"AAC" (space) message & send to 7575

ایسے تو گھر نہیں چلتا

اقتدار کی شدتِ طلب دیوانہ بنائے رکھتی ہے۔ حصولِ اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک کسی بھی حد تک گزر جانے والے رہنمائوں نے اس ملک میں ایسا ایسا کھلواڑ کیا ہے کہ لگتا ہے نہ کسی کو منصب کا لحاظ ہے نہ تمیز۔ احترامِ آدمیت سے لے کر تحمل‘ بردباری اور برداشت تک ہر طرح کی صفات تو جیسے نا پید ہی ہو گئی ہیں۔ آئین کا احترام تو درکنار قانون اور ضابطے بھی ٹھوکر پر رکھنے والے جمہوری قدروں سے بے نیاز ہو کر حصولِِ اقتدار کے لیے آسمان سر پہ اٹھائے ہوئے ہیں‘ تو کوئی طولِ اقتدار کے لیے بھاگا پھر رہا ہے۔ دنیا بھر میں با شعور اقوام اپنے حکمران منتخب کرتے ہوئے ان کی نیت اور ارادوں سے لے کر اہلیت اور کارکردگی سمیت نجانے کیا کچھ مدنظر رکھتی ہیں مگر یہاں ووٹ کو عزت دو جیسے بیانیے کے خالق ووٹر کی درگت برابر بناتے رہے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاںشخصیت پرستی کا موتیا عوام کی آنکھوں میں ایسا اترا ہے کہ انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ قیمے والے نان اور بریانی کی پلیٹ کے لیے قطاروں میں لگ کر مینڈیٹ دینے والوں نے اتنی ترقی ضرور کر لی ہے کہ یہ اب کارکردگی کے بجائے بیانیوں سے متاثر ہو کر اندھی تقلید کرنے لگے ہیں۔ سبھی کے حلقۂ احباب میں کچھ ایسے کردار ضرور ہوتے ہیں جن کے خلاف کسی کو سازش کرنے کی زحمت نہیں کرنا پڑتی کیونکہ وہ اپنے خلاف سازش کا خود کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اسی طرح مسلسل بے اعتدالیوں کے بعد کسی سازش کی ضرورت باقی رہتی ہے؟ ہمارے ہاں سازش کا بیانیہ اس قدر سپر ہٹ ہو چکا ہے کہ دیوانہ وار تقلید کرنے والوں کو یہ خیال بھی نہیں رہا کہ اس کے نتائج ملک و قوم کے خلاف بھی جا سکتے ہیں۔
امپورٹڈ حکومت نامنظور کا ٹاپ ٹرینڈ بیانیہ کھڑکی توڑ رش تو لے رہا ہے لیکن بیرونی مداخلت پر قوم کو اکسانے والوں پر بھی آفرین ہے کہ وہ اپنے ماضی کو اس قدر آسانی سے فراموش کر کے عوام کو بے وقوف بنائے چلے جا رہے ہیں‘ اور عوام ٹھہرے سدا کے ''لائی لگ‘‘۔ کسی شخصیت کے سحر میں ایک مرتبہ کھو جائیں تو انہیں بازیاب کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ جوتوں اور پیاز والا معاملہ ہو جائے تو ہی پلٹتے اور ہوش میں آتے ہیں۔ ریڈ کارپٹ بچھائے کیسے کیسے اونچے شملے‘ حسب و نسب اور قد کاٹھ والے‘ قطار میں کھڑے ہو کر شوکت عزیز کو خوش آمدید اور جی آیاں نوں کہنے والے آج کس طرح امپورٹڈ حکومت نامنظور کا بیانیہ مارکیٹ کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ایک تصویر ان سبھی کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہے‘ جس میں شوکت عزیز اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا رہے ہیں اور ان کے ارد گرد پائے جانے والے وہ سبھی بہ آسانی دیکھے اور پہچانے جا سکتے ہیں جو آج بیرونی مداخلت اور سازش کا بیانیہ فروخت کر رہے ہیں۔ اُس وقت تو کسی کی مجال اور جرأت نہیں ہوئی کہ یہ سوال کر سکتا کہ ملک کے طول و عرض میں کیا کوئی مائی کا لعل ایسا نہیں جو شوکت عزیز کا متبادل ہو سکتا؟ اسی طرح معین قریشی کو فرشی سلام کرنے والوں کی غیرتِ قومی کو بھی سلام ہے۔
حصول اقتدار کے لیے نت نئے ڈھونگ‘ جواز اور حیلے مارکیٹ کرنے والے اپنے گندے کپڑے ضرور دھوئیں لیکن خیال رہے کہ اس کے چھینٹے قومی اداروں پر نہ پڑیں۔ حصولِ اقتدار کے لیے اداروں کی حمایت میسر ہو تو یہ زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ 2018ء کے عام انتخابات کے نتائج کا کریڈٹ لینے والے اس بات کو کیسے بھول سکتے ہیں‘ جبکہ اداروں کو جانبداری کے طعنوں سے لے کر سابق حکومت کی طرزِ حکمرانی اور مالی و انتظامی بدعنوانیوں کی قیمتیں چکانا پڑی ہیں۔ جس دور میں گورننس اور میرٹ کے حشر نشر کے ساتھ ساتھ صادق اور امین کے معنی بھی الٹا کر رکھ دیے جائیں‘ ناکامیوں اور بدنامیوں کو گمراہ کن بیانیوں سے دھویا اور چھپایا ہرگز نہیں جا سکتا۔ گھر کا سربراہ اگر اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے نیوٹرل ہو جائے تو گھر نہیں چلتا تو پھر ملک کیسے چل سکتا ہے۔ قومی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی اور اشتعال انگیزی عوام کو گمراہ کرنے کی سازش ہے۔ یہ طرزِ سیاست خارجی محاذ پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ داخلی استحکام کے لیے بھی خطرہ بنتا چلا جا رہا ہے۔ خدارا سیاست کریں ملک اور ملکی استحکام کی علامت اداروں کے ساتھ محاذ آرائی نہ کریں۔ عوام کے پاس آتے ہیں تو اپنی کارکردگی مارکیٹ کیا کریں۔ عوام کو کنفیوژ اور گمراہ کرکے اپنی بدترین طرز حکمرانی کو چھپانے کی کوشش نہ کیا کریں۔ اُن اسباب کو تلاش کریں‘ ان وجوہات کو ڈھونڈیں‘ ان مشیروں اور وزیروں کی نشاندہی کریں‘ ان سر چڑھے مصاحبین اور سرکاری بابوئوں کو یاد کریں‘ اس ہٹ دھرمی اور ضد کو یاد کریں جس کی وجہ سے آپ کی مقبولیت کے چمکتے چاند کو گرہن لگتا چلا گیا۔ ساڑھے تین سال کی حکمرانی میں اگر کہیں دم خم ہوتا تو آج عوام کے جذبات سے کھیلنے اور انہیں اکسانے کی ضرورت ہرگز نہ پیش آتی۔
قومی سلامتی کمیٹی سازش کے بیانیے کو رد کر کے واضح کر چکی ہے کہ کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی اور نہ ہی عمران خان کی حکومت کے خلاف کوئی سازش ثابت ہوئی ہے۔ ''امپورٹڈ حکومت‘‘ ''بیرونی مداخلت‘‘ اور ''عالمی سازش‘‘ جیسے بیانیے حب الوطنی اور غیرتِ قومی کو جگانے کے بجائے عوام کو اکسانے‘ اشتعال دلانے اور تقسیم کرنے کا بھی باعث ہو سکتے ہیں۔ بیانیہ سازی سے لے کر بیان بازی تک‘ پوائنٹ سکورنگ سے لے کر غلبہ حاصل کرنے تک‘ مخالفین کے لتے لینے سے لے کر کردار کشی تک‘ سیاسی اختلافات کو ذاتی عناد‘ بغض اور دشمنیوں میں تبدیل کرنے سے لے کر پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لے جانے تک‘ ایک دوسرے کی جانب انگلی اٹھانے سے لے کر غداری کا طعنہ دینے تک‘ منظرنامہ اس قدر تشویشناک ہوتا چلا جا رہا ہے کہ بیانیہ سازی اور بیانیہ فروشی کرنے والے قومی اداروں کے وقار سے لے کر ملکی استحکام سمیت نجانے کیا کچھ دائو پر لگا کر جھومے اور اترائے چلے جا رہے ہیں کہ ان کا بیانیہ سپرہٹ ہو گیا۔
پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ بوئے سلطانی کے مارے ان سبھی لوگوں کو فکری اور سیاسی تربیت کے لیے طویل رخصت پر بھیج دینا چاہئے۔ جس طرح بچے کو ڈرائیونگ سے باز رکھنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ بیٹا جب بڑے ہو جائو گے تو پھر گاڑی چلانا۔ بدقسمتی سے اقتدار کی گاڑی پر ڈرائیونگ کے کرتب دکھانے والے سبھی ڈرائیورگاڑی دلدل میں پھنسا چکے ہیں۔ جب تک گاڑی دلدل سے نکل کر ٹریک پر نہیں آجاتی ان سبھی ڈرائیوروں کو گاڑی سے دور رکھا جائے۔ گاڑی کو ٹریک پر لانے کے لیے ناقابلِ برداشت اخراجات پر مشتمل اس طرزِ حکمرانی پر بھی غور کرنا ہوگا۔ غیر متنازع اور جامع نیشنل ایجنڈا تشکیل دے کر ایسا طویل مدتی سیٹ اپ لایا جائے جس کی اہلیت اور قابلیت ایجنڈے کی تکمیل سے ظاہر ہو۔ اس اقدام پر سیاست یا عوام کو گمراہ کرنے والے اگر تنبیہ کے باوجود باز نہ آئیں تو انہیں کوئی بھی نام دیا جا سکتا ہے۔ ایک آدھ کے عبرتناک مثال بن جانے کے بعد ان میں سے کوئی مائی کا لعل ایسا نہیں جس کی آواز بھی نکلے گی۔ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد اور بقا کے لیے مشکل فیصلے کرنے سے ہی آسانیوں کا کوئی راستہ نظر آئے گا۔ ورنہ یہ باریاں لگا کر ملک کی گاڑی کو دلدل میں مزید اتنا پھنسا دیں گے کہ گاڑی کے بچے کھچے پرزے بھی ناکارہ اور ناقابل استعمال ہو جائیں گے اور گاڑی دلد ل سے کوئی نکال بھی لائے تو چلنے کے قابل شاید نہ رہے۔ اس سے پہلے کہ مزید دیر ہو جائے اور بیانیہ فروش سب کچھ بیچ ڈالیں کچھ تو کرنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں