مملکت خداداد پر حکمرانی کے لیے تئیسویں وزیراعظم اوران کابینہ نے حلف اٹھا لیا ہے۔ مصائب اور آلام کا کوہ ہمالیہ اٹھائے ایک اور دور شروع ہوچکا ہے اور مصائب بھی ایسے کہ نسل در نسل بھگتنے کے باوجود بدستور بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ خدا جانے کیسا کھیل اور کون سا تماشا جاری ہے۔پون صدی کے دوران ٹوٹنے والی قیامتیں ہوں یا سیاہ بختی۔سبھی حکمرانوں میں ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے کہ یہ سارے ہی نہ صرف عوام کے درد میں مبتلا ہیں بلکہ خود کو ملک وقوم کا مسیحا ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔عوام دوست حکمران عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کس طرح شہر شہر پھرتے ہیں‘اسی عوام کی خاطربین الاقوامی دوروں کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے ہیں۔ اگر عوام کا درد نہ ہو تو انہیں کیا پڑی ہے کہ اپنے اچھے خاصے وسیع و عریض محلات چھوڑ کر قصرِ اقتدار میں جا بسیں۔ یہ عوام ہی کا درد ہے کہ بیچاروں کو اپنی لگژری گاڑیوں کے باوجود سرکار ی گاڑیوں کے علاوہ کبھی ہیلی کاپٹر تو کبھی چارٹرڈ طیاروں میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ اپنے گھروں میں نوکروں اور خانساموں کی فوج کے باوجود یہ سرکاری کچن میں تیار ہونے والے انواع واقسام کے پکوان اڑانے پر مجبور ہیں۔
وزیروں اور مشیروں کی آنیاں جانیاں ہوں یا اللے تللے۔سرکاری ضیافتیں یا محفلِ یاراں‘ یہ سبھی کچھ عوام کے درد میں ہی توجاری و ساری ہے۔ بخدا ان سبھی سماج سیوک نیتائوں پر واری واری جانے کو دل کرتا ہے کہ عوام کا جو درد پون صدی پہلے کے حکمرانوں میں پایا جاتا تھا وہ درد کئی اضافوں کے ساتھ آج بھی اسی طرح پایا جاتا ہے۔ کئی دہائیوں سے اخبارات کے موضوعات سے لے کر عوام کے مسائل اور حکمرانوں کے بیانات اور بھاشن آج بھی جوں کے توں ہیں۔پون صدی میں شوقِ حکمرانی پورے کرنے والے حکمرانوں سے لے کر لمحہ موجود تک سبھی کے بیانات کم و بیش یکساں اورمخصوص مائنڈ سیٹ کی پیداوار دکھائی دیتے ہیں۔ان کی طرزِ حکمرانی کے کیسے کیسے روپ اور بہروپ نجانے کب سے بے نقاب ہوتے چلے آرہے ہیں۔ عوام بھی بلا کے ڈھیٹ اور عادی ہوچکے ہیں۔انہیں بخوبی علم ہے کہ ان کے درد میں ہلکان سیاسی رہنمائوں کے دیے ہوئے درد کا کوئی علاج نہیں تاہم عوام کی اکثریت اس جنت کی باسی ہے جو نجانے کب سے درد دینے والوں اوردرد بڑھانے والوں کو اپنے درد کا مداوا سمجھے چلے جارہی ہے۔خدا جانے احمقوں کی یہ جنت کب تک قائم رہتی ہے۔جب تک یہ جنت قائم ہے درد دینے والے 'سماج سیوک‘ نیتا بھی قائم و دائم ہیں۔۔
عوام کی آسوں‘ امیدوں اور خوابوں سے لے کر ملک اور قوم کے استحکام اور مستقبل تک سبھی کا قتلِ عام کے ساتھ ساتھ بد سے بدترین ہوتے حالات کا ماتم بھی بدستور جاری ہے۔کیا چمتکار ہے کہ جائز ناجائز‘ حرام حلال‘ حق ناحق‘ ظالم اور مظلوم سبھی کا فرق اس طرح مٹا ڈالا ہے کہ فیصلہ کرنا ہی مشکل ہوچلا ہے۔اہداف کا حصول ہی نصب العین بن جائے توایوانوں میں اٹھائے جانے والے حلف اور قانون اور ضابطوں سمیت اخلاقی و سماجی قدروں کی پروا کون کرتا ہے۔حصولِ اقتدار ہو یا طول اقتدار۔اقتدار سے بے دخل ہونے کا خوف ہو یا اقتدار میں آنے کی خواہش دونوں صورتوں یہ سبھی سماج سیوک نیتا خوف اور خواہش کے درمیان پنڈولم بنے جھولتے چلے آرہے ہیں۔ پُرتشدد کارروائیوں سے لے کر قتل و غارت جیسے قبیح جرائم سے بھی نہیں چوکتے۔ان سماج سیوک نیتائوں کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہوں یا بد ترین مخالف‘ حلیف ہوں یا حریف‘ ایک دوسرے کو عوام دشمن قرار دینے والے ہوں یا وطن دشمن‘ ہرزہ سرائی کرنے والے ہوں یا کردار کشی کرنے والے‘ سبھی ایک ہی سکے کے دو رُخ محسوس ہوتے ہیں۔
ایسے نیتائوں کے لیے عوام اپنا کیا کچھ دائو پر نہیں لگا ڈالتے؟ عوام کو خبر تک نہیں ہوتی کہ کب انہوں نے اپنی وفاداریوں اور بیانیوں کو اپنی مجبوریوں اور مصلحتوں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ ہمیشہ عوام کو یہی دلاسا دیا جاتا ہے کہ ان کا یہ اقدام ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ ملک و قوم کے مفادات کاحال تو سبھی کے سامنے ہے؛ تاہم ان کے ایسے اقدامات ان کے اپنے مفاد میں اور سود مند ضرور نظر آتے ہیں۔ عوام کے لیے تو قربانیاں اور انتظار لکھ دیا گیا ہے۔سیاسی شعبدہ بازی ہو یا گمراہ کن بیانیوں سے عوام کو بھٹکانے کی کوئی نئی کوشش۔قوم کو تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے مدمقابل اور دست و گریباں کرنے کی بھیانک سازش بھی ہے۔ عوام کو کہیںپاگل بنائے رکھا گیا ہے تو کہیں دیوانہ۔ کسی الیکشن میں حریف بن کر تو کسی الیکشن میں حلیف بن کر عوام کو کس طرح کھلا دھوکا دیتے جا رہے ہیں اور عوام کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھنے کے باوجود نجانے کس مغالطے اور گمراہی کا شکار ہیں کہ انہیں نہ تو کوئی احساس ہے نہ ہی کہیں ہوش آتا دکھائی دیتا ہے۔
خدا جانے کوئی غفلت ہے یا کوئی سزا‘سالہا سال سے انہی رہنمائوں کو آزمائے چلے جا رہے ہیں۔ کتنی ہی نسلیں بدل گئیں۔ بوئے سلطانی کے جوہر آزمانے والے خاندان بھی وہی ہیں اور شوقِ حکمرانی کا شکار ہونے والے عوام بھی وہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دونوں طرف دادا کی جگہ پوتا اور باپ کی جگہ بیٹا۔ نسل در نسل حاکم بھی وہی اور محکوم بھی وہی چلے آرہے ہیں۔ یہ سلسلہ بدلتا نظر نہیں آتا۔
کیسے کیسے سانحات‘ حادثات اور صدمات قوم کا مقدر بنتے چلے آئے ہیں۔ جب بھی آئی‘ جہاں سے بھی آئی‘ بری خبر ہی آئی۔ ہر دور میں وطنِ عزیز کے سبھی حکمران اور ان کے رفقا و مصاحبین جہاں قوم کے پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق بنتے رہے‘ وہاں عوام کے لیے بھی کبھی آزمائش تو کبھی مصائب کا ہی باعث بنتے چلے آ رہے ہیں۔ برسہا برس بلکہ دہائیاں گزر جائیں‘ کتنے ہی حکمران بدل جائیں‘ کتنی ہی رُتیں اور موسم بدل آئے اور گزر گئے ‘مگرعوام کے نصیب نہیں بدلتے۔ روزِ اول سے لمحہ موجود تک ان کے مسائل اور مصائب جوں کے توں ہیں۔ انہیں عوام کا کوئی درد ہے اور نہ ہی ملک و قوم کے استحکام سے کوئی سروکار۔ دکھ ہی دکھ‘ دھوکے ہی دھوکے‘ لٹنا اور مٹنا عوام کا مقدر بنتا چلا جا رہا ہے۔
خوش حالی کے سنہری خواب ہوں یا اچھے دنوں کی آس‘ نہ خوابوں کو تعبیر ملتی ہے نہ آس پوری ہوتی نظر آتی ہے۔ بس یہی خلاصہ ہے وطنِ عزیز کی اکثریت کی زندگانی کا۔سراب کے پیچھے بھاگتے بھاگتے بالآخر قبروں میں جا سوتے ہیں۔ نسل در نسل رلتے اور دربدر بھٹکتے عوام کو کبھی سوچنے کی توفیق ہی نہ ہوئی کہ ان کے خوابوں ‘ امیدوں اورآسوں کا اگر قتل ہوا ہے تواس کا کوئی قاتل بھی ہوگا۔انہوں نے اگر پے در پے دھوکے کھائے ہیں تو کوئی دھوکہ دینے والا بھی یقینا ہوگا۔ان کے بچے اگر اچھی تعلیم اور پیٹ بھر روٹی سے محروم رہے تو اس محرومی کا ذمہ دار بھی تو کوئی ہوگا۔داد رسی اور انصاف میں کہیں رکاوٹ ہے تو رکاوٹ پیدا کرنے والا بھی ضرور ہوگا۔ملک و قوم کا خزانہ اگر لوٹا گیا ہے تولٹیرا بھی تو کوئی ہوگا۔ لوگ بنیادی ضرورتوں سے محروم چلے آرہے ہیں تومحروم کرنے والا بھی کوئی ہوگا۔ان کے بگڑے نصیب باوجود کوشش کے نہ سنوریں تو انہیں بگاڑنے والا بھی یقینا کوئی ہو گا۔ سڑکوں پر ناحق بہتا ہوا خون ہے تو اسے بہانے والا بھی کوئی ہوگا۔ان کے بچوں کے ہاتھ میں کتاب کے بجائے ہتھیاراور اوزارہیں تو کتاب چھیننے والا بھی تو کوئی ہوگا۔کاش! عوام یہ سوچنے کے قابل ہوتے۔