرح دوبارہ دھوکا کھانے پر راضی اور آمادہ کر لیتے ہیں‘ اور کئی دہائیوں سے ڈسے جانے والے عوام بھی خود کو ڈسوانے کے لیے ہر بار ہی پیش کر ڈالتے ہیں۔ بار بار اور ہر بار ڈسوانے کے بعد ان کے خون میں دھوکے کا زہر اس طرح رچ بس گیا ہے کہ زہر ہی ان کی لائف لائن بنتا چلا جا رہا ہے۔ انہیں اس زہر کی لت لگ چکی ہے یا خود ہی اس علت سے جان چھڑوانا نہیں چاہتے۔ جنہیں نجات دہندہ سمجھ کر مینڈیٹ دے بیٹھتے ہیں‘ انہی سے نجات حاصل کرنے کے لیے دعائیں مانگتے پھرتے ہیں۔ جن کو رہنما سمجھ کر بے پناہ چاہتے ہیں پھر انہی سے پناہ مانگتے نظر آتے ہیں۔
ذرا اپنے ارد گرد ایک نظر تو دوڑائیے۔ اخلاقی قدریں لیر و لیر ہیں تو قوانین و ضابطے سرنگوں دکھائی دیتے ہیں۔ سماجی انصاف کہیں ڈھونڈے سے نہ ملتا ہو‘ مخلوق کی اکثریت بنیادی ضروریات سے محروم ہو اور اقلیت کے پاس ضرورت سے ہزارہا گنا زیادہ ہونے کے باوجود مزید کی ہوس ہو‘ صدمات جس قوم کا مقدر بن چکے ہوں‘ سانحات اور حادثات نے جس کا گھر دیکھ لیا ہو‘ خوف کی ارزانی اور نااہلوں کی فراوانی ہو‘ بیانیوں سے لے کر اقدامات تک‘ نیت سے لے کر ارادوں تک سب جھوٹ کا پلندہ اور الفاظ کا گورکھ دھندہ ہو‘ قتلِ طفلاں سے لے کر ناحق مارے جانے والوں تک‘ سانحات اور حادثات کے رونما ہونے سے لے کر ذمہ داران کو محفوظ راستہ دینے تک‘ طرزِ حکمرانی کے یہ سبھی نمونے عوام کی جانب سے مینڈیٹ دیئے جانے کی سزا نہیں تو اور کیا ہے؟
گلی محلوں سے لے کر پوش ترین رہائشی علاقوں تک۔ بیابانوں سے کر اقتدار کے ایوانوں تک۔ وزرائے اعلیٰ سے کر وزارتِ عظمیٰ تک۔ ارکانِ اسمبلی سے کر مشیروں اور وزیروں تک۔ ماتحت اہلکاروں سے لے کر اعلیٰ سرکاری بابوئوں تک۔ سر چڑھے مصاحبین سے لت کر سہولت کاروں تک۔ سرکاری وسائل سے لے کر عہدوں کی بندر بانٹ تک۔ ریڑھی بان سے لے کر دکان دار تک‘ آڑھتی سے لے کر کارخانہ دار تک۔ عوام سے لے حکام تک۔ سبھی کے درمیان ہوسِ زر کی دوڑ کا سماں ہے۔ کوئی اپنی رسائی کے مطابق نوچ رہا رہے تو کوئی اپنی طاقت کے مطابق بھنبھوڑ رہا ہے۔ چھینا جھپٹی مار دھاڑ‘ مار و مار سمیت نجانے کیسے کیسے منظر صبح شام ملک کے کونے کونے میں جابجا دکھائی دیتے ہیں۔
کیسا کیسا حکمران نجات دہندہ بن کر آیا۔ اس نے جس سنہرے دور کی نوید دی وہ سنہرا دور ہر دور میں چمکیلا اندھیر ثابت ہوا اور وہ سب مزید اندھیرے گڑھوں میں عوام کو دھکیل کر اپنی اپنی باریاں لگاتے رہے۔ یہ آنیاں جانیاں آج بھی اسی طرح جاری ہیں جیسے ماضی کے ادوار میں عوام جھیلتے رہے۔ آج بھی وطنِ عزیز کے طول و عرض میں کہیں تماشے کا سماں ہے تو کہیں سرکس کا‘ کہیں کمر توڑ مہنگائی تمام حدوں کو توڑتی ہوئی عوام کی قوتِ خرید کو ریزہ ریزہ کر چکی ہے۔ قیمتوں کو لگی آگ نے روپے کی قدر کو بھسم کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے اعصاب اور نفسیات کو تباہ و برباد کر ڈالا ہے۔ مہنگائی کے جن کی دھمال نے اچھے اچھوں کو ہلکان اور بدحال کر ڈالا ہے۔ عوام کی ناقابلِ بیان حالت کا ماتم کرنا شروع کروں تو سارا کالم سینہ کوبی اور آہ و بکا کرتے پورا ہو جائے؛ تاہم حکومت کی اپنی توجیہات‘ عذر اور ایسے ایسے جواز ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ حکمرانوں کے دماغوں میں یہ خیالات عالیہ آتے کہاں سے ہیں۔ پھر خود کو سمجھانا اور تسلی دینا پڑتی ہے کہ کوئے اقتدار میں عالم پناہ کوئی بھی ہو سبھی کے سوچ کے زاویے کم و بیش ایسے ہی ہوتے ہیں۔ برسر اقتدار آنے سے پہلے بے پناہ چاہنے والے عوام پھر ان کی رعایا بن کر انہی سے پناہ مانگتے پھرتے ہیں۔
ماضی کے سبھی ادوار سے جاری یہ مجہول سیاست اور پولیو زدہ طرزِ حکمرانی جوں کی توں جاری ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کردار اور چہروں کے سوا نہ کچھ بدلا ہے اور ہی کچھ بدلتا نظر آرہا ہے۔ اکثر چہرے تو وہی ہیں جو ہر دور میں پارٹی اور وفاداری کی تبدیلی کے ساتھ ہر بار عوام کو کھلا دھوکا دیتے ہیں۔ یہ سبھی بوئے سلطانی سے مجبور اور نظریات سے عاری ہی پائے گئے ہیں۔ عوام کی سادگی کا ماتم کیا جائے یا ان کے نصیب کا‘ جو ہر بار انہیں مینڈیٹ دے کر مقدر کا سکندر تو بنا دیتے ہیں‘ لیکن اپنے مقدر کو ووٹ کی سیاہی مل کر خود ہی سیاہ کر لیتے ہیں۔ سیاہ بختی اور بدنصیبی کا یہ دور یونہی چلتا رہے گا؟
ماضی کے چشم کشا حالات اور انجام سے نہ کسی سابق حکمران نے کچھ سیکھا اور نہ ہی موجودہ حکمران کچھ سیکھنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ اس حقیقت سے بے خبرکہ ہر چیز فانی اور ختم ہوجانے والی ہے۔ تخلیقِ حضرتِ انسان سے لے کر عروج و زوال تک کچھ بھی حتمی اور مستقل نہیں۔ سب عارضی اور فانی ہیں۔ پیدائش سے موت کا سفر ہی اختتام کی ابتدا ہے‘ یعنی Beginning of the End۔ کائنات میں ہر عمل اسی کے گرد گھومتا ہے۔ اقتدار کے مزے لوٹنے والے ہوں یا اختیارات سمیت بے پناہ نعمتوں کے حامل‘ کیا وہ نہیں جانتے کہ سبھی کچھ نقطہ آغاز سے ہی اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہو جاتا ہے‘ یعنی پیدائش پر پہلا سانس لینے والے بچے کا دوسرا اور تیسرا سانس اس کی موت کے سفر کا سنگ میل ہوتا ہے۔ اقتدار ہو یا اختیار‘ شروع ہوتے ہی اختتام کی طرف دوڑا چلا جاتا ہے۔ اس کو مستقل اور دائمی سمجھنے والے ماضی کے حکمران ہوں یا دور حاضر کے‘ سبھی کو بار بار موقع دینے والے عوام ہی خود اپنی بربادی اور سیاہ بختی کے ذمہ دار ہیں۔