آئین اور ضابطے عوام کی سہولت اور مملکت کا نظام چلانے کیلئے بنائے جاتے ہیں مگر جب قواعد و ضوابط کا اُلٹ استعمال کیا جائے توفائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے۔ گورننس اور میرٹ کے معنی الٹانے والوں نے مملکت خداداد کو جہاں مشکل ترین حالات سے دوچار کرڈالا ہے وہاں اندیشوں اور وسوسوں کی گہری کھائیوں میں دھکیلنے کے علاوہ کیسے کیسے کڑے سوالات بھی جواب سے محروم ہیں۔کیا نظام حکومت اور سیاستدان ڈلیور کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں یا انہیں کام ہی نہیں کرنے دیا جا رہا؟ گزرتے وقت کے ساتھ ان سوالات کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے کہ ملک و قوم کو کسی نئے نظام کی طرف دھکیلنے کے اسباب پیدا کیے جا رہے ہیں یا آئین کو ریسٹ دینے کے حیلے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ یہ سبھی سوالات بلا جواز نہیں۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ ان سبھی کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کی مجموعی کارکردگی بھی منہ چھپائے پھررہی ہے جبکہ ہمارے سیاستدان خدا جانے کس بل بوتے پر اترائے پھرتے ہیں۔
حکمرانوں کی اہلیت نامعلوم اورقابلیت معمہ ہو تو ایسے حالات سرکاری بابوئوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے۔وہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے ساتھ ساتھ ڈبکیاں لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔عوامی مینڈیٹ کا زعم لیے برسر اقتدار آنے والوں کواس طرح شیشے میں اتارتے ہیں کہ کوئے اقتدار شیشے کا گھر بن کرہی رہ جاتا ہے۔شیشے کے گھر میں رہنے والے حکمران اپنا گھر بچاتے بچاتے ساکھ اور عزت بھی ان سرکاری بابوئوں کے آگے ہارجاتے ہیں۔بیوروکریسی حکمرانوں کی واجبی تعلیم سے لے کر قانون اور ضابطوں سے ناآشنائی کے علاوہ نفسانی خواہشات اور انتخابات کا خرچہ سود سمیت پورا کرنے کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی خوب ماہر ہوتی ہے۔ ان کے فنانسرز اور منظور ِنظر افراد کو سرکاری ٹھیکے لینے سے لے کر مفاد عامہ کے منصوبوں کا بینی فشری بننے کے سبھی راستے سرکاری بابو ہی انہیں بتاتے ہیں۔حکمرانوں کے منہ کو مفادات کی لذت لگانے کے بعد لوٹ مار کے اس کھیل میں خود بھی بطور گائیڈ شامل رہتے ہیں۔اوٹ پٹانگ اور الٹے سیدھے کاموں کے علاوہ جائز ونا جائز سبھی کاموں کی ایسی عادت ڈال کر اس کام سے اپنا بھی حصہ خوب وصول کرتے ہیں۔
کرپشن مالی ہی نہیں انتظامی بھی ہوتی ہے۔ہمارے ہاں دونوں ہاتھوں سے دونوں وارداتیں ہر دور میں جاری و ساری رہی ہیں۔ سیاسی عدم استحکام ہو یا قوت فیصلہ اور ویژن سے عاری حکمران یہ سبھی حالات سرکاری بابوئوں کیلئے کسی جنت سے کم نہیں۔پی ٹی آئی کے اکثر وزیر اور مشیر بھی نالاں اور یہ شکوہ کرتے نظر آتے تھے کہ پنجاب میں بیوروکریٹک راج ہے۔ماسوائے چند مخصوص وزرا کے اکثریت کے توجائز کام بھی نہیں ہوتے تھے۔تخت ِپنجاب میں جن کا بیوروکریسی سے اچھا تعلق تھاانہوں نے مال بنانے کا کوئی موقع جانے نہ دیا۔واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ ترقیاتی کاموں کے ٹھیکوں سے لے کر سپلائیوں اور کارپوریٹ سیکٹر کی کنسلٹنسی کے نام پر کیسی کیسی سہولت کاری کرکے اپنی دنیا سنوارتے رہے ہیں۔ ہائوسنگ پروجیکٹس میں سہولت کاری کے عوض شراکت داری قائم کرنے والے وزرا کے نام بھی کوئی ڈھکے چھپے نہیں۔ ہائوسنگ قوانین کو بڑی سوسائٹیوں کے تابع رکھنے سے لے کر ریگولیٹر زکو ان کے خلاف کارروائی سے باز رکھنے کے علاوہ کھل کر کھیلنے کے سبھی مواقع فراہم کرنے والے وزرا کامعیارِ زندگی جمع کروائے گئے گوشواروں کی چغلی کھاتا ہے۔
چند روز سے جاری وسیع پیمانے پر بیوروکریسی کے تبادلے دیکھ کریوں لگتا ہے کہ موجودہ حکومت بزدار سرکار کی بیڈ گورننس کے ریکارڈ توڑنے پر بضد ہے۔ ڈانواں ڈول ‘ آئینی بحران کا شکار اور کابینہ سے محروم حکومت کو خدا جانے کس بات کی جلدی ہے۔عجلت میں کیے گئے تھوک کے بھائو اعلیٰ بیوروکریسی کے تبادلے اور کروڑہا روپے کے اخراجات قبل از وقت ہیں۔ ان عالی دماغ مشیروں کو سلام پیش کرنا چاہئے جو حکومت کو غیر ضروری کاموں میں الجھا کر اصل اہداف سے بھٹکا رہے ہیں۔ ہر دور میں ایسے سر چڑھے چند سرکاری بابوموافق اور وفادار افسران کی نشاندہی کی ذمہ داری کچھ یوں نبھاتے ہیں کہ ساری بدنامی حکومت کے گلے پڑ جاتی ہے اور وہ خود صاف بچ نکلتے ہیں۔پرنسپل سیکرٹری وزیراعظم کا ہو یا وزیراعلیٰ کا ‘چیئر کیلئے آزمائش اور بدنامی کے اسباب پیدا نہ کرے ‘ممکن ہی نہیں۔تبادلوں کا ہدف بننے والے اعلیٰ افسران کی فہرستیں مرتب کرنے والے کس طرح اپنی دوستیاں نبھانے کے علاوہ پرانے بیر بھی نکال رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان کو جاں نثار ساتھیوںسے دور کرنے کیلئے اختلافات کی چنگاریوں کو ہوا دے کر آگ بھڑکا نے اورخان صاحب کو مشکل حالات سے دوچار کرنے والوں میں ایک سرکاری بابو بھی پیش پیش رہے ہیں۔اسی طرح بزدار سرکار میں افسران کے تبادلوں کو ٹینڈر کا رنگ دینے والے ایک سرکاری بابونے تخت پنجاب کو کیسی کیسی بدنامی اور الزامات سے دوچار نہیں کیا۔کس طرح تبادلوں کے ریٹ کھولے جاتے تھے ۔ڈپٹی کمشنر سے لے کر ڈی پی اواور پیداواری اور کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ کا بس ایک ہی پیمانہ اور ایک ہی معیار طے تھا۔ اس فارمولے اور معیار کے تحت عہدے پانے والے اعلیٰ سرکاری افسران کس طرح موجیں مارتے ہوئے عوام کی زندگیاں اجیرن کر کے بہتی گنگا میں ڈبکیاں لگاتے رہے۔ کون سی گورننس اور کہاں کا میرٹ؟ قیمت چکانے کے بعد کون کسے جوابدہ ہوتا ہے؟ جہاں کوئی عہدہ عوام کی داد رسی کے بجائے انکی پریشانیوں اور مسائل میں اضافے کا باعث بن جائے وہاں انتظامی افسران کی کارکردگی پہلے دوسرے نمبر پر نہیں بلکہ پرلے درجے پر ہی ہوتی ہے۔ آج بھی یوں لگتا ہے کہ کابینہ کے بغیر چلنے والی پنجاب حکومت کوئی نیا فارمولا متعارف کروانے جارہی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے دور میں نان سٹاپ اہم ترین عہدے انجوائے کرنے والوں کو مزید پیداواری عہدوں کااضافی چارج دے کر کئی ایسے اعلیٰ افسران کوبھی دربدرکردیا گیا ہے جو سابق دور میں بھی زیر عتاب ہی رہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
حکومت پنجاب میں تبادلوں کا سلسلہ جاری ہے ۔سابق دور میں وزیراعلیٰ کے انتہائی قریبی اور آنکھ کا تارا تصور کیے جانے والے افسران کو اس دور میں بھی اہم عہدوں سے نوازے جانے پر حیران ہونے والوں کو خبر ہونی چاہئے کہ یہ افسران ہر دور کے بینی فشری ہیں ۔دور حکومت کسی کا ہو ‘یہ سبھی ڈبل ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔ اہم ترین عہدوں پر برقرار یا ٹرانسفر ہونے والے پی ٹی آئی کے دور میں بھی ڈبل ڈیوٹی نبھاتے رہے ہیں۔سرکار کے ساتھ ساتھ آنے والی سرکار کی خدمت بجالانے والے کوئی ڈھکے چھپے نہیں۔ سب کو سبھی جانتے ہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کو انتظامی معاملات چلانے کے لیے بزدار ماڈل کے بجائے شہباز شریف ماڈل پر انحصار کرنا ہوگا کیونکہ سرکاری بابوئوں کی بنائی ہوئی فہرستوں پر تبادلوں کے سیلاب میں کئی گوہر نایاب دریا برد اور کئی پتھر نگینے بنا کر پیش کردیے گئے ہیں جس کا نقصان اور خمیازہ بہرحال حکومت کوہی بھگتنا پڑے گا۔جس طرح بزدار سرکار کو ٹی کے کے لگائے ٹیکوں کا درد آج بھی تحریک انصاف محسوس کرتی ہے۔مردم بیزار اور عوام الناس کے مسائل سے بے نیاز سرکاری بابوکی بنائی فہرستوں پر تبادلہ خیال ضرور کریں لیکن ڈبل ڈیوٹی پر مامور افسران پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ان افسران کی بھی خبر لیں جو ناپسندیدگی کی بھینٹ چڑھادیے گئے ہیں۔سر چڑھے مصاحبین اور سرکاری بابوئوں کی بریفنگ اور ڈی بریفنگ کے نتیجہ میں کئے گئے اکثر فیصلے نہ صرف حکومتوں کے زوال اور غیرمقبولیت کا باعث ہوتے ہیںبلکہ یہ ریفارمز کے نام پر ڈیفارمز کے ڈھیر بھی لگا دیتے ہیں۔سبکی اور پریشانی کا باعث بننے والے فیصلوں کا باعث نام نہاد سقراطوں اور بقراطوںپر انحصار سے گریز کریں۔