ہمارے عوام نے بھی کیا قسمت پائی ہے‘ کیسے کیسے حکمران ان کے نصیب میں لکھے گئے‘ جو اپنی اپنی باریاں لگا کر چلتے بنے۔ سرکاری وسائل اور ریاستی اداروں پر غول در غول حملہ آور ہوئے‘ انہیں ملیا میٹ کیا‘ وسائل کولوٹا اور کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ کر کے کنبہ پروری کے ساتھ ساتھ بندہ پروری کو بھی خوب رواج دیا۔ جب بھی سماجی عدل و انصاف کا وقت آیا تو سماج سے لے کر ریاست تک نہ انصاف ہو سکا‘ نہ گورننس پروان چڑھ سکی اور نہ ہی میرٹ کا بول بالا ہوسکا۔ ہر دور میں مفادات کے مارے پالیسی سازوں اور خوشامدی سہولت کاروں نے حکمرانوں کی ایسی مت ماری کہ گورننس اور میرٹ کے معنی ہی الٹا دیے۔ ایسی ایسی خبر‘ صبح و شام دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے جو اعصاب سے لے کر نفسیات تک‘کیسے کیسے عذاب توڑتی ہے۔
ملک کے طول و عرض میں کوئی ایسا مائی کا لعل نہیںجسے قدرت نے اقتدار و اختیار دیا ہو اوروہ گردن اُٹھا کر چل سکتا ہو۔ اُنگلی اٹھا کر جس کی شہادت دی جاسکتی ہو کہ اس نے حقِ حکمرانی ادا کر کے عوام کے مینڈیٹ کا مان رکھا ہے۔ یہ کسی آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ یوں لگتا ہے ہماری زمین قہر زدہ ہو چکی ہے۔ زمین قحط زدہ ہوتو اُمید اور امکان بہرحال رہتا ہے‘ ہماری زمین کا کیس اور ہے‘ یہ قحط کا نہیں قہر کا کیس ہے۔ قحط زدہ زمین سے بہتری کا گمان کیا جاسکتا ہے لیکن قہر زدہ زمین سے امکان اور امید کی توقع نہیں لگائی جاسکتی۔ اکثر احباب اور قارئین کا شکوہ ہے کہ میں اپنے کالموں میں ڈپریشن پھیلانے کے علاوہ حالات کا ماتم بہت کرتا ہوں۔ ان سبھی کا اعتراض ہے کہ حالات پہلے ہی کیا کم مایوس کن ہیں کہ میں مایوسیوں کے سائے اس قدر بڑھا دیتا ہوں۔میرا انہیں ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ملامتی حالات میں ماتمی کالم ہی لکھا جا سکتا ہے۔
کیسے کیسے مسیحا آئے اور عوام کا درد بڑھانے کے بعد اپنی دکان بڑھا گئے‘ جنہیں نجات دہندہ سمجھتے رہے‘ ان سے نجات کی دعائیں مانگنا پڑیں‘ جنہیں بے پناہ چاہا انہی سے پناہ مانگتے پھرے۔ خوش گمانی میں ڈوبے ہوئے مثبت رجحانات کے پرچارک دانشوروں کو میرا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ مملکت خداداد میں بسنے والی مخلوق کی اکثریت قطعی بے وسیلہ اور رب کے سوا ان کا کوئی سہارا اور سننے والا نہیں ہے۔یہ اپنی ضرورت سے زیادہ ہرگز نہیں مانگتے‘ انسان ہونے کے ناتے حکمران انہیں ان بنیادی ضرورتوں سے تو محروم کیسے کرسکتے ہیںجو بحیثیت ِانسان ان کا حق ہیںلیکن انسانی حقوق تو انسانوں کے لیے ہوتے ہیں‘ ان کے مسیحا اور نجات دہندہ حکمران انہیں انسان ہی کب سمجھتے ہیں؟ جس دن یہ انہیں انسان کے مرتبے پر فائز کریں گے‘ اُس دن شاید انہیں وہ انسانی حقوق بھی مل جائیں گے جن سے محروم نجانے کتنی نسلیں اچھے دنوں کی آس میں خاک کا رزق بن چکی ہیں۔ میں کالے کو سفید اور اندھیرے کو اُجالا کیسے لکھ دوں‘ کالے کرتوت اور اندھیر نگری میں پھیلے ان اندھیروں کو اُجلا سویرا کیسے کہہ سکتا ہوں؟ میرے اس جواب پر وہ کہتے ہیں کہ تمہاری یہی باتیں ہمیں مزید مایوس کر دیتی ہیں‘ تھوڑی بہت خوش گمانی یا اچھے دنوں کی آس توڑنے کے ساتھ ساتھ نجانے کیا کچھ توڑ ڈالتے ہو۔
یہ سیاست اور اقتدار بھی کیا چیز ہے۔ جس نے بھی ایک مرتبہ اختیار اور طاقت کا مزہ چکھ لیا وہ ساری عمر کوئے اقتدار کے طواف میں ہی گزار دیتا ہے۔ اقتدار سے باہر ہوتا ہے تو برسر اقتدار آنے کے لیے ہر پل بے چین اور ہمہ وقت کوشاں رہتا ہے اور جب اقتدار حاصل کرلیتا ہے تو طاقت اور اختیارات کا نشہ یوں سر کو چڑھتا ہے کہ نہ کوئی وعدہ یاد رہتا ہے اور نہ ہی وہ دعوے جو حصولِ اقتدار کے لیے صبح و شام کیا کرتے تھے۔ سیاسی سرکس روز نئے آئٹمز کے ساتھ کھڑکی توڑ رش لے رہا ہے۔ ایسے ایسے فنکار اپنے اپنے آئٹم کے ساتھ جلوہ افروز ہو رہے ہیں کہ دور کی کوڑی لانے والوں سے لے کربڑے بڑے سیاسی پنڈتوں سمیت عوام بھی انگشت بدنداں ہیں۔ قومی اور پنجاب اسمبلی میںنمبر گیم اس قدرنازک مرحلے میں داخل ہوچکی ہے کہ کس کا وزن کس کو بے وزن کرتا ہے اور وہ کس پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے ہیں اس صورتحال پر ملک بھر میں کسوٹی برابر جاری ہے۔عوام تو سیاسی سرکس کے پرانے تماشائی ہیں۔ سبھی سیاسی بازی گر اپنی اپنی باری پر اپنا اپنا آئٹم پیش کر کے آتے جاتے رہیں گے۔ عوام ان کے کرتبوں پر کہیں تالیاں بجارہے ہیں تو کہیں بغلیں۔
ملک و قوم کی دولت اور وسائل کی بندر بانٹ سے لے کر اقتدار کے بٹوارے تک‘ نیت سے لے کر معیشت تک‘ گورننس سے لے کر میرٹ تک‘ امن و امان سے لے کر شہری سہولیات تک‘ ان کی نیت اور ارادوں سے لے کر فیصلوں اور اقدامات تک سبھی کے بھید کھلتے چلے جارہے ہیں۔ یکے بعد دیگرے اقتدار کی باریاں لگانے والے ہوں یا ہر دور میں شریکِ اقتدار رہنے کا ہنر جاننے والے‘ سبھی کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ کسی نے بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا‘ جس میں ان کی اپنی غرض اور مفاد غالب نہ رہا ہو۔ ملک کے طول و عرض میں کوئی ایسا حکمران آج تک نہیں آیا جس نے قانون‘ ضابطے‘ میرٹ اور گورننس کو اپنا تابع فرمان نہیں بنایا۔ اپنے کاروبار اور مالی ذخائر میں ہوشربا اضافے سے لے کر اقتدار کے حصول اور طول تک ہر جائز و ناجائز حد تک جانے والے حکمرانوں نے کب اور کون سا گُل نہیں کھلایا؟ اس کی تفصیل میں اگر جائیں تو ممکن ہے پوری کتاب لکھنا پڑ جائے۔
اے پروردگارِ عالم‘ اس مملکتِ خداداد میں رہنے والوں پر رحم فرما۔ حکمرانی کے بد ترین ادوار کے باوجود یہ آج بھی اترائے اور معتبر بنے پھرتے ہیں۔ باری تعالیٰ تو الصبور بھی ہے‘ المقدم بھی اور المؤخر بھی تو ہی ہے۔ اے رب العالمین! تو العدل بھی ہے‘ عدل اور بلا تاخیر عدل تجھی سے منسوب ہے۔ اس خطے میں بسنے والوں کو تیری اس صفت کی‘ تیرے عدل و انصاف کی جو آج ضرورت ہے وہ شاید پہلے کبھی نہیں رہی۔ حکمرانی کے نام پر ملک و قوم کا جو حشر ہوتا چلا آ رہا ہے‘ اس سے برا اور کیا ہو سکتا ہے؟ ان کے ارادے تجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ سرکاری وسائل پر کنبہ پروری اور مصاحبین کے اللے تللے آخر کب تک؟ گورننس کے نام پر یہ عوام کو کب تک زندہ درگور کرتے رہیں گے؟ عوام کے پاس تو اب کھونے کو بھی کچھ نہیں رہا۔ یہ سبھی ایک ہی سکے کے دورُخ اور فقط اختیار اور اقتدار کے بھوکے ہیں۔ان کی اس بھوک نے ملک کے کونے کونے میںعوام کو کیسی کیسی بھوک سے دوچار کرڈالا ہے۔دو وقت کی روٹی سے لے کر جینے مرنے کے لیے درکار سبھی ضرورتوں سے محروم بے بس اور لاچارعوام بس تجھ ہی سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔ تیرے خزانے میں اور دینے میں کوئی کمی نہیں۔ اے خالق و مالک بس تیرا ہی آسرا ہے۔سیاسی اشرافیہ ملک کو تباہی کے اس دہانے پر لے آئی ہے جیسے یہ مملکتِ خداداد نہیں ان کے باپ دادا کی وراثتی حویلی ہے جس کے حصول کے لیے یہ ایک دوسرے سے دست و گریباں اور گتھم گتھا ہیں۔ تُو ہی ان کا احتساب کر سکتا ہے کیونکہ زمینی احتساب کا حساب تو ان سبھی نے برابر کر ڈالا ہے۔ بے شک تُو بہتر انصاف کرنے والا ہے کہ آسمانی فیصلوں کے آگے زمینی عدالتیں اور وکالتیں نہیں چلتیں۔