آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چین کے ساتھ سٹریٹیجک شراکت داری بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔جی ایچ کیو میں چین کی مرکزی کمیٹی برائے خارجہ امور کے ڈائریکٹر یانگ جیچی سے ملاقات میں پاک چین تعلقات اور باہمی تعاون کے بڑھاوے پر زور دیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی چینی رہنما سے ملاقات اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کے علاوہ سی پیک منصوبوں کی تکمیل پر زور دیا۔ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ میثاقِ معیشت کی منزل ڈائیلاگ سے حاصل کریں گے۔ ڈائیلاگ اور گا‘ گے‘ گی کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے بھٹکتے تو یہ دن دیکھے ہیں کہ نہ صرف سی پیک منصوبہ طویل عرصہ کھٹائی میں پڑ ا رہا بلکہ اس کھٹائی نے پاک چین دوستی کی مٹھاس کو بھی اچھا خاصا چاٹ کھایا۔ تاہم وزیراعظم کا یہ انتخاب بلا شبہ قابل ستائش ہے کہ انہوں نے چین اور سی پیک امور کے لیے ایک ایسے شخص کو اپنی ٹیم کا حصہ بنا یا ہے جو چین کے بارے میں بہت کچھ جانتا اور سمجھتا ہے۔ چین میں تعلیم حاصل کرنے سے لے کر سفارتی ذمہ داریاں نبھانے کے علاوہ چین کی زبان سے لے کر داخلی و خارجی امور اور اقتصادی و سماجی امور تک بہت سے شعبوں پر گہرا مشاہدہ اور جانکاری بھی انہیں حاصل ہے۔ اگر انہیں سیاست اور بریفنگ یا ڈی بریفنگ کی بھینٹ نہ چڑھایا گیا تو قوی امید ہے کہ وہ شخص پاک چین دوستی کو مزید بلندیوں پر پہنچا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ظفر محمود ان دنوں گوادر اور سی پیک سے منسوب دیگر منصوبوں کے لیے چینی وفود کے ساتھ کوآرڈی نیشن میں حکومتی معاونت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ خدا کرے کہ یہ بیڑا پار لگ جائے اور نظرِ بد اور نیتِ بد کا شکار یہ شاہکار منصوبہ اپنے اغراض و مقاصد کی منزل پا لے۔ ماہرین اور دانشوروں کے وفود کو چین کے زمینی حقائق باور کرانے کا کریڈٹ بھی انہیں جاتا ہے۔بے شک وہ پاک چین دوستی کے استحکام اور فروغ کے لیے پوری طرح کوشاں ہیں۔
اب چلتے ہیں وزیراعظم کے میثاقِ معیشت کی طرف۔ بحیثیت قائدِ حزبِ اختلاف وہ پی ٹی آئی کی حکومت کو میثاقِ معیشت کی پیشکش کرتے رہے ہیں کہ اقتصادی ترقی اور معیشت کی بحالی کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں مگر سابق حکومت کے مخصوص مائنڈ سیٹ اور چیمپئنزکی وجہ سے اس پیشکش کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ ہمارے ہاں میثاق سیریز کوئے سیاست کا حصہ بنتی جارہی ہے۔ میثاقِ جمہوریت سے لے کر میثاقِ معیشت تک سبھی امور سمجھوتوں اور مصلحتوں کے ساتھ ساتھ بقا کی خواہش کے علاوہ نجانے کیا کچھ اپنے اندر لپیٹے ہوتے ہیں۔ اپنے اپنے مقاصد کے حصول اور ایجنڈوں کو رواں دواں رکھنے کے لیے میثاق کے نام پر اکٹھے ہونا سیاستدانوں کے لیے محفوظ راستہ ہے۔ میثاقِ جمہوریت نے جمہوریت اور جمہوری اقدار کے لیے نہ کوئی توپ چلائی تھی اور نہ ہی میثاقِ معیشت سے اقتصادی اور معاشی استحکام کا خواب پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ صرف میثاق ہی کافی نہیں‘ بھلے کتنے ہی میثاق کر ڈالیں جب تک میثاق نیت اور ارادۂ نیک نیتی کے ساتھ نہیں ہوگا تب تک میثاقِ جمہوریت ہو یا میثاقِ معیشت‘ سبھی ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہیں۔
کھال بچاؤ پروگرام کے تحت اکٹھے ہونے والے سیاستدان ہوں یا اقتدار اور وسائل کے بٹوارے کے لیے مفادات کے جھنڈے تلے ایک ہونے والے۔ ایک دوسرے کے بدترین مخالف ہونے کے باوجود یہ سبھی میثاقِ جمہوریت کے نام پر کیسے کیسے گل کھلاتے رہے ہیں۔ البتہ ایک میثاق قوم کو دیکھنا باقی ہے کہ جب یہ سبھی سیاستدان اپنی نیت‘ارادوں اور اقدامات کے نتیجے میں پھیلی تباہیوں اور بربادیوں کے اثراتِ بد اور مکافاتِ عمل کی پکڑ سے گھبرا کر میثاقِ مصیبت کرتے نظر آئیں گے۔ اپنی اپنی مصیبت کے ایام ٹالنے کے لیے یہ ایک دوسرے کی بلائیں بھی لیں گے اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے یکجان اور یک زبان بھی نظر آئیں گے۔ میثاقِ جمہوریت ہو یا میثاق معیشت‘ گٹھ جوڑ اور مُک مُکا کی صورتیں ہیں۔ ایک دوسرے کے بد ترین مخالف اور باہم دست و گریباں بھی مشترکہ مفادات کے لیے منٹوں سیکنڈوں میں شیروشکر ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے شدید مخالف نواز شریف اور بے نظیر بھٹو حصولِ اقتدار کے لیے میثاقِ جمہوریت کے نام پر بالآخر ایک ہو گئے تھے۔ پھر آصف علی زرداری اور نواز شریف نے کس طرح بڑا بھائی اور چھوٹا بھائی بن کر اقتدار کا بٹوارہ کیا اور چند ماہ بعد ہی یہ بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی کس طرح ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر گھسیٹنے کی بڑھکیں مارا کرتے تھے آج یہ سبھی دوبارہ اکٹھے اور مفادات کے پرچم کے سائے تلے ایک ہیں۔
یہ سیاست ہے پیارے‘ اس میں کسی کا کوئی بھائی ہے نہ بہن‘ کوئی دوست ہے نہ رفیق‘ ہمنوا ہے نہ کوئی ہمراز۔ ان کے درمیان بس ایک ہی رشتہ ہوتا ہے‘ وہ ہے مفادات کا رشتہ۔ جب تک مفادات چلتے رہیں گے‘ یہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک دوسرے پر واری واری جاتے رہیں گے۔ جہاں مفادات کو خطرہ لاحق ہوا وہاں ''اصولی سیاست‘‘ کا بخار اور عوام کا درد جاگ جاتا ہے۔ ایک دوسرے پر ''واری واری‘‘ جانے والے ایک دوسرے کو گھسیٹنے‘ چور‘ ڈاکو اور لٹیرا سمیت کچھ بھی کہنے سے گریز نہیں کرتے۔ آف دی ریکارڈ راز و نیاز پل بھر میں وائٹ پیپر بن جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو اس قدر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ الامان و الحفیظ۔ عوام تو اس سیاسی سرکس کے تماشائی ہیں۔ سیاستدان اپنی اپنی باری پر اپنا اپنا آئٹم پیش کرکے آتے جاتے رہیں گے۔ عوام ان کے ''کرتبوں‘‘ پر تالیاں بجاتے رہیں گے۔ امن و امان سے لے کر حب الوطنی تک‘ نیت سے لے کر معیشت تک‘ گورننس سے لے کر میرٹ تک‘ ملکی دولت اور وسائل کی بندر بانٹ سے لے کر اقتدار کے بٹوارے تک ہر سطح پر ہر کسی نے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا‘ جس میں ان کی اپنی غرض اور اپنا مفاد غالب نہ رہا ہو۔
ملک میں کوئی ایسا حکمران آج تک نہیں آیا‘ جس نے قانون‘ ضابطے‘ میرٹ اور گورننس کو اپنے تابع فرمان نہیں بنایا۔ اپنے کاروبار اور مالی ذخائر میں ہوشربا اضافے سے لے کر اقتدار کے حصول اور طول تک ہر جائز و ناجائز حد تک جانے والے حکمرانوں نے کب اور کون سا گل نہیں کھلایا؟ اس کی تفصیل میں اگر جائیں تو ممکن ہے پوری کتاب لکھنا پڑ جائے۔ یہ سبھی میثاق ان کی نت نئی توجیہات‘ جواز‘ عذر اور ڈھکوسلوں کے سوا کچھ نہیں۔ کون سا میثاق عوام کے ساتھ مذاق نہیں بنا۔پچاس پچاس لگژری گاڑیوں پر جن حکمرانوں کے قافلے مشتمل ہوں۔ اللے تللے بدستور چل رہے ہوں۔ مفادِ عامہ ترجیحات میں شامل نہ ہو۔ تھانہ‘ ہسپتال اور پٹوار میں عوام کے لیے دھتکار پھٹکار عام ہو۔سائل داد رسی سے محروم ہو۔ مہنگائی کے بھڑکتے الاؤ میں عوام کی قوتِ خرید جل کر بھسم ہو چکی ہو۔ سماجی انصاف سمیت قانون اور ضابطے طاقتور کے سامنے بے بس ہوں۔ غریب غریب تر اور امیر کی امارت کا ٹھکانا نہ ہو۔ دو وقت کی روٹی اور بنیادی ضروریاتِ زندگی روز بروز دسترس سے باہر ہوتی چلی جارہی ہوں۔ رسد کی چادر طلب کے آگے تھوڑی پڑ چکی ہو۔ وہاں کون سی معیشت۔ کیسی گورننس اور کہاں کی حکمرانی۔ مملکتِ خداداد میں بسنے والے عوام نما رعایا کی حالتِ زار اور طرزِ حکمرانی کے جوہر کھلنے کے بعد تو یقین ہو چلا ہے کہ مایوسی مقدر بنتی چلی جارہی ہے۔ بھلے مایوسی کفر ہی کیوں نہ ہو۔