سیاسی اکھاڑے کا منظرنامہ اس قدر تشویشناک ہے کہ یہ خوف بڑھائے چلا جا رہا ہے کہ شاید سیاسی رہنماؤں کی زبانوں سے اگلتے ہوئے شعلے وہ آگ لگا چکے ہیں جو شاید اب ان سے بھی نہ بجھے۔میدانِ جنگ کا منظر پیش کرتی مملکت خداداد بھی یقینا بارگاہ الٰہی میں فریاد کرتی ہوگی کہ مجھے قدر ناشکروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ناشکری کے مرتکب حکمران ہوں یا عوام‘ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پہ دہلا ثابت ہوئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سبھی سیاسی رہنما نہیں گلی محلے کے لڑاکے ہیں اور ان کے درمیان کوئی سیاسی معرکہ نہیں بلکہ گینگ وار چل رہی ہے۔''حقیقی آزادی مارچ‘‘ کو اسلام آباد لے جانے والے ہوں یا راستے مسدود کرکے اسے روکنے والے‘ سبھی کے درمیان اقتدار کی کھینچا تانی نے کیسے کیسے تانے بانے ادھیڑڈالے ہیں۔تحریک انصاف کو وفاقی دارالحکومت سے دوررکھنے کے لیے وہی ریاستی جبر پوری طاقت کے ساتھ آزمایا گیا ہے جو ہماری سیاسی روایت کا '' حسن‘‘ ہے۔
وطنِ عزیز پہلی بار میدان جنگ نہیں بنا‘ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت گرانے کیلئے پی این اے کی تحریک ہو‘ ضیاالحق کی آمریت کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک‘بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی طرف سے ایک دوسرے کی حکومتوںکے خلاف تحریکِ نجات ہو یا ٹرین مارچ اور لانگ مارچ‘ ان سبھی مواقع پر سیاسی مزاحمت کے خلاف ریاستی طاقت ناصرف پوری طاقت کے ساتھ حرکت میں آتی رہی ہے بلکہ ریاستی جبر کے نتیجہ میںجانی نقصان کے ساتھ ساتھ سرکاری املاک کا ناقابل تلافی نقصان بھی برابر ہوتا رہا ہے۔ 2014ء میں 126دن کے دھرنے میں عوام اور سرکاری املاک سمیت کاروبار زندگی پر ٹوٹنے والے عذاب بھی ہماری جمہوریت کا حسن ہیں۔ لاٹھی گولی کی سرکار ہر دور میںاسی طرح چلتی رہی ہے۔ہوش کے ناخن نہ لیے تو اسی طرح چلتی ہی رہے گی۔تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہوش مندوں کیلئے سبق ہے۔ خدا جانے یہ جمہوریت سے انتقام ہے یا جمہوری انتقام؟ ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے مسلسل فراموش کرنے کی ضد لگائے سیاسی اشرافیہ ایک بار پھر وہ پنیری لگارہی ہے جس کی خاردار فصل اگلی نسلوں کو کاٹنا پڑے گی اوراسے کاٹتے کاٹتے ان کے ہاتھ اوربدن مزید لہولہان ہوجائیں گے۔
کئی دہائیاں شوقِ حکمرانی پورا کرنے والے ہوں یا تقریباً چار سال گورننس کے جوہر دکھانے والے۔کس کے پلے کیا ہے؟ ان کے اقدامات سے لے کر اصلاحات اور فیصلے گلے کے طوق اور پائوں کی بیڑیاں بنتے رہے ہیں‘ اس کے باوجودخدا جانے کس زعم میں جھومے اور اترائے چلے جارہے ہیں۔ عوام کے مینڈیٹ کو بیچنے سے لے کر سرکاری وسائل کو بھنبھوڑنے اور اس پر کنبہ پروری سمیت نجانے کیسے کیسے اللے تللے کرنے والے یہ ''رہنما‘‘ملک کو بالآخر اس مقام پر لے آئے ہیں جہاں سیاست سے لے کر اخلاقیات‘ قانون اور ضابطوں سے لے کر جزا اور سزا کے تصور تک سبھی کچھ شکستہ حال ہو چکا ہے۔ نہ احترامِ آدمیت ہے نہ تہذیب کا پاس‘ نہ کہیں برداشت ہے اور نہ ہی تحمل اور بردباری‘ نہ منصب کا احترام ہے نہ مرتبے کا لحاظ۔ قول و فعل سے لے کر زبان و بیان تک انہوں نے کسی کے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پہ دہلا ہی ثابت ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ جوں جوں سیاسی اکھاڑے میں کشیدگی اور تنائو بڑھتا چلا جا رہا ہے توں توں اس اکھاڑے کے اثرات گلی محلوں اور سڑکوں پر نمودار ہونے کے خطرات بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
جو طرزِ حکمرانی عوامی مینڈیٹ کو فروخت کر ڈالے‘ آئین اور حلف سے انحراف روایت بن جائے‘ حکمرانوں سے وفا اور بیماروں سے شفا چھین لے‘ داد رسی کے لیے مارے مارے پھرنے والوں سے فریاد کا حق چھین لے‘ اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود بنیادی حقوق سے محروم کر ڈالے‘ چہروں سے مسکراہٹ چھین لے‘ جذبوں سے احساس چھین لے‘ بچوں سے ان کا بچپن چھین لے‘ بڑے بوڑھوں سے ان کے بڑھاپے کا آسرا چھین لے‘ قابل پڑھے لکھے اور ہنر مند لوگوں سے ان کا مستقبل چھین لے‘ منہ زور اور طاقتور کے سامنے غریب کی عزتِ نفس اور غیرت چھین لے‘ حتیٰ کہ وہ سہانے خواب بھی چھین لے جو ہر دور میں لوگوں کو تواتر سے دکھائے جاتے ہیں‘ جو سماجی انصاف کی نفی کی صورت میں اخلاقی قدروں سے لے کر تحمل‘ برداشت اور رواداری تک سبھی کچھ چھین لے‘ ایسے نظام کے تحت زندگی گزارنا کس قدر جان جوکھوں کا کام ہے‘ اس کا اندازہ لگانا عوام کے لیے مشکل نہیں۔ اکثر تو اس کی قیمت جان سے گزر کر ہی چکانا پڑتی ہے۔
ایک بار پھر عوام کا مینڈیٹ بیچنے والے اقتدار کی جنگ جیتنے کے لیے ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں۔ ایک دوسرے سے بار بار ڈسے جانے والے ایک بار پھر ایک دوسرے کو آزمانے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ملک و قوم‘عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے طبقے کا بوجھ اُٹھاتے اٹھاتے ہلکان ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اندیشوں اور وسوسوں کے سائے اتنے طویل ہوتے جا رہے ہیں کہ ان کے سامنے عوام تو بس بونے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ مایوسیوں کے گڑھے دلدل بن چکے ہیں۔ ان سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے والا مزید دھنستا چلا جا رہا ہے اور اب یہ عالم ہے کہ عوام اس طرزِ حکمرانی کے اثراتِ بد سہتے سہتے حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔ لگتا ہے‘ نہ حالات بدلیں گے‘ نہ ہی عوام کی حالتِ زار بدلتی دکھائی دیتی ہے۔ ہر گزرتا دن جہاں مایوسیوں کے اندھیروں میں اضافے کا باعث بن رہا ہے وہاں یہ سوال بھی روز بروز اہمیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے کہ آخر ایسا کب تک چلے گا؟
منافرت‘ تشدد‘ کینہ اور بغض میں لتھڑا ہوا سیاسی کلچر مستقل منظر نامہ بننے جا رہا ہے۔حکومت مدت پوری کرتی ہے یا نہیں‘ عمران خان کے مطالبات پورے ہوتے ہیں یا نہیں‘الیکشن قبل ازوقت ہوتے ہیں یا مقررہ وقت پر‘یہ سبھی مل کر سیاسی کلچر کا نہ کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ ہی اسے تبدیل کرسکتے ہیں۔اندیشہ یہ ہے کہ زبانیں شعلے اگلتی رہیں گی‘گالم گلوچ اور کردار کشی یونہی جاری و ساری رہے گی۔تشدد اور اشتعال انگیزی کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے جاری رہے گا۔انتخابات جیتنے والے عوامی مینڈیٹ کے زعم میںتو ہارنے والے دھاندلی کا الزام لگا کر اسی طرح سڑکوں پر دھمال ڈالتے رہیں گے۔لانگ مارچ نئی برانڈنگ کے ساتھ لشکر کشی کرتے رہیں گے۔بیانیہ سازی اور بیانیہ فروشی کے کارخانے چلتے رہیں گے۔ایسے میں مایوسی اورخوش گمانی کے درمیان پنڈولم بنے عوام کی حالتِ زار پر مزید تبصرے کے بجائے فیض احمد فیض کے یہ اشعار حسب حال ہیں:
چند روز اور مری جان‘ فقط چند ہی روز
ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم
اک ذرا اور ستم سہہ لیں‘ تڑپ لیں‘ رو لیں
اپنے اجداد کی میراث ہے معذور ہیں ہم
جسم پر قید ہے‘ جذبات پہ زنجیریں ہیں
فکر محبوس ہے‘ گفتار پہ تعزیریں ہیں
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
اپنی دو روزہ جوانی کی شکستوں کا شمار
چاندنی راتوں کا بے کار دہکتا ہوا درد
دل کی بے سود تڑپ‘ جسم کی مایوس پکار
چند روز اور مری جان‘ فقط چند ہی روز