"AAC" (space) message & send to 7575

عبادت نہیں تجارت

چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے محاذ آرائی اور من چاہے فیصلوں کے حصول میں ناکامی پر بوکھلائے حکمرانوں کی عدالت عظمیٰ پر چڑھائی ہو یا دھرنوں کے دوران پاکستان ٹیلی ویژن پر قبضہ کی کوشش کرنے والے جمہوریت کے علمبردار‘ سرکاری وسائل کو بھنبھوڑنے والے ہوں یا قومی خزانے کو بے دریغ لٹانے والے‘ اختیارات کو ذاتی کاروبار کے استحکام کے لیے استعمال کرنے والے ہوں یا اثاثوں میں بے پناہ اضافے کی دھن میں مست‘ سب سے لوگ واقف اور آگاہ ہیں۔ مال اسباب اکٹھا کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے سے لے کر سیاسی مخالفین کو زیر عتاب اور سرنگوں کرنے کے لیے سبھی حدیں پار کرنے تک‘ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی بنانے سے لے کر غیر اخلاقی شعلہ بیانی اور گمراہ کن اعدادوشمار کے ساتھ محض الفاظ کا گورکھ دھندہ کرنے تک‘ مخالفین کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے سے لے کر کردار کشی اور نجانے کیسے کیسے الزامات لگانے تک‘ ریاستی مشینری کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے سے لے کر مخالفین کی سرکوبی تک‘ ان کی نیتوں سے لے کر ارادوں اور سبھی بھید بھائو تک یہ لوگ یہ کھیل نجانے کب سے کھلتے چلے آرہے ہیں۔
کیسا کیسا سچ اور کیسے کیسے انکشاف انھیں بے نقاب ہی نہیں بے لباس بھی کیے چلے جارہا ہے‘ لیکن یہ سبھی ڈھٹائی کے پہاڑ بنے ہوئے ہیں۔ خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کے لیے دوسروں پر کیسے کیسے کیچڑ اور غلاظتوں کے ٹوکرے ڈالے چلے جارہے ہیں۔ ارکان کی منڈی لگانے والوں نے یہ دھندہ کب نہیں کیا۔ سیکرٹری پنجاب اسمبلی کے اغوا سے لے کر مری اور چھانگا مانگا کے جنگلوں سے ہوتا ہوا یہ دھندہ ہوٹلوں، فارم ہائوسز، پارلیمنٹ لاجز اور سندھ ہائوس سمیت نجانے کہاں کہاں پھیل چکا ہے‘ بلکہ یہ کہنا بھی شاید بے جا نہ ہوگا کہ یہ دھندہ کرنے والوں نے پورا ملک ہی منڈی بنا ڈالا ہے۔ ارکان کی خرید و فروخت کا الزام لگانے والے حکمرانوں کو بھی یادداشت پر زور ڈالتے ہوئے ریکارڈ درست کر لینا چاہئے کہ 2018 کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کے لیے جو طیارہ سروس چلائی گئی‘ کیسی کیسی ضمانتوں اور یقین دہانیوں کے بعد جو عددی ہدف پورا کیا گیا‘ اسے بھی وہی کچھ کہا جاتا ہے جس کا الزام آج اپوزیشن پر لگایا جا رہا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اپوزیشن میں بیٹھ کر جن اقدامات پر لعن طعن کی جاتی ہے برسراقتدار آنے کے بعد وہ سبھی کچھ مجبوری بنتے بنتے گلے کا طوق بن جاتے ہیں۔
تاہم اپوزیشن حکمرانوں کے بارے میں اور حکمران اپوزیشن کے بارے میں سچی مچی کا سچ بتائے چلے جارہے ہیں۔ نہ کسی کے پاس اس سچ کو جھٹلانے کے لیے کوئی جواز ہے نہ ہی کوئی شرم کا احساس ہے؛ البتہ جواب آں غزل کے طور پر اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی تردید کے بجائے الزام لگانے والے کی طرف توپوں کا رُخ موڑ کر جوابی گولا باری بھی زوروں پر ہے۔ مملکت خداداد کی سیاسی اشرافیہ کی مثال کچھ اس طرح ہے کہ یہ سبھی جس کشتی پر سوار ہیں اسی میں سوراخ کرنے کا مقابلہ بھی جاری ہے اور سوراخ کرنے والوں کا کمال عذر یہ ہے کہ فلاں کا سوراخ میرے کیے ہوئے سوراخ سے زیادہ بڑا ہے۔ یاد رہے کہ کشتی باہر کے پانی سے نہیں اندر کے پانی سے ڈوبتی ہے اور مملکت خداداد کی کشتی سوراخوں سے چھلنی ہے اور مزید سوراخوں کے قابل بھی نہیں رہی‘ لیکن چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے اور یہ سبھی سوار اپنے کیے ہوئے سوراخوں پر اس طرح نازاں اور مطمئن ہیں جیسے کوئی بہت بڑی قومی خدمت یا کارنامہ سرانجام دیا ہو۔
اپنے ایک حالیہ کالم میں ایک فرضی حکایت شیئرکی تھی جس میں مفلوک الحال شخص نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر بادشاہ کی آدھی سلطنت لینے سے انکار کر دیا تھا کہ میں ایک پالتو گدھے کا حساب نہیں دے سکتا‘ سلطنت کا حساب کیسے دے پائوں گا‘ اگر وہ گدھے کا مالک حساب نہیں دے پایا۔ گدھے کے ساتھ بے رحمی اور سختی برتنے پر اس کی کمر کی کھال کوڑے کھانے کے بعد اُدھڑ کر رہ گئی تھی تو یہ حکمران اور حکام اپنی گردنیں اور کھال کیونکر بچا پائیں گے؟ حکمرانی اور اختیارات سے لے کر قومی خزانے اور وسائل سے جڑی دیگر موج مستیوں کا حساب کیسے دے پائیں گے۔ عوام کے مینڈیٹ کا حشرنشر کرنے سے لے کر ان کی حالت کو بد سے بدترین بنانے والے حکمران کون کون سا حساب دیں گے؟ صحت عامہ سے لے کر تعلیم و تربیت تک‘ عدل و انصاف سے لے کر امن و امان تک‘ سماجی و اخلاقی قدروں سے لے کر بنیادی سہولیات تک‘ مفاد عامہ کے کس کس معیار پر یہ پورا اُتریں گے اور کیسے اُتریں گے؟ خدا کی بستی میں ان کی خدائی کے سارے دردناک مناظر شہر شہر، گلی گلی، قریہ قریہ، صبح شام، جا بجا اور ہر سو نظر آتے ہیں۔
سیاسی دنگل ہو یا منڈی، صبح سے لے کر شام تک‘ شام سے لے کر رات اور پھر اگلی صبح تک شفٹوں میں درشن دینے والے یہ سبھی 'سماج سیوک‘ نیتا عوام کے حالات اور مصائب سے بے نیاز وہ سبھی کچھ کیے چلے جا رہے ہیں جو پہلے سے درپیش عذابوں میںمزید اضافے کا باعث ہیں۔ احساسِ عوام سے عاری سیاسی اشرافیہ اپوزیشن میں ہوں یا برسراقتدار، ان کی سوچ کا محور صرف اقتدار ہے۔ یہ اسی سوچ کے طواف میں ساری عمر گزار دیتے ہیں۔ کوئی حصول اقتدار کے لیے مرا جاتا ہے تو کوئی طول اقتدار کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتا ہے۔ عوام نہ ان کی ترجیحات میں ہیں اور نہ ہی کسی ایجنڈے میں۔ انھیں تو اپنے اس دھندے سے غرض ہے جو یہ عوام کے نام پر نسل در نسل کیے چلے جا رہے ہیں۔ ان کے لیے سیاست عبادت نہیں تجارت ہے۔ اس تجارت کو منافع بخش بنانے کے لیے یہ اقتدار میں آتے ہیں اور خدمت کے نام پر عوام کی جو مرمت کرتے ہیں وہ ہم ایک عرصے سے دیکھ ہی رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس منڈی میں سبھی بیوپاری ہوں یا برائے فروخت عناصر‘ ماضی کے حکمران ہوں یا دور حاضر کے‘ کسی کے بارے میں کچھ بھی تو پوشیدہ نہیں رہا۔ ان کی نیتوں سے لے کر ارادوں اور آئندہ کے عزائم تک سب کھل کر سامنے آ چکے ہیں بلکہ ان کے کالے کرتوتوں سے بھری توڑی کی پنڈ سرِ بازار کھل چکی ہے جس کا تنکا تنکا ہوا کے دوش پر اڑتا اور ان کی اصلیت اور نیت کا پتا دے رہا ہے۔ عوام کو مسلسل تنبیہ کیے چلے جا رہا ہوں کہ اس منڈی کے بیوپاری ہوں یا سیاسی سرکس کے بازیگر‘ سبھی سے نجات کا یہ آخری موقع ہے۔ یہ وہ آخری موقع جو اشرافیہ نے عوام کو خود فراہم کیا ہے۔ ایک دوسرے کے پول کھولنے سے لے کر کالے کرتوت بے نقاب کرنے تک عوام کو ان سبھی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کیسا کیسا جواز اور ثبوت فراہم کیا گیا ہے۔ آزمائے ہوئے سبھی 'سماج سیوک‘ نیتائوں کا مکمل بائیکاٹ کر کے ہی ان سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ ورنہ یہ سبھی بازیگر نیا جال بھی تیار کرچکے ہیں اور عوام ایک بار پھر ان کے جھانسوں اور دھوکے میں آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ طرز حکمرانی اور مسلسل من مانی عوام کیلئے عذاب مسلسل ہی ثابت ہوئی ہے۔ ان سبھی سے نجات حاصل کرنے کیلئے قومی مفادات پر مبنی ایجنڈا تشکیل دے کر لانگ ٹرم ریلیف پلان لانا ہو گا۔
ماضی کے سبھی ادوار سے لے کر لمحہ موجود تک طرز حکمرانی کے جو جوہر عوام پر آزمائے جا چکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سیاسی اشرافیہ سے لے کر انتظامی مشینری تک سبھی کے منہ کو عوام کاخون لگ چکا ہے۔ اس لت میں لت پت یہ سبھی مل کر مملکت خداداد کو اس مقام پر لے آئے ہیں کہ عوام کی خستہ حالی کا کوئی انت نہیں ہو رہا۔ خدا جانے کیا چمتکار ہے کہ غریبوں کے لیے کام کرنے والے امیر سے امیر تر جبکہ غریب زندہ درگور ہوتا چلا جا رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں