"AAC" (space) message & send to 7575

دھرتی ماں! ہم بے بس اور شرمندہ ہیں

انجیو پلاسٹی کے بعد عشرہ بھر دلِ ناتواں کالم کا بوجھ اٹھانے سے محض اس لیے قاصر اور فرار رہا کہ معالج نے جو چند ناگزیر احتیاطیں تجویز کی ہیں‘ ان میں سے ایک دل کو ان تمام حالاتِ پریشاں سے دور رکھنا بھی شامل ہے جودل کا کام تمام کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس دوران کالم آرائی دل کوکڑی آزمائش سے دوچار کرنے کے علاوہ ان سبھی صدمات سے براہِ راست اُلجھنے کے مترادف ہے جو مملکتِ خداداد کا مستقل منظر نامہ بنتے چلے جارہے ہیں۔ عام آدمی کی قوتِ خرید کے دم توڑنے کے بعد عام آدمی تو شاید اب عام بھی نہیں رہا‘ اس کی حیثیت اور حالتِ زار کی وضاحت کے لیے کم از کم مجھے تو ایسے الفاظ ڈھونڈے بھی نہیں مل پا رہے جو حقیقی معنوں میں عام آدمی کا استعارہ بن سکتے ہوں۔ مینڈیٹ بیچنے والے وفاداریوں کے علاوہ وہ سبھی خواب‘ آسیں اور تمام امیدیں بھی بیچ ڈالتے ہیں جن کے سہارے عوام پون صدی سے بیوقوف بن کر دھوکے پہ دھوکا کھائے چلے جارہے ہیں۔ مفادات کے ماروں کو کب اصولی سیاست اور عوام کے درد کا بخار چڑھ جائے اور وہ وفاداری کب‘ کہاں فروخت کر ڈالیں۔ بند کمرے کی ملاقاتیں اور راز و نیاز کب وائٹ پیپر بن جائیں۔ حریف حلیف اور حلیف کب حریف بن جائیں۔ ہماری سیاست اور سیاسی بازیگر ضرورتوں‘ مصلحتوں‘ مجبوریوں اور مفادات کے گرد طواف نہ کریں تو یہ رہبری اور لیڈری کے منصب پر فائز ہی کہاں ہوتے ہیں۔ وطن عزیز کا سیاسی منظر نامہ پہلی بار منڈی اور اکھاڑا نہیں بنا؛ تاہم سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کی وجہ سے اندر کی بات باہر آتے دیر نہیں لگتی‘ ورنہ ماضی میں لگنے والی منڈیاں اور اکھاڑے بھی شرمندگی اور رسوائی کے لیے کافی ہیں۔ آئین اور حلف سے کھلا انحراف کرنے والوں کی نسلیں آج بھی سیاسی اکھاڑوں اور منڈیوں کو زندہ اور رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔ اپنی اپنی مجبوریوں اور مصلحتوں کے مارے جمہوریت کے یہ سبھی چیمپئنز مینڈیٹ بیچنے سے لے کر ضمیر اور عوام کو دکھائے گئے سبھی خواب یکساں بھائو بیچ کر ہر دور میں اپنی دنیا سنوارتے چلے آئے ہیں۔گویا سب کچھ ہی بکائو ہے۔
یہاں پل بھر میں نصیب بگڑتے اور بنتے ہیں۔ صبح کے تخت نشیں شام کو کٹہروں میں دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے ویسے کیسے کیسے اور کیسے کیسے ایسے ویسے بنتے ذرا دیر نہیں لگتی۔ ہماری سیاسی تاریخ ان کھیل تماشوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سیاسی رہنماؤں کے یہ کھیل تماشے عوام کے لیے کسی کھلواڑ سے کم نہیں۔ اگر یہ سبھی رہبر اور نجات دہندہ ہیں تو خائن‘ لٹیرے اور باعثِ عذاب کون ہیں؟ اگر ان کے ہاتھ اور دامن صاف ہیں تو ملکی خزانے اور وسائل پر ہاتھ کی صفائی کون دکھا گیا؟ عوام بنیادی ضروریات سے محروم چلے آرہے ہیں تو ان کے ملکی اور غیر ملکی اثاثوں کے علاوہ انڈے‘ بچے دیتے کاروبار ہوشربا اور ناقابلِ فہم ترقی کا استعارہ کیسے بن گئے؟ ان کا ماضی موجودہ سماجی و معاشی استحکام کی چغلی کیوں کھائے چلے جارہا ہے؟ عوام غریب سے غریب تر اور یہ سبھی امیر سے امیر تر ہونے کے ریکارڈ کیسے توڑتے چلے جارہے ہیں۔ عوام کی بدحالی ہی میں ان کی خوشحالی پوشیدہ کیوں ہے؟ مشکل فیصلوں کے نام پر عوام پر کیسے کیسے عذاب توڑے جارہے ہیں۔ ساری مشکلات اور آزمائشیں عوام کا ہی مقدر کیوں بن چکی ہیں؟ سبھی سمجھوتے اور ذلتیں عوام کے نصیب میں کیوں؟ شوقِ حکمرانی کے مارے سبھی سیاسی رہنما عوام سے ہی قربانی کیوں مانگتے ہیں؟
احترامِ آدمیت سے لے کر غیرتِ ملی تک نجانے کیا کچھ تار تار کرنے والی سیاسی اشرافیہ کا جمہوری حسن بدبودار اور بھیانک ثابت ہو چکا ہے۔ آئین اور حلف سے انحراف ہو یا ضابطوں اور اداروں سے تصادم‘ گورننس اور میرٹ کی درگت سے لے کر اخلاقیات کی پامالی تک‘ جھوٹ کا ڈھول بجا کر سچ کی آواز دبانے سے لے کر جائز و ناجائز کا فرق مٹانے تک‘ حرام حلال سے بے نیاز ہوکر سرکاری وسائل کو ناجائز استعمال کرنے سے لے کر کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ تک‘ صادق اور امین کے معانی الٹانے سے لے کر قومی خزانے پر شکم پروری کرنے تک‘ مظلوم کی آواز دبانے سے لے کر ظالم کی سربلندی تک‘ داد رسی اور انصاف کے لیے دربدر بھٹکنے والوں کی دھتکار سے لے کر ان کو خود سوزیوں پر مجبور کرنے تک‘ حصولِ اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک کسی بھی حد سے گزر جانے والے ان سبھی حکمرانوں نے مملکتِ خداداد کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں یہ بھی فراموش کر بیٹھے ہیں کہ یہ ساری موجیں، سبھی تام جھام اور اقتدار کے سارے مزے ملک و قوم ہی کے مرہونِ منت ہیں۔ اے خالق و مالک! بس تیرا ہی آسرا ہے۔ تو ہی کارساز اورہر چیز پر قادر ہے۔ یہ سیاسی اشرافیہ ملک کو تباہی کے اس دہانے پر لے آئی ہے کہ سیاسی اختلافات ذاتی دشمنیوں میں بدل چکے ہیں۔ گویا یہ مملکتِ خداداد نہیں کوئی وراثتی حویلی ہے جس کے حصول کے لیے یہ ایک دوسرے سے دست و گریباں اور گتھم گتھا ہیں۔ حصولِ اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک کے لیے ان کے پاس کیسے کیسے ڈھکوسلے اور کیسے کیسے گھڑے گھڑائے جواز اور حیلے موجود ہوتے ہیں۔ اپنی کارکردگی پر اٹھنے والے سوالات کے جواب میں پیش کیے جانے والے سبھی عذر ان کی بے بسی اور نالائقی کا کھلا پتا دیتے ہیں۔
ایک زمانے میں دودھ شریک بھائیوں کا بڑا مان اور سمان ہوا کرتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمانہ بدلتا چلا جا رہا ہے اور اب دودھ شریک بھائی کم ہی دیکھنے اور سننے میں آتے ہیں‘ البتہ حالات کی ستم ظریفی اور بدلتے ہوئے تیور نے خون شریک بھائی ضرور پیدا کر دیے ہیں۔ مزید وضاحت کے لیے عرض کرتا چلوں کہ جس طرح ایک عورت کا دودھ پینے والے سگے بھائی نہ بھی ہوں تو دودھ شریک بھائی کہلاتے ہیں اسی طرح دھرتی ماں کا مل کر خون پینے والے خون شریک بھائی ہوتے ہیں۔ ان بھائیوں کے منہ کو لگا خون چھڑائے نہیں چھوٹتا۔ نسل در نسل ملک پر کوئی دانت گاڑے ہوئے ہے تو کوئی پنجے جمائے ہوئے۔ کوئی چونچ سے کتر رہا ہے تو کوئی جبڑے سے چیر پھاڑ کر رہا ہے۔کسی کا طرزِ حکمرانی خون پینے کے مترادف ہے تو کوئی منافرت پھیلا کر خون چوس رہا ہے۔ کوئی وسائل کا ناجائز استعمال کر رہا ہے تو کوئی ذاتی فائدوں کے لیے مسائل سے دوچار کیے چلا جا رہا ہے۔ کوئی فکری طور پر تباہ و برباد کررہا ہے تو کوئی نفسیاتی طور پر پارہ پارہ۔ اس زمین پر دندناتے یہ سبھی کردار وہ خون شریک بھائی ہیں جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بھی ہو جائیں تو خون دھرتی ماں کا ہی پیتے ہیں۔
عوام کی حالتِ زار کے ذمہ دار پون صدی سے نسل در نسل عوام کی نسلیںتباہ کرنے کے علاوہ دھرتی ماں کے ساتھ جو سلوک روا رکھے ہوئے ہیں اسے بیان کرنا چاہوں تو الفاظ بھی ہاتھ باندھے زار و قطار روتے نظر آتے ہیں کہ ہم ایسے حالاتِ پریشاں کی ترجمانی سے قاصر ہیں؛ تاہم ایک استعارہ پیشِ خدمت ہے جسے ہوش مند ہی سمجھ سکتے ہیں۔ بچھو بچے پیدا کرنے کے بعد اُن کو اپنی کمر پہ بیٹھا دیتا ہے۔ اور یہ بچے اپنی ہی ماں کی کمر کا گوشت نوچ نوچ کر کھاتے رہتے ہیں۔ ماں طاقت رکھنے کے باوجود کچھ نہیں کہتی‘ شکوہ نہیں کرتی‘ چپ چاپ تکلیف سہتی رہتی ہے اور یہ بچے اس کا گوشت کھاتے رہتے ہیں‘ ماں چلنے کے قابل نہیں رہتی لیکن بچے خود چلنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ تب تک ان کی ماں بھی مر جاتی ہے۔ دھرتی ماں کو مارنے کا یہ عمل پون صدی سے جاری ہے۔ دھرتی ماں! ہم بے بس اور شرمندہ ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں