عبادات کا اگر کردار اور اخلاق پر کوئی اثر نہ نظر آئے تو یہ سرگرمی ایک دکھاوے کی کارروائی کے سوا کچھ نہیں۔ ماہِ صیام چند گھنٹوں کا مہمان ہے۔ اس بار یہ مہمان کب آیا اور کب رخصت ہوا کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔اس بار تو رمضان المبارک بھی سیاسی دنگل کا شکار رہا۔ اس سے قبل رمضان المبارک میں سیاسی سرگرمیاں تعطل کا شکار ہو جایا کرتی تھیں مگر اس بار یہ انہونی بھی ہو کر رہی ۔ دن میں روزہ اور شام کو جلسے، جلوس اور ریلیاں۔ ملکی تاریخ کا یہ پہلا رمضان تھا کہ جس میں سیاسی سرگرمیاں ہر طرح سے اپنے عروج پر رہیں۔ ایک طرف ایوان کی کارروائی لوگوں کی نگاہ کا مرکز بنی رہی اور دوسری طرف سڑکوں پر سیاسی سٹیج لگایا جاتا رہا۔ اس بار ماہِ مقدس میں سیاسی درجہ موسمی درجہ حرارت کو بھی مات دیتا نظر آیا۔ سیاسی دنگل میں مصروف سیاسی اشرافیہ ہو یا ان کے پیروکار سبھی اپنے اپنے ایجنڈوں اور دھندوں میں اس قدر مگن رہے کہ ماہِ مقدس کی برکتیں اور فضیلتیں سمیٹنا تو درکنار شب و روز اپنی دنیا سنوارنے کے لیے بھاگے پھرتے رہے۔ اقتدار سے رخصت ہونے والوں میں اکثر کی حالت دیدنی ہے۔ کیسے کیسے نامی گرامی حسب‘ نسب اور اپنی روایات کی وجہ سے ہمیشہ ممتاز رہنے والے قدآور بھی پستہ قد ہی دکھائی دیے۔ کیسے کیسے اوچھے ہتھکنڈے‘ کیسے کیسے عذر‘ کیسے کیسے جواز اور دائو پیچ آزمانے سے لے کر پُر تشدد کارروائیوں تک کا سہارا لینے کے باوجود نہ اقتدار بچا سکے اور نہ ہی اپنا بھرم۔ بیشتر تو اس عاشقی میں عزتِ سادات گنوانے کے ساتھ ساتھ برسوں کی بنائی ہوئی ساکھ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
سیاسی اختلافات عناد، کینہ اور بغض سے ہوتے ہوئے ذاتی دشمنیوں میں بدل چکے ہیں۔ وفاق میں تبدیلی کے بعد تختِ پنجاب کی تبدیلی کانٹا بن کر اٹک گئی تھی۔ صدر مملکت اور گورنر پارٹی چیئرمین کی خواہش کی تکمیل کے لیے لا یعنی اقدامات سے لے کر ایک کے بعد ایک تاخیری حربہ آزما کر بھی وزارتِ اعلیٰ کی حلف برداری نہ روک سکے۔ جنہیں بہترین اور موافق سمجھ کر اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا تھا وہ ہوا کا رخ دیکھ کر بدلتے چلے گئے۔ عدم اعتماد سے گھبرا کر استعفیٰ دے کر میدان چھوڑنے والے عثمان بزدار نے نئی حکمت عملی کے تحت کابینہ کا اجلاس بلایا تو متعلقہ سرکاری افسران بزدار کابینہ کے اجلاس کے بجائے حمزہ شہباز کی تقریب حلف برداری کے انتظامات میں مصروف تھے۔ نمائشی اجلاس سے باہر نکلے تو معلوم ہوا کہ سرکاری گاڑی سمیت پروٹوکول بھی نئے وزیر اعلیٰ کی طرف روانہ ہو چکا ہے۔ بزدار سائیں بہرحال سیانے آدمی ہیں صورتحال کی نزاکت اور سنگینی کو بھانپتے ہوئے ذاتی گاڑی میں روانہ ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔
ملک بھر میں سیاسی دنگل لگانے والے ہوں یا سرکس‘ شعلہ بیانی سے عوام کو اشتعال دلانے والے ہوں یا انگار وادی بنانے والے۔ سبھی نے مل کر عوام کو اس طرح گم راہ اور تقسیم کر ڈالا ہے کہ اپنے شہتیر کی پروا کئے بغیر دوسروں کی آنکھ کے تنکے کا واویلا اس طرح کرتے ہیں کہ جیسے پورا ملک چور ہے اور یہ خود پارسا اور دودھ کے دھلے ہیں۔ جس طرح اپنی کمر کا تل کوئی نہیں دیکھ سکتا انہیں بھی اپنے ان اقدامات کے اثراتِ بد کا ادراک ہی نہیں ہوتا جو گلے کا طوق اور پائوں کی بیڑی بننے کے ساتھ ساتھ مسلسل جگ ہنسائی اور رسوائی کا باعث بنتے چلے جاتے ہیں۔ سبکی کا باعث بننے والے سبھی مصاحبین اور مشیر سمجھ ہی نہیں آنے دیتے اور من مانی ہی طرز حکمرانی بن کررہ جاتی ہے۔
اس سارے عمل میں سب سے بے بس عوام ہی نظر آتے ہیں‘ جن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کا ساتھ دیںاور کس کو نظر انداز کریں۔ کس کی کامیابی پر خوشیاں منائیں اور کس کے جانے پر دکھ کا اظہار کریں۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ سیاسی تعطل تمام شعبوں میں جاری سرگرمیوں کے انجمادکا باعث بھی بنتا ہے۔ لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاتے ہیں کہ دیکھیں سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے‘ اس کے بعد ہی کچھ کریں گے۔ سیاسی تعطل کا ایک مطلب یہ ہے کہ عوام کے کاموں کی بندش ۔ لوگ نہیں جان پاتے کہ اپنے مسائل کے حل کے لیے وہ کیا کریں اور کون سا دروازہ کھٹکھٹائیں کہ ان کی مشکلات دور ہو جائیں۔ سیاسی تعطل ذخیرہ اندوز اور منافع خور مافیا کے لیے موسم بہار ثابت ہوتا ہے اور وہ کھل کھیلتے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا پورا یقین ہوتا ہے کہ ان کی مذموم سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والا اب کوئی نہیں ہے۔
چند روز قبل مسجد نبوی میں حکومتی وفد پر آوازے کسنے والوں کا اقدام اختیاری ہو یا کسی ہدایت پر ایسا کیا گیا ہو‘ دونوں صورتوں میں یہ فعل ناپسندیدہ تھا۔ اگر یہ لوگ احترام مدینہ کے بارے میں کچھ جانتے ہوتے تو شاید پوری قوم کو اس طرح شرمسار اور معافی کا طلب گار نہ ہونا پڑتا۔ عدم برداشت اور تشدد کا تڑکا لگانے کے بعد جمہوریت کے ٹھیکیداروں نے عوام کو تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کیا ہے۔ اپنے گندے کپڑوں کی دھلائی میں مقتدر اداروں پر چھینٹے اڑانے والوں کی جسارت پر بھی آفرین ہے کہ وہ پورا دھوبی گھاٹ لے کر ارض مقدس پر جا پہنچے۔ یہ حرکت کرنے کا فیصلہ انفرادی ہو یا ہوس اقتدار کے ماروں کی کوئی منصوبہ بندی‘ دونوں صورتوں میں جواز اور توجیہات پیش کرنے والے ہوں یا بے گناہی کی صفائیاں دینے والے‘ ان سبھی کو خبر ہو کہ آپ کے دلوں کا حال اور نیتوں کے بھید بھائو وہ ذات خوب جانتی ہے جس کے قبضہ میں ہم سب کی جان ہے اور جو شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ مسجدِ نبوی میں حاضری کے دوران کس کو سیاست اور دنیا کے جھمیلے یاد رہتے ہیں۔ جو ارضِ پاک پر پیش ہو کر بھی شخصیت پرستی کے سحر سے باہر نہیں نکلا‘ اس کا جانا کیا اور نہ جانا کیا۔ پیشی کے وقت تو زیر ہو کر پیش ہوا جاتا ہے۔ پھر وہاں زبر ہونے کی ناپاک جسارت کرنے والے کس مغالطے میں ہیں۔ پوری قوم اس تکلیف دہ واقعہ پر غم و غصہ کا شکار اور شرمندہ ہے۔ پوری دنیا میں پاکستانی قوم کو تماشا بنانے والے اپنی اس حرکت پر خدا اور اس کے رسولﷺ سے معافی مانگیں اور اپنی اس جہالت کا اعتراف بھی ضرور کر لیں کہ وہ بہکاوے میں آ گئے تھے۔ بے شک وہ معاف فرمانے والا ہے۔
مکے گیاں گل مُکدی ناہیں بھانویں سو سو جُمعے پڑھ آئیے
گنگا گیاں گل مُکدی ناہیں بھانویں سو سو غوطے کھائیے
گیا گیاں گل مکدی ناہیں بھانویں سو سو پنڈ پڑھائیے
بلھے شاہ گل تائیوں مکدی جدوں میں نوں دلوں گوائیے
پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویاں کدی اپنے آپ نُوں پڑھیا ای نئیں
جا جا وڑدا مندر مسیتاں کدی من اپنے وچ وڑیا ای نئیں
ایویں روز شیطان نال لڑدا کدی نفس اپنے نال لڑیا ای نئیں
بُلھے شاہ اسمانی اُڈدیاں پھڑدا جیہڑا گھر بیٹھا اونہوں پھڑیا ای نئیں
سِر تے ٹوپی تے نیت کھوٹی لینا کی ٹوپی سِر دھر کے
تسبیح پِھری پر دِل نہ پِھریا لینا کی تسبیح ہتھ پھڑ کے
چِلّے کیتے پر ربّ نہ مِلیا لینا کی چِلّیاں وِچ وڑ کے
بُلھیا جاگ بِنا دُودھ نئیں جمدا بھانویں لال ہووے کڑھ کڑھ کے