عمران خان نے اپنے قتل کی سازش کے ذمہ داروں کے نام ریکارڈ کروا دیے ہیں۔ سابق وزیر اعظم کا یہ بیان بے اختیار تاریخ کے اوراق پلٹنے پر مجبور کر رہا ہے جو ہماری تاریخ کا وہ تاریک باب ہے جس میں وہ سبھی کچھ رقم ہے جس کے بارے میں فقط یہی کہا جا سکتا ہے کہ پڑھتا جا شرماتا جا۔ لیکن جنہیں شرمانا چاہیے وہ یہ سیاہ باب رقم کرنے پر نازاں اور اترائے پھرتے ہیں۔ 2007ء میں بے نظیر بھٹو نے برسر اقتدار مسلم لیگ (ق) کی اجارہ داری اور حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے اپنے قتل کا پیشگی استغاثہ پیش کر ڈالا تھا‘ جس کا انہیں کم و بیش یقین تھا‘ اور بالآخر بے نظیر بھٹو کا خدشہ حقیقت بن گیا‘ لیکن وارثان نے ان کی روح سے کمال انصاف کرتے ہوئے حصولِ اقتدار کے لیے استغاثہ میں نامزد ایک ملزم کو گارڈ آف آنر دے کر ایوان صدر سے رخصت کیا اور استحکام اقتدار کے لیے دوسرے کو ڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ دے کر مفاہمت کی سیاست کو اس طرح دوام بخشا کہ مرحومہ کی روح آج بھی بے چین ہو گی کہ کیا میرا خون یونہی رائیگاں جائے گا۔ ان کے خاندانی اور سیاسی وارثان نے جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دے کر بے نظیر کی لازوال قربانی کے بدلے کوئے اقتدار میں جو قدم رکھا تھا‘ وہ آج بھی بدستور قائم و دائم اور رواں دواں ہے۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے مبینہ ذمہ داران سے انتقام لینے کے بجائے جمہوریت سے وہ انتقام لیا کہ جزا و سزا سے لے کر جمہور کے معنی تک سب کچھ الٹا کر رکھ دیا۔
آج تک سمجھ نہیں آ سکا کہ مفاہمت کی سیاست جمہوریت سے انتقام ہے یا جمہوریت ہی انتقام بن چکی ہے۔ شوقِ حکمرانی کا ایسا شوق پیدا ہوا کہ اس ہستی کا خون بھی فراموش کر ڈالا جس کے باپ نے پھانسی کا پھندا چومنے سے پہلے کہا تھا کہ اگر مجھے قتل کیا گیا تو ہمالیہ بھی روئے گا۔ اسی کی بیٹی‘ اسی کی وارث نے جان کی پروا کیے بغیر وارننگ اور لائف تھریٹ کے باوجود دلیری سے مطلق العنان حکمران کو للکارا تو اس کا انجام عین وہی ہوا جس کا انہیں اپنی زندگی میں ہی خدشہ اور دھڑکا لاحق تھا۔ ان کے خدشات اور اندوہناک موت کے بعد المناک حالات کو کمال مہارت سے اپنے حق میں کرنے والے 14 سال سے نان سٹاپ حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ شاید یہی جمہوریت ہے اور یہی اس جمہوریت کا انتقام۔
عمران خان جو لائن لے چکے ہیں اور جس عوامی مقبولیت کی بلندی پر وہ کھڑے ہیں‘ انہیں ماضی اور سیاسی بدعتوں پر گہری نظر رکھنی چاہئے۔ ہوا بھرنے والے ہوں یا اشتعال انگیزی کو ہوا دینے والے۔ لہو گرمانے والے ہوں یا خون کی بازی لگانے کا مشورہ دینے والے۔ سرفروشوں کی قطاریں ہوں یا جانثاروں کا ہجوم۔ یہ سبھی کردار ماضی کے اوراق میں دفن ہیں‘ لیکن ان کا ایک ایک مشورہ اور ہلہ شیری کا ایک ایک لفظ چیخ چیخ کر گواہی دے رہا ہے کہ یہ سبھی اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر ہیں۔ بے نظیر بھٹو کو شدید لائف تھریٹ کے باوجود عوام کے سمندر میں ہر قسم کی احتیاط سے گریز کی حوصلہ افزائی کرنے والوں نے سانحہ کارساز کے بعد ہوش کے ناخن لینے کے بجائے مزید ہلہ شیری جاری رکھی اور یوں ہدف بنانے والوں کے لیے سانحہ کار کے بعد سانحہ لیاقت باغ کا موقع پیدا ہوا۔ بے نظیر کے خاندانی اور سیاسی وارثان نے تو ان کی زندگی میں ان کا متبادل بننے کی ہرگز جرأت اور کوشش نہیں کی؛ تاہم بھٹو خاندان کی چار غیر طبعی اموات سمیت سبھی قربانیوںکو فراموش کر ڈالا‘ جس میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے لے کر ان کی صاحبزادی کے دلخراش قتل اور ایک لختِ جگر شاہنواز بھٹو کی پراسرار موت کے علاوہ اپنی ہی بہن کے دورِ اقتدار میں دن دیہاڑے سرکاری گولیوں سے چھلنی ہونے والے مرتضیٰ بھٹو بھی شامل ہیں۔
عمران خان کو خبر ہونی چاہئے کہ ان کی صفوں میں موجود کئی کردار اُن کے دورِ اقتدار میں بھی خود کو متبادل قیادت تصور کر کے اشاروں کنایوں میں پیغام دیتے رہے ہیں۔ عمران خان کے خاندانی وارث تو گدی نشیں ہو نہیں سکتے؛ تاہم کئی ایسے ہیں جو ان کی گدی پر للچائی نظریں ٹکائے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف میں موجود ایسے سرکردہ اور منجھے ہوئے کردار اور پرانے کھلاڑی گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکے ہیں۔ راہ حق کے شہید بننے سے کہیں بہتر ہے کہ زمینی حقائق کو کھلی آنکھ سے دیکھنے کے علاوہ ان کرداروں پر بھی نظر رکھیں جو ان کی صفوں میں شامل ہونے سے پہلے نجانے کتنے رہنما اور کتنی پارٹیاں اور وفاداریاں تبدیل کر چکے ہیں۔ خفیہ ویڈیو پیغامات محفوظ جگہ پر رکھنے کے بجائے کھلے عام پورا سچ بولیں۔ ملک و قوم کو پہلے ہی ادھورے اور اپنے اپنے سچ نے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ خدانخواستہ عمران خان کے جانی نقصان کی صورت میں لہو گرمانے والے اور ہلہ شیری دینے والے ان کا متبادل بننے کے لیے ایک دوسرے سے دست و گریباں اور گتھم گتھا نظر آئیں گے۔ متبادل قیادت بننے کے خواب سجائے یہ سبھی اپنے اپنے ایجنڈے اور ڈیوٹی پر ہیں۔ ان کی خواہشات ہی ان کے نظریات ہیں اور ان کی اصل منزل اقتدار ہے۔ ان کا قائد پرویز مشرف ہو یا آصف علی زرداری‘ بے نظیر بھٹو ہوں یا نواز شریف انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اکثر الیکٹ ایبلز کو عمران خان سے جو محبت ہے دراصل اقتدار سے محبت ہے۔ یہ ایسی سیاسی مچھلیاں ہیں جو صرف کنگ پارٹی کے تالاب میں ہی زندہ رہ سکتیں ہیں۔
مملکتِ خداداد کا سیاسی منظرنامہ اس قدر ہولناک ہو چکا ہے کہ کسی بھی حکومت کے لیے ریاستی امور چلانا ممکن نہیں رہا۔ کئی بار کہہ چکا ہوں کہ شوقِ حکمرانی کے ماروں نے وطن عزیز کو Governable ہی نہیں رہنے دیا۔ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں گتھم گتھا عوام کے درد میں بے تاب نہیں ہیں۔ یہ سبھی بوئے سلطانی کے مارے حصولِ اقتدار کے لیے یا طولِ اقتدار کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ الیکشن کا مطالبہ کرنے والے ہوں یا الیکشن سے بھاگنے والے سبھی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ سبھی کی حکمرانی کے جوہر عوام دیکھ چکے ہیں۔ ایک دوسرے کی بد ترین حکمرانی کے ریکارڈ توڑنے کے سوا کسی نے کوئی توپ نہیں چلائی۔ نہ کسی کے کریڈٹ پر کچھ ہے اور نہ ہی کسی کے پلے کچھ ہے۔ عوام سبھی کو بھگت چکے ہیں۔ گمراہ کن بیانیوں اور جھانسوں پر مبنی آئے روز گھنٹوں بھاشن دینے والے اپنے دورِ اقتدار میں کارکردگی کے کون سے چوکے چھکے لگاتے رہے ہیں؟ تعجب ہے! صفر کارکردگی کے ساتھ جلسوں میں عوام کا مجمع دیکھ کر بے قابو ہونے والوں کو اور کیا چاہئے؟
کیسی بھیڑ چال ہے۔ جلسوں میں جا کر گھنٹوں سر دھننے والے آنے والے حالات سے بے خبر‘ نئے جھانسوں میں آ چکے ہیں۔ کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ یہ سبھی آزمائے جا چکے ہیں۔ عوام بھی بار بار ڈسے جا چکے ہیں۔ ایسے میں الیکشن کے بھاری اخراجات اور اس کے بعد آنے والی کوئی بھی کمزور اور پولیو زدہ حکومت عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کے بجائے حالات کی پریشانی میں مزید اضافے کا باعث بنے گی۔ جیتنے والی پارٹی عوامی مینڈیٹ کا دعویٰ اور ہارنے والی پارٹی دھاندلی کا واویلا کرے گی۔ قومی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے ملکی استحکام کے لیے مزید خطرہ بننے کے علاوہ انتشار اور خانہ جنگی کے اسباب پیدا کرنے والے عوام کو انگار وادی کا ایندھن بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ قوم کو مزید آزمائشوں سے بچانے کے لیے جمہوری چیمپئنز کو فکری‘ اخلاقی اور انتظامی بلوغت تک طویل رخصت پر بھیج دینا چاہیے۔ مکافات ِعمل کے درد ناک مناظر ہی ملک و قوم کو سنبھالا دے سکتے ہیں۔ مقتدر حلقوں کو سمجھوتہ کرنے کے بجائے قومی کردار ادا کرنا ہو گا۔ ملکی استحکام کے پلڑے میں اپنا وزن محسوس کروانا ہو گا۔ کہیں مزید دیر نہ ہو جائے!