برادر محترم حسن نثار نے سیاسی منظرنامے پر اپنے کالم میں تشویش کا اظہار کیا ہے جس کی چند سطریں پیش خدمت ہیں ''واہ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں بڑھ چڑھ کر کیسے کیسے قوم کی تربیت نہیں فرما رہیں۔ جیسے چیلے ویسے گرو۔ نجانے کون لوگ بات بات پر یہود و ہنود کو بیچ میں گھسیٹ لاتے ہیں‘ حالانکہ ان جیسوں کی موجودگی میں دشمنوں کی ضرورت کس کو ہے؟‘‘ حضور والا! تربیت کی کوشش تو پون صدی سے کی جا رہی ہے لیکن ایک ہی سوراخ سے خود کو بار بار اور ہر بار ڈسوانے کی لت میں مبتلا عوام کی تربیت والی حِس ہی مر چکی ہے۔ اس منظرنامے پر کڑھنے اور جلی کٹی لکھنے کے بجائے تمام سیاسی نیتائوں کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ وہ سبھی ایک دوسرے کے کالے کرتوتوں کے پول کھولنے سے لے کر کیسے کیسے بخیے ادھیڑے چلے جا رہے ہیں۔ یہ سبھی عوام کی تربیت نہیں کر رہے‘ آنکھیں کھول رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو چور‘ ڈاکو‘ لٹیرا کہنے کے علاوہ گالم گلوچ پر اترے یہ رہنما اپنے عوام کو ہوش دلا رہے ہیں۔ تھینک یو حزب اقتدار۔ تھینک یو حزب اختلاف۔ افسوس! نہ تو آنکھیں کھلنے کا کوئی امکان ہے اور نہ ہی ہوش میں آنے کا۔ عوام کی مدہوشی اور بند آنکھوں کا ان سبھی کو پورا یقین اور اطمینان ہے کہ یہ بھلے ایک دوسرے کے جتنے مرضی پول کھول دیں‘ عوام پھر بھی شخصیت پرستی اور ان کے طواف سے باز نہیں آئیں گے۔
عوام کو گھر بیٹھے ان کے مستقبل کے منظرنامے سے لے کر ماضی کی سیاہ بختی اور بربادیوں کے سبھی اسباب فراہم کرنے والے ان کے 'سماج سیوک‘ نیتا بخوبی جانتے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں بھی یہ قطاروں لگ کر قیمے والے نان اور بریانیاں اڑانے کے بعد مینڈیٹ انہی کو دیں گے۔ اس موقع پر اپنے مربّی مرحوم و مغفور عباس اطہر المعروف شاہ جی کی نثری نظم کا یہ مصرعہ بری طرح میرے ناسٹلجیا میں اضافہ کر رہا ہے ''اے ماں! تو نے ہمیں کن زمینوں اور کن زمانوں میں جنم دیا ہے‘‘ ایک بار نہیں دو بار نہیں، دس بار نہیں‘ یکے بعد دیگرے اور بار بار آزمانے کے باوجود ہر بار دھوکا اور دھوکے پہ دھوکا کھائے چلے جا رہے ہیں اور مستائے چلے جا رہے ہیں۔ اپنی توہین کا احساس ہے اور نہ ہی اپنی بے وقعتی اور بدبختی کا۔ نسل در نسل رلنے اور رونے کے باوجود کس بے حسی سے اگلے دھوکے اور مزید بربادی کے لیے ہر الیکشن میں خود کو پیش کر ڈالتے ہیں۔
کہیں کوئی حصول اقتدار کے لئے مرا جا رہا ہے تو کوئی طول اقتدار کے لیے سب کچھ کرگزرنے کو تیار ہے۔ ان کی زبانیں ان کے اخلاق اور کردار کے ساتھ ساتھ نیت اور ارادوں کے بھید بھی کھولے چلی جا رہی ہیں۔ سبھی بھید جاننے کے باوجود عوام کس قدر بھولے بن کر یہ سبھی عذاب جھیلے چلے جا رہے ہیں۔ ان عذابوں کو پالنے اور اگلی نسل کو منتقل کرنے کی روایت نسل درنسل چلی آرہی ہے اور عوام اسے اپنا نصیب سمجھ کر ہمیشہ کیلئے قبول کر چکے ہیں۔ سیاسی سرکس میں سبھی بازیگروں کو عوام بخوبی آزما چکے ہیں اور کوئی یہ کہنے کے قابل نہیں کہ اسے عوام نے موقع نہیں دیا یا عوام اسے موقع فراہم کرتے تو وہ ماضی کے حکمرانوں کی بداعمالیوں اور غلطیوں کا ازالہ ضرور کرتا۔ 2018 کے عام انتخابات تک ایک آس اور امید باقی تھی کہ شاید تحریک انصاف برسر اقتدار آکر 71 سال سے جاری بربادیوں اور محرومیوں کے سیلاب پر کوئی بند باندھ دے۔ عوام نے اپنے مینڈیٹ کا وزن انصاف سرکار کے پلڑے میں ڈال کر موجودہ حکمرانوں کو حکومت سازی کا موقع تو فراہم کردیا لیکن جوں جوں ان کی حکمرانی کے جوہر کھلتے چلے گئے عوام کودرپیش عذاب بھی بڑھتے چلے گئے۔
تحریک انصاف کو آزمانے کے بعد نہ صرف وہ آس ٹوٹ گئی بلکہ وہ امیدیں اور سبھی خواب بھی خاک ہوگئے جوعوام نے تحریک انصاف کو مینڈیٹ دیتے وقت آنکھوں میں سجا ڈالے تھے۔ ان ٹوٹے خوابوں کی کرچیوں نے عوام کے دل و دماغ سے لے کر اعصاب و نفسیات کو بھی لہو لہو کرڈالا ہے۔ ملک بھر میں کیسا میدان لگا ہوا ہے۔ یہ کیسا اکھاڑا ہے جس میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کیلئے ہر کوئی ہر حربہ آزمانے کو تیار ہے۔ حواس باختہ 'سماج سیوک‘ نیتا اخلاق باختہ گفتگو سے بھی گریز نہیں کررہے۔ یوں لگتا ہے کوئی سیاسی معرکہ نہیں بلکہ ذاتیات اور گلی محلے کی لڑائی چل رہی ہے۔ ایک دوسرے کی کردار کشی‘ لوٹ مار اور کالے کرتوتوں کی تشہیر پر ہی زور ہے۔ اس دھینگا مشتی میں نہ کوئی احساسِ عوام ہے اور ہی کسی کو اپنی حیثیت اور منصب کا لحاظ۔ ایک دوسرے کو زچ اور زیر کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار 'سماج سیوک‘ نیتا سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی بنا کر عوام کو اس طرح بیوقوف بنا رہے ہیں کہ سیاسی مخالفین سے یہ جنگ عوام کے درد میں لڑی جاری ہے جبکہ عوام ان کی ترجیحات سے کوسوں دور اور کسی ایجنڈے میں شامل ہی نہیں ہیں۔
پون صدی کی بربادیوں اور من مانیوں کا کہیں تو انت ہونا چاہئے ورنہ ہوسِ اقتدار کے ماروں کے منہ کو عوام کی آسوں کا خون لگ چکا ہے۔ ان کے بیانیوں، بھاشنوں، دعووں اور وعدوں کے پیچھے ایک ہی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ آدم بو۔ آدم بو۔ نسل در نسل مخصوص خاندان نجانے کتنی نسلوں کو اپنے شوقِ حکمرانی کی بھینٹ چڑھا کر یہ شوق اپنی اگلی نسل کو منتقل کر جائیں گے اور عوام اسی طرح اپنی بوٹیاں نوچواتے رہیں گے‘ اور اپنے محبوب رہنمائوں کی پرستش اور طواف بھی برابر کرتے رہیں گے۔ آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے‘ قدم بڑھائو ہم تمھارے ساتھ ہیں جیسے دلفریب نعرے لگا کر خود فریبی کے ساتھ ساتھ اپنی بربادیوں کی داستانیں رقم کرتے رہیں گے۔ عوام الناس کو انتہائی قیمتی اور مفید مشورہ دینے تو جا رہا ہوں لیکن اس پر عمل درآمد کی امید اور امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں‘ لیکن مشورہ قرض اور امانت ہوتی ہے۔ حق دار کو دینے میں کوتاہی خیانت کے مترادف ہوتی ہے۔ عوام کو مزید تجربات اور دھوکوں کا شکار ہونے کے بجائے اس سیاسی اکھاڑے میں خود اتر جانا چاہئے۔ جس دن عوام اکھاڑے میں اتر آئے سارے درشنی پہلوان اپنے لنگوٹ سنبھالتے اور سرپٹ بھاگتے نظر آئیں گے۔ عوام کو اس مقدمے میں بھی فریق بن جانا چاہئے جو ملک و قوم کی دولت اور وسائل کو بھنبھوڑنے سے منسوب ہے۔ پیسہ عوام کا اور ملک عوام کا ہے تو عوام مدعی کیوں نہ بنیں؟ ملک اور خزانوں پر ڈاکہ ڈالنے والے ہوں یا ان سے متعلق مقدمات کی پیروی کرنے والے‘ سبھی کو دیکھ کر فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس سارے ڈرامے میں کون کیا ہے؟ انصاف سرکار کے دور میں احتساب کے نام پر ملک و قوم سے کھلواڑ کرنے والوں کا حساب اور احتساب کون کرے گا؟ سرکاری وسائل پر موجیں اور کلیدی عہدوں کی منڈی لگا کر گورننس کو شرمسار اور میرٹ کو تار تار کرنے والے غیرمنتخب مشیروں کا اگلا ٹھکانا کیا ہوگا؟ اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہرگز نہیں۔ درآمدی مشیروں میں کئی لمبا ہاتھ دکھا کر رفوچکر ہوچکے ہیں‘ جبکہ دیگر حصہ بقدر جُثہ وصولی کے ساتھ ساتھ اگلی گھات پر بھی نظر جمائے ہوئے ہیں۔
منو بھائی کی مشہور زمانہ ایک نظم کا یہ شعر بطور استعارہ پیش خدمت ہے:
ساڈے ایس مقدمے وچ
سانوں وی تے گواہ بنا لئو
ان تناظر میں مشورے کا حاصل یہ ہے کہ عوام کو یہ باور کروانا ہو گا کہ ان کے نام پر مزید سیاست کی اجازت نہیں ہو گی۔ بلدیاتی انتخابات ہوں یا عام انتخابات دھوکے پہ دھوکا دینے والوں کا مکمل بائیکاٹ ہونا چاہئے ان کی آنکھیں ووٹر کی راہ دیکھتے دیکھتے بھلے پتھرا ہی کیوں نہ جائیں‘ ووٹ کی مہر کی سیاہی پڑے پڑے ہی سوکھ جائے ان کے بیلٹ باکس ویران اور خالی ہی پڑے رہیں‘ خالی ہی پڑے رہیں۔