اے ربِ کعبہ تجھے تیری شانِ کریمی کا واسطہ‘ شاہِ مدینہ کے صدقے اس ملک و قوم پر رحم فرما۔ ان کے کردہ‘ ناکردہ سبھی گناہوں کو معاف فرما۔ ان غلطیوں‘ کوتاہیوں اور فیصلوں پر بھی درگزر فرما جن کے نتیجے میں پون صدی سے اپنے اوپر ایسے حکمران مسلط کیے چلے جا رہے ہیں جنہوں نے تیرے عطا کردہ خطے میں وہ اُدھم مچا رکھا ہے کہ الامان والحفیظ۔ آئین اور حلف سے انحراف ہو یا ضابطوں اور اداروں سے تصادم۔ گورننس اور میرٹ کی درگت سے لے کر اخلاقیات کو لیرولیر کرنے تک۔ جھوٹ کا ڈھول بجا کر سچ کی آواز دبانے سے لے کر جائز و ناجائز کا فرق مٹانے تک‘ حرام حلال سے بے نیاز ہوکر سرکاری وسائل کو بھنبھوڑنے سے لے کر کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ تک۔ صادق اور امین کے معانی الٹانے سے لے کر قومی خزانے پر شکم پروری کرنے تک۔ مظلوم کی آواز دبانے سے لے کر ظالم کی سربلندی تک۔ دادرسی اور انصاف کے لیے دربدر بھٹکنے والوں کی دھتکار اور پھٹکار سے لے کر ان کو خود سوزیوں پر مجبور کرنے تک۔ حصولِ اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک کسی بھی حد سے گزر جانے والے ان سبھی حکمرانوں نے مملکتِ خداداد کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں یہ بھی فراموش کر بیٹھے ہیں کہ یہ ساری موجیں، سبھی تام جھام اور اقتدار کے سارے مزے ملک و قوم ہی کے مرہون منت ہیں۔ اے خالق و مالک بس تیرا ہی آسرا ہے۔ تو ہی کارساز اورہر چیز پر قادر ہے۔ یہ سیاسی اشرافیہ ملک کو تباہی کے اس دہانے پر لے آئی ہے کہ سیاسی اختلافات ذاتی دشمنیوں میں بدل چکے ہیں۔ گویا یہ مملکتِ خداداد نہیں کسی کے باپ دادا کی کوئی وراثتی حویلی ہے جس کے حصول کے لیے یہ ایک دوسرے سے دست و گریباں اور گتھم گتھا ہیں۔ حصول اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک کے لیے ان کے پاس کیسے کیسے ڈھکوسلے اور کیسے کیسے گھڑے گھڑائے جواز اور حیلے موجود ہوتے ہیں۔ اپنی کارکردگی پر اٹھنے والے سوالات کے جواب میں پیش کیے جانے والے سبھی عذر ان کی بے بسی اور نالائقی کا کھلا پتا دیتے ہیں۔
احترامِ آدمیت سے لے کر غیرتِ قومی تک نجانے کیا کچھ تارتار کرنے والی سیاسی اشرافیہ کا جمہوری حسن نہ صرف بدبودار اور بھیانک ثابت ہو چکا ہے بلکہ اس کے کرتوتوں نے جھوٹ اور مکاری بھی کھول کررکھ دی ہے۔ یہ سبھی جمہوریت کے پرچارک عوام سے مینڈیٹ لینے کے لیے کیسے کیسے دعوے اور وعدے تو کرتے ہیں لیکن برسراقتدار آنے کے بعد بدعہدیوں اور بے وفائیوں کے ساتھ ساتھ سرکاری وسائل پر کنبہ پروری اور بندہ پروری کے علاوہ کلیدی عہدوں کو مصاحبین کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی روایت روزِاول سے جاری و ساری رہی۔ کہیں کوئی حصولِ اقتدار کیلئے بے تاب ہے تو کوئی طولِ اقتدار کے لیے سب کچھ کرگزرنے کو تیار ہے۔ جس بیرونی مداخلت اور سازش کو جواز بنا کر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد کی گئی‘ وہ عذر ان کی کارکردگی اور اہلیت پر اٹھنے والے سوالات کا سامنا کرنے کے قابل نہیں۔ عمران خان جس خط کو جواز بنا کر پاکستان کو امریکہ جیسی عالمی طاقت کے مقابل فریق بنا چکے اور مشکل ترین حالات سے دوچار کرچکے ہیں اس کے نتائج اور ردعمل آج نہیں تو کل ملک و قوم کو بھگتنا پڑیں گے۔ ویسے بھی یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ عمران خان ایسا کیا کر رہے تھے جو مغربی طاقتوں کو ناگوار گزرا؟ ان کی شعلہ بیانی اور بیباک گفتگو خارجہ پالیسی کو بھی متاثر کرتی رہی ہے۔ اسی وجہ سے وہ داخلی اور خارجی محاذ پر یکساں طور پر پریشان ہی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی طور پر تنہائی اور دوست ممالک سے تعلقات بتدریج سرد مہری کا شکار کرنے کے ساتھ ساتھ داخلی امور میں بھی خود فریبی کا شکار رہے۔ جس بیرونی سازش اور خط پر نیا بیانیہ اختیار کیا گیاہے وہ زیادہ دیر چلنے والا نہیں کیونکہ ہمارے ہاں تو مغرب کے بھیجے ہوئے منیجرز کو وزیراعظم تک بنایا جاتا رہا ہے۔ معین قریشی اور شوکت عزیزکو ریڈ کارپٹ پر قطار میں کھڑے خوش آمدید کہنے والے سبھی کا شمار آج بھی ان سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے جو اقتدار کی چھینا جھپٹی میںدست و گریباں ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرکے قومی اسمبلی تحلیل کردی گئی ہے۔ اپنے اپنے دانشوروں کے ذریعے بیانیہ فروشی بھی عروج پر ہے۔ حکومت کو زعم ہے کہ اس نے آئینی حق استعمال کیا ہے جبکہ اپوزیشن اس اقدام کو صریحاً آئین کی خلاف ورزی قرار دے رہی ہے۔ عمران خان اس عوام کے پاس جانے کی بات کررہے ہیں جنہیں انہوں نے مایوسیوں اور وعدہ خلافی کے سوا کچھ نہ دیا۔ سرکاری اداروں اور وسائل کو مشیروں کے حوالے کرکے انہوں نے احتساب سمیت کتنے ہی قومی و صوبائی اداروں کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے یہ سبھی اقدامات ماضی کے حکمرانوں کی بدترین طرزِ حکمرانی کا ریکارڈ توڑتے نظرآتے ہیں۔ ایک بار پھر انتخابات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ پھر سٹیج لگے گا۔ جھوٹے سچے وعدے کیے جائیں گے۔ گمراہ کن اور دلفریب جھانسے دیے جائیں گے اور یہی سیاسی اشرافیہ ایک بار پھر برسر اقتدار آکر ملک و قوم کوانہی حالات سے ایک بار پھر دوچار کرے گی جن کو جھیلتے اور بھگتتے پون صدی بیت چکی۔
پون صدی کی بربادیوں اور من مانیوں کا کہیں تو انت ہونا چاہئے۔ ایسی جمہوریت کے حسن کو بے نقاب کر کے اس کا اصل اور گھنائونا چہرہ اسی طرح وائرل ہونا چاہیے جس طرح یہ سیاسی وڈیرے ایک دوسرے کی کردار کشی کرتے ہیں۔ یہ سبھی آزمائے ہوئے ہیں اور عوام ان سے بار بار ڈسے جا چکے ہیں۔ عوام الناس کو انتہائی قیمتی اور مفید مشورہ ایک بار پھر دینے جارہا ہوں لیکن اس پر عمل درآمد کی امید اور امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ عوام کو مزید تجربات اور دھوکوں کا شکار ہونے کے بجائے اس سیاسی اکھاڑے میں خود اتر جانا چاہئے۔ جس دن عوام اکھاڑے میں اتر آئے سارے درشنی پہلوان اپنے لنگوٹ سنبھالتے اور سرپٹ بھاگتے نظر آئیں گے۔ عوام کو اس مقدمے میں بھی فریق بن کراس جمہوریت سے پناہ مانگ لینی چاہئے۔ جمہوریت کے حسن کے سحر سے باہر نکل کر ان بھیانک حقائق اور اس بہروپ کی حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے ان سیاسی رہنماؤں کا ایسا بائیکاٹ جو گھروں میں محصور کرکے رکھ دے۔ یہ عوام سے ووٹ مانگنے سے پناہ مانگتے پھریں۔ تب کہیں جاکر ان کی بربادیوں کا انت ہوسکتا ہے ورنہ یہ حسن ایسے اندھیرے پھیلائے گا کہ روشنی بھی پناہ مانگتی پھرے گی۔
مملکت خداداد کو جس مقام پر پہنچا دیا گیا ہے وہاں عوام کا سوچنا بنتا ہے کہ اب آگے کیا کرنا چاہئے۔ بقا صرف اسی صورت ممکن ہے کہ ایک ایسا قومی ایجنڈا تشکیل دیا جائے جو صرف پاکستان کی سالمیت اور عوام کی بحالی اور خوشحالی سے مشروط ہو۔ ایجنڈے کی تکمیل کے لیے دردِ دل رکھنے والے غیر متنازع ماہرین کو مینڈیٹ اور اختیار دیے جا سکتے ہیں کہ قومی ایجنڈے کی راہ کوئی رکاوٹ پیدا نہ کر سکے۔ ایک با اختیار اور لانگ ٹرم سیٹ اپ ہی جمہوریت کا اصل روپ دکھا سکتا ہے۔ ورنہ وہی اکھاڑا‘ وہی منڈی‘ وہی عدم اعتماد‘ وہی الیکشن‘ وہی لانگ مارچ‘ وہی دھرنے‘ وہی احتجاج اور وہی جلوس ملک و قوم کا مستقل مقدر بن کر رہ جائیں گے۔