حالات نے ایک بار پھر پلٹا کھایا ہے۔ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکینِ اسمبلی کو عوام نے اس طرح مسترد کیا ہے کہ ''نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے‘‘۔
عوام نے سازش اور مداخلت کے بیانیے کو اس طرح پذیرائی دی کہ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سازش سے آنے والے میرٹ پر فارغ ہوئے ہیں۔ سیاسی سرکس میں تین ماہ سے نت نئے آئٹم اس قدر تیزی سے شامل ہو رہے ہیں کہ مسلسل کھڑکی توڑ رش لگا ہوا ہے۔ تختِ پنجاب کی کھنچا تانی بدستور جاری ہے۔ جس ڈرامائی انداز سے مسلم لیگ (ن) نے تحریک انصاف سے پنجاب کا تخت چھینا تھا‘ اس سے کہیں بڑے ڈرامائی اور حیرت انگیز انتخابی نتائج کے بعد تختِ پنجاب مسلم لیگ (ن) کے ہاتھوں سے صاف نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔ تاہم مزید کسی غیر متوقع صورتحال کا امکان بہرحال موجود ہے کیونکہ گزشتہ تین ماہ میں جتنے سرپرائز اور نت نئے موڑ دیکھنے کو ملے ہیں‘ اس تناظر میں کسی انہونی کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا جبکہ موجودہ حالات کے تناظر میں اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے شکست تسلیم کر لینے کے بعد تحریک انصاف کے اتحادی چوہدری پرویز الٰہی کا وزیراعلیٰ بننا ٹھہر گیا ہے۔ تحریک انصاف کے اندر مبینہ طور پر یہ چہ مگوئیاں اور بحث جاری ہے کہ عوام نے مینڈیٹ تحریک انصاف کو دیا ہے‘ اس لیے وزارتِ اعلیٰ پر حق بھی تحریک انصاف کاہے؛ تاہم یہ بات طے ہے کہ حمزہ شہباز کے مقابلے پر تحریک انصاف کا کوئی امیدوار ہوتا تو حالات خاصے مختلف ہوتے کیونکہ جو ٹف ٹائم چوہدری پرویز الٰہی نے (ن) لیگ کو دے ڈالا ہے‘ وہ تحریک انصاف کے بس کی بات نہیں تھی۔
عثمان بزدار تو بگڑتی صورتحال کو بھانپ کر خود اسمبلی سے سرکاری گاڑی چھوڑ کر پرائیویٹ کار میں روانہ ہو گئے۔ پنجاب اسمبلی کا محاذ چوہدری پرویز الٰہی نے اس طرح سنبھالے رکھا کہ مسلم لیگ (ن) کواسمبلی کے اجلاس کے لیے متبادل جگہ جانا پڑا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکمت عملی ہو یا حربے اور ہتھکنڈے‘ ان سبھی کو آڑے ہاتھوں لینے کا کریڈٹ بھی بلاشبہ انہی کو جاتا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا‘ سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ایسے حالات میں اونٹ غیرمتوقع طور پر لیٹ کر حیران بھی کر سکتا ہے۔ اس موقع پر مریم نواز اور ملک احمد خان کا شکست تسلیم کرنا یقینا قابلِ تعریف اور ہماری سیاست میں نیا ایڈیشن ہے۔ خدا کرے یہ ایڈیشن زندہ اور چلتا رہے۔ ہارے ہوئے لشکر میں ایسی اعلیٰ ظرفی بہادری کی علامت ہوتی ہے۔ تختِ پنجاب کا فیصلہ بھی اگلے دو روز میں ہو جائے گا لیکن ملک و قوم کو درپیش مسائل اور چیلنجز جوں کے توں ہیں جبکہ مزید ڈیڈلاک بھی متوقع ہیں۔ حکمران اسی طرح آتے جاتے اور بدلتے رہیں گے‘ عوام کڑے فیصلوں کی سولی پر لٹکتے رہیں گے۔ مملکتِ خداداد کی مجبوریوں کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا رہے گا۔ مملکتِ خداداد میں بسنے والوں کے نہ حالات بدلیں گے اور نہ ہی حکمرانوں کا مائنڈ سیٹ۔ شوقِ حکمرانی کے ماروں کے سبھی شوق پورے ہوتے رہیں گے۔ پاکستانیت اور انسانیت سے بے نیاز طرزِ حکمرانی اور من مانی کے سبھی مناظر جاری رہیں گے۔ بیانیوں کے چورن بکتے رہیں گے۔ عوام تبدیلی کی آس میں بھٹکتے اور لٹتے رہیں گے۔ آنے والے ادوار بھی ماضی کے بیانیوں اور جھانسوں کے نئے ایڈیشن ہوں گے۔
کارکردگی اور طرزِ حکمرانی سے بے نیاز عوام بھی انہی بیانیوں پر سر دھنتے اور گریبان چاک کیے آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے کے نعروں سے گلے پھاڑتے رہیں گے۔ مملکتِ خداداد کو آزاد ہوئے پون صدی بیت چکی ہے‘ 75برس کا تقریباً نصف تو ایک ہی خاندان کے شوقِ حکمرانی کی بھینٹ چڑھ گیا اور آج بھی خود اعتمادی کا عالم یہ ہے کہ انتہائی فخریہ انداز میں محترمہ مریم نواز صاحبہ فرماتی ہیں کہ ہم نسل در نسل عوام کی خدمت جاری رکھیں گے‘ گویا ہماری آنے والی نسلوں کی بھی خیر نہیں۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے اقتدار کی کئی باریاں لگانے والی پیپلز پارٹی عوام کو زندہ درگور کرکے خود زندہ ہے۔ ماضی کے دیگر ادوار بھی ہماری تاریخ کے شرمناک ابواب کے سوا کچھ نہیں۔ آئیے ماضی قریب کے چند ادوار کے ورق پلٹتے ہیں۔
پرویز مشرف صاحب نے '' سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا مگر ملک و قوم کو نہ صرف پرائی جنگ کا ایندھن بنایا بلکہ خود مختاری اور غیرتِ قومی کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ اس طرح روشن خیالی کے نام پر جن اندھیروں سے قوم کو دوچار کیا گیا وہ اتنی طویل داستان ہے کہ اس کے لیے کئی کالم بھی ناکافی ہیں۔ قبل ازیں 70ء کی دہائی کے آخر میں ضیاء الحق صاحب نے بھی اپنے اقتدار کے استحکام کی خاطر ملک و قوم کو پرائی جنگ میں جھونک کر اس ملک پر اتنا بوجھ لاد دیا کہ آج تک ان کے اثرات سے نکل کر یہ ملک اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہو پایا۔ افغان مہاجرین کے ساتھ ایثار اور ان کی آباد کاری کی قیمت قوم آج بھی کچھ یوں چکا رہی ہے کہ ملکی معیشت کے بیشتر شعبوں پر ان کی اجارہ داری اس طرح قائم ہے کہ پاکستان کی سرکار اور قوم‘ دونوں ہی ان کی مرہونِ منت ہیں جبکہ منشیات جیسے ناسور نے اس قوم کو اس طرح گھائل کیا ہے کہ کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی سبھی زخم ہرے ہیں اور ان سے خون رستا ہے۔ فرقہ واریت سے لے کر قوم پرستی جیسے عفریت کے مسیحائی کے نام پر لگائے گئے ٹیکے‘ زہر کے انجکشن ثابت ہو چکے ہیں۔
تعجب ہے کہ چندوں‘ بھتوں‘ لوٹ مار‘ دادا گیری‘ قتل و غارت اور دیگر ذرائع سے سمیٹے ہوئے مال کو ملک سے باہر بھیجنے والے کچھ رہنما ریڈار کی رینج میں آنے کے باوجود ہر دور میں حکومتی حلیف اور شریکِ اقتدار بن جاتے ہیں۔ سیاسی مصلحتیں ہوں یا اقتدار کی بھوک‘ ماضی میں انہیں گلے لگایا جاتا رہا۔ ان کے ہاتھ معصوم عوام کے خون سے تر ہیں۔ کتنا خون بہایا گیا‘ کتنی ماؤں کی گود اُجاڑی گئی‘ کتنے سہاگ دن دہاڑے خون میں نہلائے گئے‘ کتنی بہنوں کے بھائی آج تک گھر نہیں لوٹے‘ کتنے بچوں کو یتیمی کا روگ لگایا گیا۔ گزشتہ پچاس برس کے دوران سب حکمران کراچی کے ان حالات کے کسی نہ کسی طرح ذمہ دار ہیں جبکہ مکافاتِ عمل کا سلسلہ جاری ہے اور سارے کردار اپنا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اگر کمی ہے تو عبرت پکڑنے والوں کی۔ مصلحتوں اور مجبوریوں کا یہ سفر جاری رہے گا یا کبھی اس طوق کو گلے سے اُتار پھینکا جائے گا؟ کیا یہ کہہ دینا کافی ہو گا کہ وہ اب تائب ہو چکے ہیں اور ماضی سے لا تعلقی اختیار کر چکے ہیں؟ ہرگز نہیں! حکمرانوں کو ان شریکِ جرم افراد سے سبق سیکھنا اور عبرت حاصل کرنا ہو گی‘ جنہوں نے مصلحتوں اور مجبوریوں کو گلے لگایا‘ اور یہ مجبوریاں اُن کے گلے کا طوق بنتی چلی گئیں۔
ماضی کے حکمرانوں نے حصولِ اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک قوم کو کیسی کیسی مشکلات اور قیامت خیز آزمائشوں سے دوچار نہیں کیا۔ ضیاء الحق کے دور میں لگائی گئی سیاسی پنیری اس خاردار بیل کا جنگل بن چکی ہے جو سسٹم کو آج بھی اپنے حصار میں جکڑے ہوئے ہے۔ اس پنیری کے سبھی چہرے وفاداریوں اور پارٹی کی تبدیلیوں کے ساتھ ہر دور میں شوقِ اقتدار پورا کرتے چلے آ رہے ہیں جبکہ مشرف صاحب کے دور میں لگائی گئی پنیری بھی اپنے باغباں کی نازک حالت سے بے نیاز اقتدار کی موجیں لوٹ رہی ہے۔ حال مستقبل کا آئینہ ہوتا ہے۔ جہاں ماضی کا کوئی حال نہیں وہاں حال کا مستقبل کیا ہوگا؟