سیاست بھی کتنی بے رحم چیز ہے۔خوب کو ناخوب اور ناخوب کو خوب بنتے دیر نہیں لگتی۔حصول ِاقتدار ہو یا طولِ اقتدار۔ اہداف کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے والے اپنے نظریات ‘ افکار اور اخلاقیات فراموش کرنے کے علاوہ اپنے اقوال اور بیانیوں سے منحرف ہوکر کس قدر نازاں اور شاداں دکھائی دیتے ہیں۔تختِ پنجاب کی مفلوج گورننس اور تار تار میرٹ کا طویل دورانیہ اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔جس کی قابلیت اور خصوصیات کے قلابے ملاتے وزیراعظم نہ تھکتے تھے۔جس کی نامعلوم کارکردگی کو لاہور کے ہر دورے پر سراہا کرتے تھے وہ بتدریج اندرونی مزاحمت کے ساتھ ساتھ سبکی ‘ جگ ہنسائی اورڈھیروں بدنامیوں کے علاوہ اس طرح گلے کا طوق بن گئی کہ تختِ پنجاب کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت بھی نہ صرف بھنور میں پھنستی چلی گئی بلکہ حکومتی وکٹ بچانے کے لیے کیسے کیسے جتن کیے جارہے ہیں۔ روٹھوں کو منانے کے علاوہ منتیں اور ترلے بھی بدستور جاری ہیں۔ جسے وسیم اکرم پلس کہا کرتے تھے‘اس نے نجانے کیا کچھ مائنس کرڈالا۔
جس کے بارے میں وزیراعظم برملا کہا کرتے تھے کہ اکٹھے آئے ہیں‘ اکٹھے ہی جائیں گے‘مجبوریو ں اور مصلحتوںکا شکنجہ اس قدر مضبوط ثابت ہوا کہ اپنے پسندیدہ وسیم اکرم پلس کو اقتدار کی کشتی سے یوں اتار ڈالا جیسے اضافی بوجھ اتارتے ہیں۔ وفاقی حکومت کو درپیش خطرات اور عدم اعتماد کی صورت میں بجنے والی خطرے کی گھنٹی نے پوری حکومت کو دہلا کر رکھ دیااور ردِبلا کے لیے تختِ پنجاب کی قربانی دے کروفاقی وکٹ کو بچانے اور حلیفوں کومطمئن اور شریک سفر رکھنے کی ایک بھرپور کوشش کی گئی ہے۔شایدقدرت کو یہی منظور تھا کہ عثمان بزدار نے بھرپور مخالفت اور مزاحمت کے باوجود وزیراعلیٰ بننا تھا اور پھر مشکل وقت میں اپنے قائد عمران خان کے اقتدار کے لیے اپنی وزارتِ علیا کی قربانی دے کر امر ہوجانا تھا۔اگر عثمان بزدار کی جگہ کوئی اور وزیراعلیٰ ہوتا تو یقینا اس قدر آسانی کے ساتھ ہنسی خوش خود کو قربانی کے لیے پیش نہ کرسکتا۔ ممکن ہے وزیراعظم نے انہیں اسی دور اندیشی کے تحت وزیراعلیٰ بنایا ہو کہ میرے مشکل وقت میں کام آسکتا ہے۔
عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنانے کی مخالفت اور مسلسل تنقید کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ انہیں وزیراعلیٰ بنائے رکھنے کی ضدپر وزیراعظم یونہی نہیں ڈٹے ہوئے تھے۔ آج وہ دور اندیشی اور ویژن نہ صرف کام آیا بلکہ آخری وقت پر ترپ کا پتا پھینک کر وزیراعظم نے اپوزیشن کی نہ صرف نیندیں اڑا دیں بلکہ پارٹی کو بھی مزید ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کے علاوہ وزارت علیا کے لیے اپنے حلیف پرویز الٰہی کو نامزد کرکے کمزور گورننس کوانرجی بوسٹر پلا ڈالا۔اب شاید پٹڑی سے اتری انتظامی مشینری ڈلیور کرنے کے قابل ہوجائے۔ چوہدری پرویز الٰہی اس اعتبار سے قسمت کے دھنی ہیں کہ ماضی میں انہیں قاتل لیگ کے نام سے پکارنے والے آصف علی زرداری کو استحکام اقتدار کے لیے ان سے نہ صرف مفاہمت کے لیے ہاتھ ملانا پڑا بلکہ سیاسی تعاون کے عوض انہیں ڈپٹی پرائم منسٹر بھی بنانا پڑا۔ اسی طرح عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کامیاب کروانے کی صورت میں پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بننے کی پیشکش کرنے کے لیے شہباز شریف کو آمادہ نہیں کیا بلکہ ضامن بھی بننا پڑا۔اسی طرح تخت پنجاب کے خلاف عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے وزیراعظم عمران خان کو اپنے قریبی عثمان بزدار کی قربانی دے کر اس چوہدری پرویز الٰہی کووزیراعلیٰ نامزد کرنا پڑاجن سے وہ نالاں اور انہیں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا کرتے تھے۔
اس تناظر میں چوہدری پرویز الٰہی ہر دور میں ناگزیر اہمیت کے حامل نظر آنے کے ساتھ ساتھ اپنی طرز سیاست کے بل بوتے پرممتاز نظر آتے ہیں۔گویا جو بے زار تھے مجھ سے مجھے ان کا سلام آیا۔چوہدری پرویز الٰہی کی نامزدگی کے بعد تختِ پنجاب کی صورتحال مزید ڈرامائی ہوچلی ہے۔ عدم اعتماد کے جواب میں عثمان بزدار کا استعفیٰ اور پرویز الٰہی کی نامزدگی سے تحریک کی محرک جماعتوں کے ارمانوں پر اوس ہی نہیں پڑی بلکہ اچھی خاصی ژالہ باری ہوچکی ہے۔ نئی حکمت عملی کے ساتھ ایک بار پھر جوڑ توڑ کے لیے رابطے جاری ہیں۔ تاہم ترین گروپ اور علیم خان گروپ توجہ اور اہمیت کا مرکز بن چکا ہے۔ حکومت ان سے بھی تعاون اور مفاہمت کی متمنی ہے کہ ان کے مطالبات مان لیے گئے ہیں ۔ مائنس عثمان بزدار کے بعد انہیں اپنی پارٹی کو سپورٹ کرنی چاہئے تاہم جہانگیر ترین اور علیم خان کا وزن ہی ثابت کرے گا کہ کس کا پلڑا بھاری ہے۔ بغلیں بجانے والے تھوڑا صبر کریں اور خاطر جمع رکھیں کیونکہ یہاں کچھ بھی حتمی اور مستقل نہیں ہے۔یہاں پل بھر میں نصیب بگڑتے اور بنتے ہیں۔صبح کے تخت نشیں شام کو کٹہروں میں دکھائی دیتے ہیں۔ایسے ویسے کیسے کیسے اور کیسے کیسے ایسے ویسے بنتے ذرا دیر نہیں لگتی۔ہماری سیاسی تاریخ سیاست کے ان کھیل تماشوں سے بھری پڑی ہے۔
مفادات کے ماروں کو کب اصولی سیاست اور عوام کے درد کا بخار چڑھ جائے اور وہ وفاداری کب کہاں فروخت کر ڈالیں۔بند کمرے کی ملاقاتیں اور راز و نیاز کب وائٹ پیپر بن جائیں۔حریف حلیف اورحلیف کب حریف بن جائیں۔ ہماری سیاست اور سیاسی بازیگر ضرورتوں ‘ مصلحتوں ‘ مجبوریوں اور مفادات کے گرد طواف نہ کریں تو یہ رہبری اور لیڈری کے منصب پر فائز ہی کہاں ہوتے ہیں۔ وطن عزیز کا سیاسی منظر نامہ پہلی بار منڈی اور اکھاڑا نہیں بنا‘تاہم سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کی وجہ سے اندر کی بات باہر آتے دیر نہیں لگتی‘ ورنہ ماضی میں لگنے والی منڈیا ں اور اکھاڑے بھی شرمندگی اور رسوائی کے لیے کافی ہیں۔مئی1993 ء میں سیکرٹری پنجاب اسمبلی چوہدری حبیب اللہ گورائیہ کے اغوا سے لے کر راتوں رات وفاداریوں اور حلف برداریوں سے کھلے عام انحراف کرنے والوں کی نسلیں آج بھی ان اکھاڑوں اور منڈیوں کو زندہ اور رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔اپنی اپنی مجبوریوں اور مصلحتوں کے مارے جمہوریت کے یہ سبھی چیمپئنز مینڈیٹ بیچنے سے لے کر ضمیر اور عوام کو دکھائے گئے سبھی خواب بہ آسانی بیچ کر ہر دور میں اپنی دنیا سنوار لیتے ہیں۔گویا سب کچھ ہی بکائو ہے۔مایوس کن حالات پر ماتم اور مزید وضاحت کے لیے افتخار عارف کے چند اشعار بطور استعارہ پیش خدمت ہیں۔
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا
مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا
دلِ نا مطمئن ایسا بھی کیا مایوس رہنا
جو خلق اٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہوگا